9مئی 2023ء کی پہلی سالگرہ کے ساتھ ہی‘ 365دنوں پر محیط لمبی ڈھیل کو فولادی ڈھال بناتے ہوئے‘ پی ٹی آئی ایک اور فیصلہ کن 9مئی کے لیے ہتھیار تیز کر رہی ہے۔ اس کا لہجہ ''بہارِ اقتدار‘‘ کے خوش رنگ موسموں میں بھی شہد آشنا نہ تھا لیکن اب اس کے اَنگ اَنگ سے شرارے پھوٹ رہے ہیں اور ہونٹ تیزاب کے فوارے بن چکے ہیں۔ مبصّرین اس جارحانہ پن کے اسباب کا سراغ لگا رہے ہیں۔
دو سال قبل‘ 25مئی 2022ء کو پشاور سے اسلام آباد پر یلغار کی گئی۔ اب پی ٹی آئی نے پولیس کی کارروائی کو فسطائی اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے 25مئی کو ''یومِ سیاہ‘‘ کا نام دیا ہے۔ ساتھ ہی فرمایا کہ ''اس سے پہلے کہ بحران پیچیدہ تر ہو اور معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ جائیں‘ ظلم ترک کرکے عمران خان کو رہا کر دیا جائے‘‘۔ پارٹی کے باضابطہ پریس ریلیز میں کہا گیا ''9 مئی'فالس فلیگ آپریشن‘ کی آڑ میں خواتین سمیت سینئر قائدین اور دس ہزار سے زائد کارکن زندانوں کی نذر کر دیے گئے‘‘۔
چند دن قبل‘ عمران خان سے ملاقات کے بعد اڈیالا جیل کے باہر‘ سابق صدر عارف علوی کے پہلو میں کھڑے ہوکر عمر ایوب نے کہا کہ ''عمران خان صاحب نے اس چیز کو اجاگر کیا ہے کہ 9مئی‘ لندن پلان کا حصہ تھا۔ جس طرح 9مئی 2023ء ایک سوچی سمجھی سازش تھی‘ اُسی طرح 11مارچ 1971ء بھی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ اُس وقت جنرل یحییٰ خان شیخ مجیب الرحمن سے ملے تھے اور فیصلہ ہوا تھا کہ قومی اسمبلی کا سیشن کس روز بلایا جائے۔ جس وقت واپس پنڈی آئے‘ اگلے دن ملٹری آپریشن لانچ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ ''وزیراعظم عمران خان‘‘ نے زور دیا کہ جنرل یحییٰ خان کا ایکشن مسلح افواج یا ادارے کا نہیں‘ فردِ واحد کا ایکشن تھا۔ اسی طرح لندن پلان کا جو معاملہ ہے وہ بھی مسلح افواج یا ادارے کا نہیں‘ فردِ واحد کا ہے‘‘۔
گزشتہ چار برسوں میں متعدد نوٹس جاری کرنے اور آخری تنبیہ کے بعد‘ سی ڈی اے نے پی ٹی آئی دفتر کے تجاوزات گرائے تو اسے ''مقبوضہ کشمیر‘ فلسطین اور غزہ‘‘ جیسی کارروائی سے تعبیر کیا گیا۔ اسی پریس کانفرنس میں پارٹی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا ''عمران خان نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے کہ مجھے (عمران خان کو) قتل کر دیں۔ اب بات اسی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے‘‘۔ ایک اور لیڈر نے کہا ''کام ان لوگوں کی مرضی کے خلاف ہوا تو انہوں نے 9مئی کا ڈرامہ کر دیا‘‘۔
چند دن پہلے اعظم سواتی کا ایک بیان سامنے آیا۔ فرمایا ''جمعرات کو جب میں پہلی بار جیل میں خان صاحب سے ملا تو انہوں نے کہاکہ آزاد کشمیر میں جو کچھ ہوا وہ تو محض ٹریلر ہے۔ تیاری کریں کہ انقلاب آنے والا ہے۔ میں نوید دے رہا ہوں کہ وہ انقلاب خیبر پختونخوا سے اُٹھے گا۔ ہر گھر‘ ہر بیٹی‘ ہر ماں‘ ہر نوجوان‘ ہر بوڑھا ان حالات سے تنگ ہے۔ وہ اپنی آزادی کے لیے اپنے لیڈر‘ قیدی نمبر 804‘ اُس کی عظمت‘ اُس کے نظریے کے لیے خدا کے فضل سے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے‘‘۔ علی امین گنڈاپور نے‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار‘ قومی بجٹ سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کرنے کا ''انقلابی اقدام‘‘ کرنے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ''ہمارے پاس اب بہت وسائل ہیں۔ ہم ان وسائل کو بروئے کار لا کر اپنے ریونیوز بڑھا سکتے ہیں۔ ہماری کسی کو ضرورت نہیں تو ہمیں بھی کسی کی ضرورت نہیں‘‘۔ وہ اسلام آباد پر قبضہ کرنے ا ور عمران خان کو جیل سے نکال لانے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ تمام مرکزی قائدین کہہ رہے ہیں کہ انہیں اڈیالا جیل سے فقط ایک اشارے‘ ایک ٹیکسٹ پیغام کا انتظار ہے۔ عارف علوی فرماتے ہیں ''پریشر ککر پھٹنے والا ہے‘‘۔
یہ اضطراب‘ ہیجان اور جارحانہ پن بے محل نہیں۔ عمران خان لگ بھگ نو ماہ سے جیل میں ہیں۔ تمام تر حربوں کے باوجو د درِ زنداں وا نہیں ہو رہا۔ کوئی بیرونی غم گسار سامنے آ رہا ہے نہ اندرونی طور پر کوئی احتجاجی لہر اٹھ رہی ہے۔ مایوسی گہری ہونے کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ کوچۂ رقیب میں سَر کے بَل جانے‘ مسلسل منتِ درباں کرنے اور پیہم دستکیں دینے کے باوجود ''درِ جاناں‘‘ وا نہیں ہو رہا اور اب تو دوٹوک الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ ''فسادیوں سے کوئی بات نہیں ہو گی‘‘۔ عمران خان پہلے ہی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے بات چیت کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔ سو پی ٹی آئی کے پاس اب اپنی ''تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان‘‘ سے بیٹھک کرتے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن زیرک اور مدبّر سیاستدان ہیں۔ وہ ابھی تک اس بیٹھک کا حصہ نہیں بنے۔ اُن سے یہ توقع بعید ہے کہ وہ کسی تازہ دم 9مئی کے لیے اپنی جماعت کو پی ٹی آئی کی بھٹی میں جھونک دیں گے۔ سو اضطراب بڑھتا جا رہا ہے‘ بے کلی فزوں ہو رہی ہے۔
ایک اور 9مئی کی اکساہٹ کا بڑا سبب القادر ٹرسٹ کیس بھی ہے جو قانونی تقاضوں کے عین مطابق (Due Process) فطری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ شواہد دو جمع دو چار کی طرح واضح اور ناقابلِ تردید ہیں۔ وکلا بھی کہہ رہے ہیں کہ 'نوشتۂ دیوار‘ کوئی حوصلہ افزا نہیں۔ سو فیصلہ آنے سے پہلے پہلے کوئی بھونچال لانا ضروری ہے۔ اُدھرحالیہ ضمنی انتخابات نے بھی فارم 45اور 47کے بیانیے سے ہوا نکال دی ہے۔ کسی طرف سے دھاندلی کا ادنیٰ سا الزام بھی نہیں لگا۔ خود اپنے صوبے میں ہار جانے والی پی ٹی آئی کو واضح پیغام ملا ہے کہ اب اس کا ووٹر اس کی بے ہنری اور بے تدبیری سے عاجز آتا جا رہا ہے۔
معاشی صورتحال میں مسلسل بہتری آنا‘ مہنگائی کی شرح کا کم ہونا‘ پی ٹی آئی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف کا مقاطعہ نہ کرنا‘ بیرونی سرمایہ کاروں کا امید افزا رویہ‘ سٹاک ایکسچینج کا مستحکم ہونا‘ پی ٹی آئی کے لیے اچھے اشارے نہیں۔ پیشتر اس کے کہ پاکستان مضبوط ہوکر خان صاحب کو قصّۂ پارینہ سمجھنے لگے‘ کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ عدلیہ کے حالیہ تحرک‘ بالخصوص اسلام آباد ہائیکورٹ سے آتی ہواؤں اور آتشیں ریمارکس سے بھی پی ٹی آئی یہ تاثر لے رہی ہے کہ لوہا پوری طرح گرم ہے اور ضرب لگانے کا لمحہ آن پہنچا ہے۔
خان صاحب سے منسوب عمر ایوب کے بیان پر غور کیا جائے تو انہوں نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کو 1971ء کے پاکستان سے تشبیہ دی ہے۔ اُس وقت کے شیخ مجیب الرحمن کی طرح‘ خان صاحب کو آج کا مقبول ترین لیڈر قرار دیا ہے۔ اُس وقت کے فوجی آپریشن کو آج پی ٹی آئی کے خلاف اقدامات کے ہم پلہ کہا ہے۔ اُس وقت کی مہم جوئی کو‘ فوج یا اداروں کے بجائے‘ فردِ واحد‘ جنرل یحییٰ خان کے انفرادی فیصلے کہتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آج بھی فیصلے فوج نہیں‘ فردِ واحد (جنرل عاصم منیر) کر رہا ہے۔ بین السطور مجیب الرحمن کی ''جنگِ آزادی‘‘ کو عمران خان کی ''حقیقی جنگ ِآزادی‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ سندیسہ دیا گیا ہے کہ پاکستان‘ خدانخواستہ ایک اور سقوط کا نشانہ بن سکتا ہے۔ یہ بھرپور علامتی تقابل کرتے ہوئے خان صاحب اور عمر ایوب ایک علامت کا تذکرہ بھول گئے یا شعوری طور پر اُس کا نام لینے سے گریز کیا۔ اگر صورتِ حال 1971ء ہی کی طرف جا رہی ہے تو یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ ''مکتی باہنی‘‘ کا کردار کون ادا کرے گا؟