گزشتہ روز نیشنل سکیورٹی کمیٹی (کونسل کے لفظ سے حکومتی الرجی کی وجہ کوئی نہیں جانتا) کے اجلاس میں ایک اخباری رپورٹ کے مطابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے ڈی جی ملٹری آپریشنز کی بریفنگ کے بعد شرکائے اجلاس سے سوال کیا کہ ''بھارت اب چاہتا کیا ہے؟ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بیانات مایوس کن ہیں‘‘ تو ہر ذی شعور پاکستانی ششدر رہ گیا۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کا دو بار وزیراعلیٰ رہنے اور تیسری بار ملک کا وزیراعظم بننے والا تجربہ کار سیاستدان جو مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر قائداعظم اور لیاقت علی خان کا جانشین اور مخالفین کے نقطہ نظر سے جنرل ضیاء الحق کا سیاسی وارث ہے‘ کیا واقعی یہ بھی نہیں جانتا کہ بھارت اب کیا چاہتا ہے؟ ایک تو پانچ روزہ جھڑپوں اور بھارتی گولہ باری کے دوران وزیراعظم کی حیرت انگیز خاموشی اور اوپر سے معصومانہ سوال ع
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
1999ء میں کرگل آپریشن کے ہنگام جب بھارتی بوفورس توپیں دنیا کی سب سے اونچی پہاڑیوں پر پاکستانی فوجیوں‘ این ایل آئی کے سرفروشوں اور ان کے زیر کمان مجاہدین پر ہزاروں من بارود برسا رہی تھیں تو پاکستان کے وزیراعظم کو اس کی خبر نہ تھی انہیں کرگل میں پاکستانی فوج کی موجودگی کی اطلاع ٹیلی فون پر بھارتی ہم منصب اٹل بہاری واجپائی نے دی ورنہ وہ اطمینان سے لاہور کے باغ جناح کی جمخانہ کرکٹ کلب گرائونڈ میں چوکے چھکے لگا رہے تھے۔ انہی دنوں عمران خان نے یہ بیان دیا تھا کہ کرکٹ میرا شوق‘ میرا جنون ہے مگر جب سے شوکت خا نم ہسپتال کا بوجھ پڑا ہے میں کرکٹ کو بھول گیا ہوں اور جون جولائی کی ہوش ربا‘ قیامت خیز گرمی میں میاں نوازشریف کرکٹ کھیل رہا ہے۔
وزیراعظم کو امریکی صدر بل کلنٹن سے اذنِ ملاقات کی اطلاع اس کرکٹ گرائونڈ میں ملی جہاں وہ کسی سرکاری محکمے کی اناڑی مگر مجبور ٹیم کو آئوٹ کرنے پر تلے تھے۔ اس ملاقات کی راہ سعودی ولی عہد نے ہموار کی اور اذنِ ملاقات ملنے پر وزیراعظم بھاگم بھاگ واشنگٹن پہنچ گئے۔ نواز کلنٹن ملاقات میں موجود امریکی صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر بروس ایڈل کی کتاب میں کلنٹن واجپائی ٹیلی فونک مکالمے اور فیکس پر دستاویزات کے تبادلے کی داستاں تفصیل سے درج ہے۔ اعلان واشنگٹن کی نوک پلک دہلی میں بیٹھ کر واجپائی نے درست کی۔ ہمارے وزیراعظم نے صرف دستخط کیے۔ اس دستاویز پر اور تو اور سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان بھی معترض تھے۔
میاں صاحب کی واشنگٹن یاترا کے دوران سید مشاہد حسین وزیر اطلاعات تھے۔ انہی دنوں پاکستان آرمی کے خلاف ایک توہین آمیز اشتہار امریکی اخبارات میں شائع ہوا جسے پاکستانی وزارت اطلاعات کا کارنامہ قرار دیا گیا۔ پاکستانی اخبارات میں اہتمام سے یہ خبر شائع کرائی گئی کہ ملاقات ختم ہونے پر صدر کلنٹن نے میاں نوازشریف سے پوچھا! ''سنا ہے آپ کی بیگم بھی شریک سفر ہیں۔ ہلیری کلنٹن ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ کیوں نہ دونوں فیملیز کل صبح ناشتہ اکٹھے کرلیں‘‘ دوسرے دن میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ کی ایک تصویر کلنٹن فیملی کے ساتھ اہتمام سے شائع کرائی گئی مگر بُرا ہو امریکی سفارت خانے کے شعبہ اطلاعات کا کہ اس نے خبر کی تردید کردی اور وضاحت کی کہ فیملی فوٹو میاں صاحب کی ذاتی درخواست پر لی گئی۔
کرگل آپریشن ناقص منصوبہ تھا‘ پاکستان اور پاک فوج کے لیے ہزیمت اور شرمندگی کا باعث مگر 4 جولائی کو اعلان واشنگٹن سے لے کر ستمبر 1999ء تک وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں نے کہیں یہ تاثر نہ دیا کہ وہ اس سے متفق نہیں یا اس وقت کے آرمی چیف نے انہیں اندھیرے میں رکھا۔ میاں صاحب کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین اور ڈی جی آئی ایس پی آر راشد قریشی کی مشترکہ بریفنگ بھی اس تاثر کے منافی تھی۔ جب وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین اختلاف کا تاثر ابھرا اور یہ ستمبر 1999ء کی بات ہے تو شریف خاندان کے سرپرست اور خیرخواہ بزرگ اخبار نویس نے جنرل پرویز مشرف سے مل کر معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کی۔ میاں شہباز شریف کی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھ چکی تھیں۔ بزرگ اب آسودہ خاک ہیں مگر وہ ہمیشہ یہ گواہی دیتے رہے کہ پرویز مشرف نے انہیں میاں صاحب کے آمنے سامنے بٹھا کر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیا کہ کون سچا‘ کون جھوٹا ہے مگر وزیراعظم ٹال گئے۔
ستمبر 1999ء کے تیسرے ہفتے میاں شریف مرحوم کی سربراہی میں حکمران خان کا ایک وفد بزرگ اخبار نویس سے جنرل پرویز مشرف کی جبری ریٹائرمنٹ کے مضمرات پر صلاح مشورے کے لیے میسن روڈ پہنچا۔ اس وفد میں سردار عبدالقیوم خان بھی شامل تھے جنہیں بزرگ اخبار نویس کو قائل کرنے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ بزرگ مدیر نے میاں صاحب کو اس ایڈونچر سے باز رہنے کی تلقین کی اور اپنے موقف کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ سردار عبدالقیوم تک قائل ہو گئے۔ بعدازاں ایم اے او کالج کے عقب میں واقع ہوٹل میں‘ جہاں سردار صاحب اکثر بیٹھا کرتے‘ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم نے ملاقات کی تفصیلات اور اس داستان کی تائید کی جو میں بزرگ مدیر کی زبانی کئی بار سن چکا تھا۔
میاں صاحب نے میاں شہباز شریف‘ چودھری نثار علی خان‘ جناب مجید نظامی اور سردار عبدالقیوم سمیت کسی کی نہ سنی اور 12 اکتوبر کو وہ کیا جو ان کے لیے مفید تھا نہ ملک و قوم اور نوزائیدہ جمہوریت کے لیے۔ وہ اپنی فوج کے مزاج کو سمجھ سکے (جو جہانگیر کرامت کی بے توقیر سبکدوشی کو نہیں بھولی تھی اور کرگل آپریشن کے موقع پر بھارت کی جارحانہ پالیسی کے جواب میں حکومت پاکستان کی معذرت خواہانہ بلکہ بزدلانہ حکمت عملی سے نالاں تھی) اور نہ بھارت کے بارے میں یہ اندازہ لگا سکے کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ آج تک وہ بھارت کے عزائم اور منصوبوں سے بے خبر ہیں۔
یہ نہیں کہ کرگل آپریشن کے حوالے سے وزیراعظم کے تحفظات درست نہ تھے یا جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں سے کوئی غلطی سرزد نہ ہوئی تھی۔ جس نے جو غلطی کی اس کا خمیازہ اسے بھگتنا چاہیے تھا۔ دو ایٹمی قوتوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کرنا سنگین جرم تھا مگر اس کو سزا دینے کے لیے موزوں وقت وہ تھا جب صدر کلنٹن اور سعودی حکمرانوں کی طرف سے تحفظ کی ضمانت ملنے پر میاں صاحب اپنے خاندان سمیت وطن واپس آئے اور غالباً 11 جولائی کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرگل آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر شاید کرگل کمشن کے اعلان یا مس ایڈونچر کے ذمہ دار آرمی چیف کی برطرفی کو قوم قبول کر لیتی اور ممکن ہے فوج بھی۔ مگر اس وقت میاں صاحب کا موقف تھا ''کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ملک کی خاطر‘ اپنی فوج کی خاطر‘ اپنی عزت و ناموس کی خاطر سارا بوجھ اپنے سر لے لیتے ہیں اور میں نے وہی کیا‘‘ (نوازشریف کی کہانی‘ ان کی زبانی) فوجی مہم جوئی کے ذریعے ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے والے سپہ سالار کے ساتھ اس وقت یہ مروت مگر پھر سبکدوشی کا فیصلہ؟
12 اکتوبر کو جنرل پرویز کی سبکدوشی کا سبب میاں صاحب نے خود یہ بتایا ''جنرل طارق پرویز کی ریٹائرمنٹ کے بعد اخبارات میں سرخی لگی کہ اسے وزیراعظم سے ملنے کی پاداش میں فارغ کیا گیا‘ میں نے سیکرٹری دفاع کے ذریعے آئی ایس پی آر کی طرف سے تردید کی خواہش ظاہر کی مگر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ یہ وزیراعظم کی اتھارٹی کو ختم کرنے کے مترادف تھا‘ یہ برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ وہ فیصلہ کن بات تھی جو مشرف کو ہٹانے کے فیصلے کی وجہ بنی‘‘۔ گویا قومی مفاد اس وقت مجروح ہوتا ہے جب ذاتی انا اور اتھارٹی مجروح ہو۔
اگر ایٹمی پاکستان کا وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے موقع پر حریت کانفرنس کی قیادت سے ملنے کے بجائے اپنے صاحبزادے کے ہمراہ فولاد کا کاروبار کرنے والے بھارتی تاجروں سے میل ملاپ کو ترجیح دے تو اسے کب اور کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ بھارت اب کیا چاہتا ہے؟ 1999ء میں بھارت کرگل آپریشن کا سودا دنیا بھر میں فروخت کر رہا تھا اور ہم لوگ آرمی کے اشتہارات چھپوانے اور آرمی چیف کو کان سے پکڑ کر گھر بھیجنے میں مصروف تھے۔ اب ایک بار پھر بھارت ورکنگ بائونڈری پر ''منی جنگ‘‘ میں مشغول ہے اور ہمارا وزیراعظم بھارتی عزائم سے لا علم ہے یا لاعلم ہونے کی ایکٹنگ کر رہا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی سیکرٹری اطلاعات محمد اعظم کے عشایئے میں ایک سینئر اخبار نویس نے یہ کہہ کر محفل کو چونکا دیا کہ ''فکر نہ کریں وزیراعظم اگلے چند ہفتوں میں بڑے بڑوں کا مُکو ٹھپ دیں گے بس فیصلہ ہونے دیں‘‘ ان فیصلوں سے پتہ چلے گا کہ 12 اکتوبر سے کیا سبق سیکھا؟۔ 12 اکتوبر ایسے ہی بیٹھے بٹھائے نازل نہیں ہوتا ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پھر بھی متوالے سوال کرتے ہیں کہ ہیوی مینڈیٹ اسٹیبلشمنٹ سے ہضم کیوں نہیں ہوتا؟