طرفہ تماشا یہ تھا کہ نام نہاد ڈان لیکس پر سات رُکنی تحقیقاتی کمیٹی اُس وقت بنی جب پرویز رشید کی برطرفی کو نو دن اور ڈان لیکس نامی شوخ چشم حسینہ کو اپنی چھب دکھائے ایک ماہ ہو چلا تھا۔ جسٹس (ر) عامر رضا خان اس کے سربراہ تھے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز‘ پنجاب کے محتسب اعلیٰ نجم سعید‘ ڈائریکٹر ایف آئی اے عثمان انور‘ انٹیلی جنس بیورو کے ایک نمائندے کے علاوہ ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر کامران خورشید اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر نعمان سعید بھی اس عزت مآب کمیٹی کے رکن تھے۔ حسنِ کارکردگی کے باعث یہی دو بریگیڈیئر صاحبان‘ پاناما کی شہرۂ آفاق جے آئی ٹی کا حصہ بھی بنے اور وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ کمیٹی کو ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنا تھی لیکن وزیراعظم کو مبتلائے اذیت رکھنے کے لیے وہ کچھوے کی چال چلتی رہی۔ راحیل شریف تو 29نومبر کو اپنی ناآسودہ حسرتوں کی راکھ‘ دفتر کے لان میں دفن کرکے گھر چلے گئے لیکن اُن کی ''متروکہ املاک‘‘ سرگرم رہیں اور اس کمیٹی کو بھی مادرِ مشفق کی طرح آغوش میں لے لیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمان سنبھالی لیکن موسم نے کوئی نمایاں کروٹ نہ لی۔
جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری میں میرا بھی خاصا سرگرم کردار رہا تھا جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ میں اکثر مضطرب رہتا تھا کہ اگر صورتحال جنرل راحیل شریف جیسی ہی رہی تو وزیراعظم کیا سوچیں گے؟ ان دنوں تو نہیں لیکن اب وہ اکثر شگفتگی میں لپٹی لطیف سی چُٹکی ضرور لے لیتے ہیں اور میں بے دلیل سا ہوکر رہ جاتا ہوں۔
اسی نفسیاتی خلجان کے زیر اثر میں نے 21 مارچ 2016ء کو جنرل باجوہ کے سٹاف آفیسر کو پیغام بھیجا کہ مجھے چیف سے ملنا ہے۔ فوراً ہی اگلے دن شام 6 بجے کا وقت طے ہوگیا۔ 22مارچ کی اس طویل ملاقات کا کوئی قابلِ ذکر حاصل نہ تھا۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ ''سر اب تو کمیٹی میں سب کچھ طے پا گیا ہے۔ میں ہرگز وزیراعظم کو پریشان نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ معاملہ تو مجھے ورثے میں ملا ہے۔ جس دن پرویز رشید کو فارغ کیاگیا‘ اُسی دن یہ مسئلہ ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ کمیٹی بنانے اور معاملہ انجام تک پہچانے پر اصرار چودھری نثار علی نے کیا تھا‘‘۔ آج کم و بیش سات برس بعد جنرل باجوہ نے یہی بات صحافی شاہد میتلا کو بتائی ہے کہ ''چودھری نثار نے کہا تھا کہ ہمیں ڈان لیکس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے‘‘۔ میں نے ملاقات کی تفصیل وزیراعظم کو سنائی تو وہ خفگی اور آزردگی سے بوجھل لہجے میں بولے ''دیکھیں صدیقی صاحب! یہ حال ہے وزیراعظم کا جو آئین کے تحت ملک کا چیف ایگزیکٹو کہلاتا ہے لیکن اپنی مرضی کی کابینہ بھی نہیں بنا سکتا۔ ہم جانے کیا کیا کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ایک اخباری خبر جو نہ جانے کہاں سے آئی‘ حکومت کے خلاف چارج شیٹ بنادی گئی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ وزارتِ عظمیٰ ایک طرح کی نوکری بن کر رہ گئی ہے۔ سر جھکا کر ہر جائز و ناجائز مانتے رہو تو ٹھیک ورنہ رائی کا پہاڑ بنا کر وزیراعظم کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔
کوئی پونے چھ ماہ بعد کمیٹی نے سفارشات پیش کردیں۔ 29 اپریل کو ایک اعلامیہ میڈیا کی زینت بنا کہ ''وزیراعظم نے رپورٹ کے پیراگراف 8 کی تمام سفارشات منظور کر لی ہیں۔ ظفر عباس‘ ڈان اخبار اور سرِل المیڈا کا معاملہ اے پی این ایس کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ طارق فاطمی کو منصب سے ہٹایا جا رہا ہے۔ رائو تحسین کے خلاف انضباطی کارروائی ہوگی‘‘۔ کچھ ہی دیر بعد آئی ایس پی آر کا ایک ٹویٹ آیا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ ''سرکاری اعلامیہ نامکمل ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سو نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔ ''Notification is Rejected‘‘۔ سخت مزاج باپ کی گھن گرج رکھنے والے اس اعلامیے کے سامنے وزیراعظم ہائوس کا اعلامیہ معصوم بچے کی طرح میڈیا کے ایک کونے میں دبک گیا۔
نفسیاتی خلجان ہی کے زیر اثر میں نے فیصلہ کیا کہ فوری طور پر آرمی چیف سے مل کر اس آگ کو ٹھنڈا کیا جائے۔ وزیراعظم کسی سیاسی جلسے کے لیے اوکاڑہ میں تھے۔ بصد مشکل اُن سے رابطہ ہوا۔ سٹاف آفیسر نبیل اعوان کے ذریعے پیغام آیا کہ ''آپ جو مناسب سمجھتے ہیں‘ کریں‘‘۔ آنکھ کے تازہ تازہ آپریشن کے باوجود میں بھاگم بھاگ آرمی چیف کے سسر میجر جنرل (ر) اعجاز امجد کے گھر پہنچا۔ وہ خود بھی اس صورتحال پر خاصے پریشان تھے۔ وہیں سے جنرل باجوہ کے سٹاف افسر کو پیغام دیا کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ وہ لاہور سے واپسی کے سفر پہ تھے۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ ملازم نے جنرل صاحب کے کان میں سرگوشی کی۔ وہ اٹھے اور معذرت کرتے ہوئے کہنے لگے ''ایک ضروری مہمان ہے۔ میں بس ابھی آیا پانچ منٹ میں‘‘۔ وہ واقعی جلد پلٹ آئے۔ ان کے ساتھ سول کپڑوں میں فوجی ڈیل ڈول رکھنے والا مستعد اور سجیلا مردِ رعنا بھی تھا۔ اس نے مجھے سیلوٹ کیا۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ جنرل اعجاز بولے ''قمر کی طرح یہ بھی آپ کا شاگرد ہے‘‘۔ مردِ رعنا بولا ''سر میں سیّد عاصم منیر ہوں‘‘۔ جنرل اعجاز نے لقمہ دیا ''جنرل سیّد عاصم منیر۔ ڈی جی ایم آئی‘‘۔ پل بھر میں عاصم کی نوعمر تصویروں اور اپنے دوست سیّد منیر شاہ کی یادوں کا نگار خانہ سا کھل گیا۔ عاصم جلدی میں تھا۔ کھڑے کھڑے رخصت ہو گیا۔ کوئی آدھ پون گھنٹہ گزرا ہوگا کہ آرمی چیف کا سٹاف آفیسر آ گیا۔ ''سر چیف انتظار کررہے ہیں‘‘۔ جنرل (ر) اعجاز امجد کے انکار کے باوجود میں نے اپنی کمک کے لیے اصرار کرکے انہیں ہمراہ لیا۔ تین چار منٹ بعد ہی وہ مجھے ڈرائنگ روم میں تنہا چھوڑ کر اندر چلے گئے۔ دروازہ کھلا۔ نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس جنرل باجوہ کمرے میں داخل ہوئے۔ چہرہ سپاٹ تھا اور بدن بولی کے انگ انگ سے اشتعال کو چھوتا اضطراب ٹپک رہا تھا۔ میں پچھلے کئی گھنٹوں سے اس ادھیڑ بُن میں تھا کہ گفتگو کا آغاز کیسے کروں گا! ''ریجیکٹڈ‘‘ جیسے انتہائی کرخت‘ ناتراشیدہ اور مذمت کی حدوں کو چھوتے عسکری ردّعمل پر وزیراعظم کے متوقع ردعمل کی ترجمانی کے لیے اپنے مکالمے کو کس طرح مؤثر بناؤں گا؟ عین ممکن ہے کہ جنرل باجوہ کہہ دیں کہ یہ سب کچھ ان کی منظوری کے بغیر ہوا ہے۔ لیکن آرمی چیف نے آنِ واحد میں مجھے ان سارے خرخشوں سے آزاد کردیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد میرے سامنے بچھی کرسی سنبھالی اور عسکری جلال کے بارود پاش لہجے میں بولے؛
"Sir I have been stabbed in the back... I have been cheated... I am badly hurt."
(سر میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیاگیا ہے۔ مجھے دھوکا دیاگیا ہے۔مجھے شدید صدمہ پہنچا ہے )۔(جاری )