یہ قرآن مجید سے عقیدت نہیں‘ اسلامی تعلیمات سے لاعلمی اور سطحی جذباتیت ہے۔ ماہرالقادری مرحوم نے اس سطحی جذباتیت کو ''قرآن کی فریاد‘‘ کے عنوان سے برسوں قبل شعری قالب میں ڈھالا تھا ؎
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں
دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جُزداں حریر و ریشم کے
اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے
خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے
قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں
ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
روح زخمی ہے‘ دماغ شل اور ندامت کا احساس ہے کہ قلب و نظر کو چھلنی کیے دیتا ہے۔ مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم نے عدالت کا روپ دھارا‘ خود ہی مدعی اور گواہ بنا اور نوجوان مسیحی میاں بیوی کو موت کی سزا سنادی۔ سزا پر عملدرآمد کے بعد لاشیں اینٹوں کے بھٹے میں ڈال کر جلا دیں۔
کسی محدث‘ فقیہ اور مفسر نے نہیں‘ رحمت دو عالمﷺ نے غیر مسلموں کے بارے میں اصول وضع فرمائے اور معاہدہ نجران میں لکھ کر دیا ''اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفظ اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبرﷺ کی طرف سے ضمانت اہل نجران کے لیے‘ اور ان پر انحصار کرنے والوں کے لیے‘‘۔
''تمام لوگ جو موجود ہیں یا غیر حاضر‘ ان کے خاندان‘ ان کے رسوم و رواج‘ ان کے مال و متاع اور متبرک مقامات تک یہ معاہدہ محیط ہے۔ کسی بھی پادری کو اس کے منصب سے نہیں ہٹایا جائے گا‘ کسی بھی راہب کو اس کی خانقاہ سے نہیں نکالا جائے گا‘ ان کی سرزمین پر کوئی فوجی دستہ دراندازی نہیں کرے گا۔ ان پر ظلم کیا جائے گا نہ یہ ظلم کریں گے‘‘۔
آپﷺ نے جنگ موتہ کے لیے لشکر روانہ کیا تو امیر کو نصیحت فرمائی ''جو لوگ اپنی عبادت گاہوں میں مصروف ہوں ان سے تعرض نہ کرنا‘ کسی عورت پر ہرگز ہاتھ نہ اٹھانا‘ کسی بوڑھے شخص کو نہ مارنا‘ سرسبز و شاداب درختوں کو ہرگز نہ کاٹنا‘‘۔ ایک موقع پر اہل ایمان سے فرمایا ''خبردار اگر کسی شخص نے غیر مذہب رعیت پر ظلم کیا‘ یا اس کی تنقیص کی یا اس کو تکلیف دی یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کی تو میں روزِ قیامت غیر مسلم کی طرف سے مدعی ہوں گا‘‘۔
اسلام اور مسلمان عرصہ دراز سے صرف امریکہ و یورپ نہیں اپنے اپنے ممالک میں بھی ظلم و زیادتی اور ذہنی‘ روحانی اور جسمانی اذیت سے دوچار ہیں‘ انہیں تنگ نظر‘ انتہا پسند‘ بنیادپرست اور دہشت گرد قرار دینے والوں میں اپنے اور بیگانے شامل ہیں۔ کبھی اہانت رسولﷺ کے ذریعے ان کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے اور گاہے قرآن مجید کی توہین سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی اپنے دین اسلام‘ اپنے پیغمبر اور اپنی مقدس کتاب سے گہری وابستگی اور بے پایاں حساسیت کو ختم کرنا ہے بقول اقبالؒ ؎
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
پاکستان میں توہینِ رسالتؐ اور توہینِ قرآن مجید کے بیشتر واقعات کے پیچھے یہی فکر کارفرما رہی ہے۔ اس قبیح جرم کے مرتکب افراد کی عالمی سطح پر بھرپور پشت پناہی اور پذیرائی ہوتی ہے اور انہیں عموماً اپنے کیے کی سزا نہیں ملتی‘ کوئی عدالت عوامی دبائو پر سزا سنا دے تو امریکہ و یورپ سے پہلے پاکستان میں فنڈ خور این جی اوز ہنگامہ برپا کردیتی ہیں اور حکومت مجبوراً سزایافتہ مجرموں کو عزت و احترام کے ساتھ بیرون ملک روانہ کر دیتی ہے جہاں انہیں باقی زندگی عیش و آرام سے گزارنے کا موقع ملتا ہے۔
ماضی کے ان تلخ تجربات کی بنا پر عام پاکستانی مسلمان غیر معمولی حساسیت کا شکار ہے لیکن کسی عاشق رسولﷺ اور قرآن مجید کی حرمت کے حوالے سے حد درجہ حساس و جذباتی مسلمان کو ہرگز زیبا نہیں کہ وہ تعلیماتِ رسولﷺ کو فراموش کر کے خود ہی مدعی‘ خود ہی شاہد اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ صادر کرے اور عملدرآمد بھی کر ڈالے۔
حضور اکرمﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں وضع کردہ اسلامی نظام عدل میں ہر ملزم کو اپنی صفائی اور اپنے حق میں گواہ پیش کرنے کا حق حاصل ہے‘ راست گو‘ باکردار اور دائم اعتدال پسند گواہ کی شہادت کے بغیر کسی کو سزا دی جا سکتی ہے نہ کسی طرح کی ایذا رسانی روا۔ حضور اکرمﷺ نے لاشوں کا مثلہ کرنے اور زندہ یا مردہ انسانوں کو جلانے کی سختی سے ممانعت فرمائی کہ یہ احسن تقویم کی توہین ہے اور اسفل سافلین نوعیت کا عمل۔
سپین میں جب ایک سازش کے تحت توہین رسالت کی مہم چلی تو قاضی توہین کے مرتکب کو پہلے اپنے گستاخانہ قول سے مکرنے کا موقع دیتا پھر توبہ کی تلقین کرتا۔ کچھ دن کی مہلت دی جاتی اور پھر بھی باز نہ آنے پر نظر بند کر کے ایک بار پھر گستاخی ترک کرنے پر آمادہ کیا جاتا۔ سزا کی نوبت بعد میں آتی۔
مقدس شخصیات اور کتب کی توہین پر سزا کا قانون (295سی) اس لیے منظور ہوا کہ اگر کوئی بدبخت اس قبیح جرم کا مرتکب ہو تو لوگ ازخود قانون ہاتھ میں لینے اور گستاخ کو عوامی طرز کے انصاف سے ہمکنار کرنے کے بجائے حوالۂ قانون کریں اور ریاستی ادارے معاملہ آئین‘ قانون اور انصاف کے فطری تقاضوں کے مطابق نمٹائیں‘ یہ قانون روز اول سے مغرب اور اس سے مرعوب ذہنوں کی طرف سے ہدف اعتراض و تنقید ہے۔ معترضین میں سے بعض انبیا اور الہامی کتب کی تقدیس کے قائل ہیں نہ معاشرے کی حساسیت اور روحانی و مذہبی وابستگیوں کے احترام پر آمادہ۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً اہل ایمان بھی اپنے قول و فعل سے انہیں یہ کہنے کا موقع فراہم کریں کہ پاکستانی مسلمان ہیں ہی سدا کے جذباتی اور اقلیتوں کو حیلے بہانوں سے نشانہ ستم بنانے کے عادی۔
سانحہ کوٹ رادھاکشن کی منصفانہ تحقیق و تفتیش سے واقعہ کی نوعیت‘ دونوں میاں بیوی کی نیت اور اہل علاقہ کے اشتعال کا سبب معلوم ہوسکتا ہے۔ آیا مزدوری پیشہ میاں بیوی نے نادانستگی میں مقدس اوراق جلائے یا دانستہ یہ مذموم حرکت کی؟ یہ ان کا انفرادی فعل تھا یا کسی دوسرے فرد یا گروہ نے پس پردہ اس مکروہ حرکت پر آمادہ کیا؟ کیا واقعہ بھٹہ مالکان اور مزدوروں کی چپقلش کا شاخسانہ تو نہیں؟ کوئی دیرینہ دشمنی اور گلی محلے کی مناقشت؟ جسے کسی شخص نے مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے کامیابی سے استعمال کیا اور ہر کلمہ گو اور سچے پاکستانی کو اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے شرمندہ کردیا۔ عدالتی تحقیقات سے ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکتا ہے۔ جو بہرحال حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان بدنام ہے کہ یہاں اقلیتوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مقدس شخصیات اور کتابوں کے احترام کے لیے وضع کردہ قوانین کو لوگ اپنے سیاسی مقاصد اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دیرینہ دشمنی‘ لین دین کے تنازع اور معمولی نوعیت کی چپقلش پر مخالفین کو 295 سی کی زد میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوٹ رادھا کشن جیسے واقعات اس پروپیگنڈے کو تقویت بہم پہنچاتے ہیں اور مذہبی طبقے کا اظہار برأت سے گریز مزید ستم ڈھاتا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ شمع اور شہزاد نے جرم کیا یا نہیں؟ ارتکاب جرم کا امکان موجود ہے لیکن سزا دینے کا یہ انداز؟ ع
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
ہجوم کے ہاتھوں سزایابی کیا اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے اور اسوۂ رسولﷺ کی روشنی میں قابلِ قبول عمل؟ حضورؐ اس واقعہ سے خوش ہوئے ہوں گے؟
اس کلمہ گو کی کم نصیبی میں کیا کلام جس کے کسی دانستہ یا نادانستہ فعل سے روز قیامت شفیع المذنبینﷺ کو ملال ہو اور رحمت للعالمینﷺ غیر مسلم رعیت پر ظلم اور حق تلفی کے ا لزام میں اپنے ہی اُمتی کے خلاف مدعی بن جائیں۔ دنیا تو ہماری کیا سدھرے گی‘ ہم تو اپنی آخرت بھی خراب کر بیٹھے۔ جبکہ ریاست اور حکومت کا کام صرف سینہ کوبی رہ گیا ہے۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے سے قبل کوئی اقدام‘ نہ فساد پھیلنے سے پہلے کسی فتنہ گر کی سرکوبی۔ یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں ہوا اور وہ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کی تصویر بنی رہی۔
مقدس شخصیات اور کتب کی توہین کا بار بار ارتکاب سازش ہے‘ پاکستان میں فتنہ و فساد برپا کرنے کی حکمت عملی۔ مگر کسی غیر مسلم کے ساتھ اسلام یا قرآن کے نام پر ناانصافی بھی اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہے جس کی روک تھام حکومت کے علاوہ ہمارے مذہبی رہنمائوں اور دینی جماعتوں کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ ہم روزِ قیامت اپنے آقا و مولاؐ کے سامنے سرخرو ہوں۔ کسی فرد یا گروہ کے بہیمانہ فعل کی بنا پر پورا معاشرہ احساس جرم کا شکار نہ ہو کہ ہم روزِ قیامت اپنے آقا و مولاﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔