نعرے کا نعرہ‘شغل کا شغل

فانی بدایونی کی طرح جس نے کہا تھا ؎
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
یار لوگوں کا ان دنوں وتیرہ ہے کہ زیر بحث معاملہ کوئی ہو‘تقریب سیاسی ہو یا غیر سیاسی‘شریک محفل بڑے بوڑھے ہوں‘مرد و زن‘سکول کالج کے لڑکے بالے، بجلی جائے، پر واز لیٹ ہو یا مہمان خصوصی کی آمد میں تاخیر، کسی نہ کسی بہانے ''گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگا دیتے ہیں گزشتہ روز کنیئرڈ کالج ‘ایف سی کالج‘ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور گوجرانوالہ کی تقریب میں مختلف عمر‘ سماجی طبقے اور رجحانات کے حامل لوگوں نے یہ نعرہ لگایا‘ گویا ؎
گفتگو کسی سے ہو‘ تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
وابستگان حکومت‘ مسلم لیگ ن کے عہدیدار اور کارکن اس نعرے بازی کو تحریک انصاف کی کارستانی اور سازش قرار دیتے ہیں' ٹیوے لگانا ان کا حق ہے۔ بہت سوں کا رزق ہی ٹیوے لگانے سے وابستہ ہے مگر سب جانتے ہیں کہ لاہور شریف برادران کا قلعہ ہے‘ مسلم لیگ ن کا گڑھ اور یہاں ایسی مخالفانہ نعرہ بازی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لینے کے دینے پڑ سکتے ہیںکہ ایم پی اے توفیق بٹ جیسے متوالوں کی کمی ہے نہ پولیس و انتظامیہ غافل۔ ایسی کسی حرکت کو معاف کرنے کا مطلب نوکری کا زیاں ہے اس کے باوجود ہر جا‘ ہر سو یہ نعرہ گونجنے لگا ہے تو یہ محض سازش اور منصوبہ بندی نہیں زبان زد عام نعرے کی تاثیر ہے یا پھر نوجوانوں اور بچوں کا شغل کیونکہ کوئی نعرہ جب مقبول ہوتا ہے تو پھر بہت سے لوگ اسے دلی جذبات کے اظہار سے زیادہ شغل میلے کے طور پر بلند کرتے ہوتے ہیں۔
تشویش مگر مجھے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں گونجنے والے نعرے اور ارکان اسمبلی کی باہم سر پھٹول پر ہے ۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کے مابین توتکار تو دھرنے کے معاملے پر شروع ہوئی اور طعن و تشنیع کا چشمہ دھرنے کی کامیابی و ناکامی سے پھوٹا مگر بات پہنچی ''گو نواز گو‘‘ تک۔ جس نے دونوں کو گتھم گتھا کر دیا۔ایک کا ہونٹ پھٹا دوسرے کا دانت ٹوٹا اور یوں دونوں طرف کے ارکان نے ایک دوسرے کو خوب زد و کوب کیا تاہم نوبت روایتی تیتر اور بٹیر تک نہ پہنچی جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ ؎
لڑتے لڑتے ہو گئی گم 
ایک کی چونچ اور ایک کی دم
مگر یہ رجحان خطرناک ہے۔ سیاست میں تلخی کا عنصر بڑھ رہا ہے اور رواداری ‘برداشت کا جذبہ مدہم پڑنے لگا ہے۔
پارلیمنٹ میں لڑائی جھگڑا صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشتر جمہوری ممالک میں معمول کی بات ہے جاپان اور بھارت کی پارلیمنٹس میں یہ تماشا کئی بار ہو چکا ہے خواتین ارکان پارلیمنٹ تک مارکٹائی سے محفوظ نہیں رہیں۔نوے کے عشرے میں ہماری قومی اسمبلی کئی بار میدان جنگ بنی۔ سابق صدر غلام اسحاق خان کے خلاف پیپلز پارٹی اور سردار فاروق احمد خاں کے خلاف مسلم لیگ ن کی ہلڑ بازی نے دونوں سابق صدور کو اپنی اپنی پارٹیوں اور وزراء اعظم سے بدگمان کیا کیونکہ اس موقع پر اپنے صدر کی مدد کے لیے کوئی سامنے نہ آیا۔ہنگامے کے بعد سپیکریا حکومت نے ان ارکان کے خلاف کارروائی بھی نہ کی جس سے یہ تاثر ملا کہ اس ہنگامہ آرائی کو حکمران جماعت کی خاموش تائید و حمایت حاصل تھی سابق وزیر اعظم اور سپیکر قومی اسمبلی مخدوم یوسف رضا گیلانی نے اپنی خود نوشت سوانح ''چاہ یوسف سے صدا‘‘ میں یہ کریڈٹ لیا ہے کہ پارلیمانی روایات کے مطابق انہوں نے مسلم لیگی ارکان کے خلاف کارروائی نہ ہونے دی ورنہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اس پرمُصر تھیں اور وزیر قانون کے علاوہ اٹارنی جنرل کے ذریعے مسلسل دبائو ڈالتی رہیں ۔جنرل پرویز مشرف گومشرف گو کا نعرہ سن کر اتنے بدمزہ ہوئے کہ دوبارہ ''غیر مہذب پارلیمنٹ‘‘ میں نہ آئے۔ ٹیکنو کریٹ حکومت کے بھی شائد اس لیے حامی ہیں کہ یہ مخلوق یس سر کے سوا کوئی آواز نہیں نکالتی۔
سابقہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ بالآخر ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کی چارج شیٹ کا حصہ بنی۔6اکتوبر 1958ء کے شمارے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ جریدے''ٹائم‘‘نے اس واقعہ کو ''کرسی پر موت‘‘ کا عنوان دے کر لکھا ''گزشتہ ہفتے مشرقی پاکستان صوبائی اسمبلی کے سپیکر عبدالحکیم نے حکومت کی معمولی سی اکثریت کو یوں ختم کیا تھا کہ کوئی آدھ درجن صوبائی وزراء کو حکومت کے عہدوں پر ناجائز قبضہ کرنے کی بناء پر ووٹ کے حق سے محروم کر دیا۔ان غضبناک وزراء نے پیپر ویٹ ‘ میز کے تختوں اور پردوں کے ڈنڈوں سے عبدالحکیم پر ضربیں لگائیں اور دیوانہ قرار دیکر ایوان سے نکال دیا۔ قائم مقام سپیکر کے طور پر ڈپٹی سپیکر شاہد علی نے کرسی سنبھال کر چھ وزراء کا حق رائے دہی بحال کیا تو حزب اختلاف غصے سے پھٹ پڑی اور شاہد علی کی اس قدر پٹائی کی کہ وہ خون میں نہانے لگا۔شدید زخمی حالت میں پولیس نے سپیکر کی جان چھڑائی مگر دو دن بعد وہ زخموں کی تاب نہ لا کر ہسپتال میں انتقال کر گیا‘‘
خدا کا شکر ہے ہماری قومی یا صوبائی اسمبلی میں دوبارہ ایسا کوئی خونیں واقعہ رونما نہیں ہوا البتہ شور و غوغا کا سلسلہ جاری رہا منتخب ایوانوں میں مضبوطی سے نصب کرسیوں کا رواج مشرقی پاکستان اسمبلی میں پیش آنے والے اس واقعہ کے بعد پڑا کہ کم از کم یہ آلہ ضرب کے طور پر استعمال نہ ہوں؛ تاہم قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں ہاتھا پائی اور سرپھٹول کے بعد اندیشے جنم لینے لگے ہیں کہ اگر چار چھ معزز ارکان اسمبلی اس حد تک جا سکتے ہیں تو بھری اسمبلی میں جذبات کا عالم کیا ہو گا اور ایک دوسرے سے اختلاف رائے کا جمہوری حق کیا گل کھلائے گا۔ 
نعروں کی مقبولیت کا انحصار معروضی حالات پر ہوتا ہے۔ ماضی میں ذہین سیاسی کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف اور اپنی قیادت کے حق میں کئی نعرے ایجاد کیے ‘ گلا پھاڑ کر لگائے بھی مگر زبان زد عام نہ ہو سکے 1970میں پیپلز پارٹی نے ''بھٹو آ گیا میدان میں ہے جمالو‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو زبان سے نکلا کوٹھوں چڑھا کے مصداق ہر سو پھیل گیا ۔مودودی ٹھاہ‘ بھاشانی ٹھاہ کے نعرے اگرچہ بدذوقی کا مظہر تھے مگر ہوش پرجوش غالب رہا اور نعرہ خوب گونجا۔1977ء میں پیپلز پارٹی کو اس کا جواب''گنجے کے سر پر ہل چلے گا‘ آج نہیں تو کل چلے گا‘‘ کی صورت میں ملا ۔ہل پاکستان قومی اتحاد کا انتخابی نشان تھا۔ بھٹو صاحب اپنے مخالفین کو اہمیت کم دیتے تھے مگر زچ ہو کر ایک عوامی جلسے میں بول اٹھے‘‘ یہ تمہارے باپ کا سر ہے کہ ہل چلے گا‘‘
نعرے مقبول ہونے کی کئی سیاسی ‘ سماجی ‘عمرانی تمدنی ‘ تہذیبی اور جذباتی وجوہات ہوتی ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی‘ بھاشانی وولی گروپ عرصہ دراز تک نعرہ لگاتے رہے ''چاہتا ہے یہ ہر انسان ، روٹی کپڑا اور مکان‘‘ مگر مقبول یہ اس وقت ہوا جب سماجی اور طبقاتی تفاوت کو سلیقے سے اجاگر کر کے پیپلز پارٹی نے 1970ء میں لگایا اور انتخابات کا میلہ لوٹ لیا۔ اب یہی نعرہ بلاول بھٹو لگاتا ہے تو لوگ زیر لب مسکراتے ہیں۔
گو نواز گو کا نعرہ پنجاب کے گلی کوچوں اور سیاسی و غیر سیاسی تقریبات میں گونجنے لگا ہے کم عمر بچوں اور زیر تعلیم نوجوانوں کی زبان پر اس نعرے کارواں ہونا قیامت ہے۔ توانائی اور جذبوں سے بھر پور جوانی سماج بدلنے کی امنگ اور سب کچھ تلپٹ کر کے اپنی دنیا آپ بسانے کی سوچ کب کسی وزیر‘ مشیر‘ طاقتور اور پولیس و انتظامیہ کے جبر کی پروا کرتی ہے ۔ ہپ ہپ ہُرے‘بو کاٹا نہ کہا گو نواز گو کہہ دیا ۔اپنے خوش بیگانے زچ۔ نعرے کا نعرہ شغل کا شغل اور جذبات کا بے باکانہ اظہار بھی۔
اعتزاز احسن نے وزیر اعظم کو مفت اور قیمتی مشورہ دیا ہے کہ وہ عوامی تقریبات میں جانے سے پرہیز کریں تاکہ گو نواز گو کا نعرہ سننے کی زحمت نہ ہو۔وزیر اعظم تو شاید یہ احتیاط اورتکلف کر بھی لیں مگر مسلم لیگ اور حکومت کے سارے عہدیدار کس طرح اعتزاز احسن کے اس ماہرانہ مشورے پر عمل کر سکتے ہیں۔فارغ ہو کر گھر بیٹھے تو اندیشہ ہے کہ بیوی بچے‘ ان کی غیر ضروری موجودگی اور بے جا دخل در معقولات سے تنگ کر آ کر وہی کچھ نہ کہنے لگ جائیں جو انہیں تقریبات میں سننے کو ملتا ہے۔بہتر یہ ہے کہ میاں صاحب خورشید شاہ کے بیان پر سنجیدگی سے غور کریں اور مڈٹرم الیکشن کی طرف قدم بڑھائیں؛ تاکہ روز روز کی چخ چخ سے نجات ملے۔اعتزاز احسن اور خورشیدشاہ کے مشورے پر میاں صاحب نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا‘فائدے میں رہے۔ نیا مشورہ حاضر ہے پہلے کی طرح شاید یہ بھی مفید ہو۔ آخر تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں