سیاستدان بننے کا نسخہ؟۔ مال یا ہسپتال؟

سابق صدر آصف علی زرداری ان دنوں میرے ہمسائے ہیں۔ میں نے بستی کے دیگر رہائشیوں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ جس جامع مسجد میں نماز عید ادا کی وہ بلاول ہائوس کے قریب ہے مگر سابق صدر نے نماز جامع مسجد کے بجائے اپنے پیروکاروں اور مقتدیوں کے ساتھ بلاول ہائوس میں پڑھی کیونکہ جاتی عمرا کی طرح شہر سے تیس کلو میٹر دور لاہور کا بلاول ہائوس اب محض زیارت گہہ ''اہل عزم و ہمت ‘‘نہیں، عبادت گاہ بھی ہے جہاں جیالوں اور متوالوں کی التجائیں، قربانیاں اور دعائیں قبول و نا مقبول ہوتی ہیں، البتہ منتخب و نامزدافراد کے سوا کوئی دوسرا شہری اس عبادت گاہ میں قدم نہیں رکھ سکتا۔
وہ دن ہوا ہوئے جب قائداعظمؒ، نوابزادہ لیاقت علی خان، چودھری محمد علی، خواجہ ناظم الدین، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق اور میاں نواز شریف کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی ، ریحانہ اور لاڑکانہ کی عید گاہوں میں عام پاکستانیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر رکوع و سجودکرتے اور وطن کے استحکام و سلامتی کیلئے تہ دل سے دعائیں مانگتے۔ اب کوئی بڑا سیاستدان اور حکمران کسی مسجد اور عید گاہ کا رخ کرے ناممکن۔ گزشتہ روز البتہ لوگوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو کھلے عام، میلے کچیلے، ماجھے، گامے، محمود خان اچکزئی کے بقول ''خانہ بدوش‘‘ پاکستانیوں کے ساتھ نماز عید ادا کرتے اور ہر ایک دوسرے سے گلے ملتے دیکھا تو ان پر کھلا کہ انسان اندر کے خوف اور اپنے کرتوتوں کی بنا پر اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار نہ ہو تو گھر سے باہر قدم نکالنا مشکل نہ عام لوگوں میں گھل مل جانا محال۔ موہوم خدشات اسے محفوظ قلعوں میں بند رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ورنہ پاکستان اتنا بھی غیرمحفوظ نہیں جتنا ہمارے لیڈر سمجھنے لگے ہیں۔ اگر یہ واقعی غیرمحفوظ ہے تو ذمہ دار بھی تیس سال سے باریاں لینے والے ہیں۔ 
پاک فوج کے پہلے کمانڈر اور قائداعظمؒ کے معتمد ساتھی جنرل محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے اپنی خود نوشت سوانح ''میری آخری منزل‘‘ میں 13 اگست 1947ء کی شام کا ایک واقعہ لکھا ہے ''لارڈ مونٹ بیٹن نے مجھ سے فرمایا: ''تم نے بھی سنا ہوگا کہ کل جب ہم دونوں (لارڈ مونٹ بیٹن اور قائداعظمؒ) اسمبلی ہال میں جائیں گے تو جاتے وقت یا آتے وقت سکھ، قائد کی موٹر کار پر حملہ کریں گے۔ لہٰذا میری تجویز تھی کہ یہ رسم مختصر ہو اور گورنر جنرل ہائوس میں منعقد کی جائے مگر مسٹر جناح مصر ہیں کہ رسم اسمبلی ہال میں ہوگی کیا تم مسٹر جناح کی حفاظت کر سکو گے؟ یا میں اس کام کیلئے گورا فوج دیدوں۔ میں نے قائدؒ کی طرف دیکھا تو انہوں نے فرمایا میں مسلمان ہوں، میں موت سے نہیں ڈرتا اور مجھے یقین ہے کہ عوام میرے ساتھ ہیں‘‘۔
آگے چل کر جنرل اکبرخان لکھتے ہیں: ''18 اگست کو قیام پاکستان کے بعد پہلی عید تھی۔ قائداعظمؒ نے مجھے فرمایا کہ ''میں عید گاہ میں نماز پڑھوں گا، میں وہاں اپنے لئے خصوصی انتظامات نہیں چاہتا جہاں جس کو جگہ مل جائے نماز ادا کرے‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ انٹرنیٹ پر ان دنوں 18 اگست 1947ء کی تصویر دستیاب ہے۔ قائداعظم عام نمازیوں کے ساتھ غالباً دوسری یا تیسری صف میں بیٹھے ہیں اردگرد کوئی وردی پوش بندوق بردار نہ غیر معمولی امتیاز اور نہ قائداعظم کے چہرے پر خوف و اضطراب کے سائے ؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
یہ ان دنوں کی بات ہے جب قائداعظم کو نہ صرف ہندواور سکھ انتہا پسندوں سے خطرہ تھا بلکہ ان پر کچھ عرصہ قبل قاتلانہ حملہ بھی ہو چکا تھا۔
اندر کا خوف کیسے جنم لیتا؟ اور آدمی خوف،حزن و ملال اور اندیشوں، وسوسوں میں کس طرح مبتلا ہوتا ہے۔ وجوہات بہت سی ہیں اور صدیوں کے تجربات اس پر شاہد ناطق، حضور اکرمﷺ نے مسلمانوں کو ''وہن‘‘ سے خبردار کیا ''زندگی سے پیار اور موت سے فرار کی عادت‘‘یہی ''وہن‘‘ ہے جس نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو بھیڑوں کا ریوڑ بنا دیا ہے۔ اور دشمنوں کے لیے نرم چارہ۔ 
اکیلے آصف علی زرداری نہیں ہمارے کم و بیش تمام لیڈران کا یہی وتیرہ ہے۔ جلو میں سینکڑوں وردی پوش مسلح محافظوں کا دستہ، بلٹ پروف گاڑیوں کا قافلہ اور گزرگاہ پر ہزاروں بندوق برداروں کا پہرہ ہے مگر قریبی عید گاہ یا جامع مسجد میں نماز کی ادائیگی کا حوصلہ پھر بھی نہیں۔ دہشت گردوں سے زیادہ مفلوک الحال، بھوکے ، پیاسے، بیمار، بے روزگار، محروم و مظلوم عوام بالخصوص نوجوانوں کا خوف۔ گریبان تک جن کا ہاتھ توشاید نہ پہنچ سکے مگر زبان پر کوئی ناپسندیدہ اور تلخ نعرہ ضرور آ سکتا ہے۔
دھرنے والوں نے افتادگان خاک کو ازبرکرادیا ہے کہ ؎
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و جاں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
ان نعروں سے روایتی ، خاندانی اور موروثی سیاست لرزہ بر اندام ہے۔ ورنہ1980ء، 1990ء اور2000ء کے عشروں میں ہماری سیاست کا عمومی انداز کیا تھا؟
جناب آصف علی زرداری اور ان کے برخوردار کے خطابات عید میں ان کی ایک جھلک بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ مرد حُر کے برخوردار نے فخریہ کہا کہ ہمیں خاندانی سیاست کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بلاول بھٹو کی اللہ تعالیٰ عمر دراز کرے۔ والد کے بجائے مرحوم نانا کو رول ماڈل بنائیں، انداز خطابت میں نقالی کے بجائے اپنی خداداد فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ بیرون ملک قیام اور تعلیم و تربیت کا گہرا اور پختہ تاثر سامعین و ناظرین اور پیروکاروں پر چھوڑیں اور کسی منشی منقیٰ کی بے مغز و بے ربط تحریر کو دہرانے کی بجائے وہ کچھ کہیں جو خود کہنا چاہتے ہیں۔ پارٹی میں سے نیک نام، نئے اور پرعزم و پرجوش چہرے اپنے قریبی ساتھیوں کے طور پر متعارف کرائیں۔ تو پارٹی کارکنوں میں نئی روح پھونک سکتے ہیں لیکن اگر خاندانی سیاست کا دفاع کرتے‘ ان انکلز میں گھرے رہے جن کے چہروں سے عوام بیزار ہیں اور کرپشن کا قطب مینار سمجھ کر کردار و گفتار سے متنفر تو ان کی جوشیلی تقریریں محض وقت کا ضیاع ثابت ہوسکتی ہیں۔
زرداری صاحب بھی حسب عادت جملے بازی میں مصروف ہیں۔ فرمایا: ہسپتال بنا کر کوئی سیاستدان نہیں بن جاتا۔ بھلا کوئی پوچھے اگر کوئی ہسپتال بنا کرسیاستدان نہیں بن جاتا تو سیاستدان بننے کا مجرب نسخہ کیا ہے؟ مال بنانا؟ جس کے باعث عوام بالخصوص نوجوان روایتی سیاست سے متنفر اور تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ پرانی سیاست گری خوار ہے۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی پنجاب میں بے بسی کی تصویر، بدحالی کا شکار ہے۔ سیاستدانوں کے روپ میں لوٹوں، لٹیروں، بہروپیوں ، ٹھگوں اور نوسربازوں نے مال بنا کرنظریے، اقدار اور اصولوں کو دفن کردیا ہے۔ ایک دوسرے کے بدترین ذاتی، سیاسی، گروہی اور نظریاتی مخالفین مفادات کے گھاٹ پر شیر بکری کی طرح اکٹھے پانی پی رہے ہیں اور اس این آر او مارکہ مفاہمتی سیاست نے اچھے برے ، سچ جھوٹ، نیک نامی و بدنامی کی تمیز ختم کر دی ہے۔
پارلیمنٹ میں دھاندلی کا اعتراف سب نے کیا۔ پھر بھی دھاندلی زدہ نظام کو برقرار رکھنے پر اصرار ؟ سیاست ہے،فریب کاری یا پوری قوم کو گوبرملادودھ پلانے کی ترکیب؟ ہماری مفاہمتی سیاست کو خالص جمہوریت راس ہے نہ دھاندلی سے پاک انتخابات کی عادت ۔مگر اس میں قوم کا کیا قصور؟
قلعہ بند سیاستدانوں کو بھلا کون سمجھائے کہ ہسپتال اور تعلیمی ادارے یا فیض کے دیگر اسباب بنا کر گھروں میں بیٹھ جانے کے بجائے اگر عمران خان کی طرح حکیم محمد سعید، اختر حمید خان، عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر ایوب الحسن رضوی جیسے لینے کے بجائے دینے، لُوٹنے کی بجائے لَوٹانے کے عادی لوگ سیاست میں آتے ایک دوسرے کا سہارا بنتے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں، توانائیوں اور قومی وسائل کو بھی اپنے قابل فخر اداروں کی طرح قومی اداروں کی تعمیر پر خرچ کرتے۔ ریاست کا انتظام و انصرام بہتر بناتے تو آج ہم ان جعلسازوں اور شعبدہ بازوں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے۔ جو عشروں سے اس ملک کو لوٹ کر ارب پتی، کھرب پتی بن گئے مگر لوٹ مار کے اس سرمائے سے اپنے گائوں گوٹھ، شہر اور حلقہ انتخاب میں ایک معمولی ڈسپنسری ، پرائمری سکول اور یتیم خانہ کی بنیاد نہ رکھ سکے۔
یہ ملک میں رہے تو کرایہ دار کی طرح جو مکان خالی کرنے سے قبل گھر، بلب، ٹونٹیاں اور سیوریج کے ڈھکن تک اتار لیتا ہے۔ واقعی ہسپتال بنا کر کوئی سیاستدان نہیں بن جاتا۔ اس کیلئے سوئٹزرلینڈ اور سپین میں اکائونٹس، دبئی اور لندن میں جائیدادیں اور این آر او، میثاق جمہوریت ازبس ضروری ہے۔ خواہ اس کے بعد گھر کے قریب عید گاہ یا مسجد میں نماز پڑھنا مشکل و محال ہی کیوں نہ ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں