بدلنا ہے تو مے بدلو‘ نظامِ میکشی بدلو

سپریم کورٹ کی طرف سے ڈیڈلائن سامنے نہ آتی تو نواز حکومت اور زرداری اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کو بلدیاتی انتخابات کی طرح سردخانے میں ڈال دیا تھا۔ ایک سال قبل چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دیا تو حکومت نے ان کا جانشین مقرر کرنے کی ضرورت محسوس کی نہ خورشید شاہ کی قیادت میں فرینڈلی اپوزیشن نے زور دیا۔ دونوں نے سوچا غالب خستہ کے بغیر پہلے کون سے کام بند تھے کہ اب کسی مرد لاغر و ضعیف کی تلاش میں وقت ضائع کیا جائے۔ 
اب مگر سپریم کورٹ کا حکم ہے اور چیف الیکشن کمشنر کے بغیر الیکشن کمشن مکمل نہیں ہوتا اس لیے میاں نوازشریف کے قریبی ساتھیوں اور اپوزیشن لیڈر نے بھاگ دوڑ شروع کی ہے اور ایسے ریٹائرڈ ججوں کو ڈھونڈا جا رہا ہے جن کی نیک نامی سے الیکشن کمشن کی ڈیڑھ سالہ بدنامی کے داغ دھبے صاف کیے جا سکیں۔ جسٹس رانا بھگوان داس غالباً اسی بنا پر معذرت خواہ ہیں کہ اپنے پیشرو فخر الدین جی ابراہیم کا انجام یاد ہے اور محاذ آرائی و الزام تراشی کی موجودہ سیاست سے بھی واقف ہیں۔ یہ فیصلہ بھگوان داس کی دانشمندی اور معاملہ فہمی کا ثبوت ہے۔ 
پاکستان میں جس طرح بعض ادارے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے لیے مخصوص ہیں اسی طرح بعض اداروں کے بارے میں خواہ مخواہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ریٹائرڈ ججوں کی سربراہی میں بہتر کام کرسکتے ہیں۔ 1973ء کے آئین میں چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ عدلیہ کے سابق اور حاضر سروس ارکان کے لیے مخصوص کیا گیا ورنہ اس سے پہلے ایف ایم خان‘ اختر حسین‘ جی معین الدین اور این اے فاروقی جیسے سول سرونٹ بھی اس منصب پر فائز رہے۔ 
1977ء کے انتخابات جسٹس (ر) سجاد احمد جان نے کرائے اور انتخابی دھاندلی کا شور مچنے کے بعد یہ کہہ کر اپنا منصب چھوڑ دیا کہ ''ہم نے تو بڑی محنت سے انتخابی دکان سجائی تھی مگر اس پر ڈاکہ پڑ گیا۔ اس میں ہمارا کیا قصور؟‘‘ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات جسٹس ایس اے نصرت کی سربراہی میں ہوئے جبکہ 1984ء کا ''تاریخی ریفرنڈم‘‘ اس الیکشن کمشن نے کرایا جس کے سربراہ جسٹس ایس اے نصرت تھے۔ حبیب جالب نے اسی ریفرنڈم کے بارے میں کہا تھا ؎ 
شہر میں ہو کا عالم تھا 
جن تھا یا ریفرنڈم تھا 
جسٹس سجاد احمد جان اور ایس اے نصرت پر یہ الزام عائد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حکومت وقت کے ساتھ ملے ہوئے تھے یا انتخابات و ریفرنڈم میں شفافیت کے قائل نہ تھے۔ یہ نیک نام لوگ تھے مگر جو ذمہ داری انہوں نے اٹھائی اسے پورا نہ کر سکے۔ شاید ان کے بس کی بات نہ تھی۔ 2013ء کے ا نتخابات میں بھی یہی ہوا۔ ہاتھ پیر باندھ کر نیک نام اور قابل احترام فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ اپنے ساتھی ارکان الیکشن کمشن کے مقابلے میں ان کے پاس غیر معمولی اختیارات تھے‘ نہ عمران خان کے بقول مختلف سیاسی جماعتوں سے ملی بھگت میں ملوث عناصر کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کی قانونی طاقت۔ عمر اُن کی ڈھل چکی تھی‘ قویٰ مضمحل اور یادداشت اس قدر کمزور کہ دو اڑھائی گھنٹے تک بحث مباحثے کے باوجود آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو پہچان نہ پائے۔ 
بھارت میں 1990ء سے قبل انتخابات ہماری طرح کے ہوتے تھے جہاں جس کا زور چلتا دھاندلی کر گزرتا اور ہمارے تجزیہ کاروں کی طرح وہاں کے دانشور بھی قوم کو یہی باور کراتے کہ برصغیر میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی آرزو تو کی جا سکتی ہے جو بڑی چیز ہے‘ ہرگز بُری نہیں مگر دھاندلی سے پاک الیکشن؟ وصال یار ہی سمجھیے ؎ 
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم 
وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں 
غالباً وزیراعظم وی پی سنگھ کے دور حکومت (1990ء) میں ٹی این سیشن نام کے ایک شخص نے چیف الیکشن کمشنر کا منصب سنبھالا۔ 1996ء تک وی پی سنگھ‘ چندر شیکھر‘ نرسمہا رائو‘ اٹل بہاری واجپائی‘ ایچ ڈی دیوی گوڑا جیسے وزراء اعظم کو بھگتایا اور انتخابات میں دھاندلی‘ بے ضابطگی‘ ملی بھگت اور اوپر سے نیچے تک حکومت‘ عدالت اور بیوروکریسی کی مداخلت کا خاتمہ کر دیا۔ کسی عام امیدوار تو کیا وزیراعظم کو بھی سرکاری وسائل اور مشینری کے استعمال کا یارانہ رہا‘ امیدواروں کو اخراجات کی طے شدہ حد سے تجاوز نہ کرنے پر سزائیں سنائیں اور ووٹ کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کی۔ ٹی این سیشن کے دور میں یہ طے ہوا کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد ریاستی و حکومتی مشینری الیکشن کمشن کے احکامات کی پابند ہوگی اور حکومت کا کام ان احکامات پر عملدرآمد ہوگا۔ 
بھارت کے ایک دوسرے چیف الیکشن کمشنر جیمز میخائل لنگڈو کا پالا گجرات کے مقبول وزیراعلیٰ نریندر مودی سے پڑا جو آج کل ملک کے وزیراعظم ہیں۔ نریندر مودی نے قبل از وقت اسمبلی توڑ کر الیکشن کمشن کو آزمائش میں ڈال دیا جو ریاست میں انتخابات کرانے کے لیے تیار نہ تھا۔ لنگڈو نے مقررہ مدت سے پہلے انتخابات کرانے سے انکار کردیا اور نریندر مودی کے کمشن مخالف سیاسی بیانات کو بچگانہ قرار دے کر مسترد کیا۔ بالآخر مودی کو لنگڈو کے سامنے جھکنا پڑا اور انتخابات چیف الیکشن کمشنر کی مرضی سے ہوئے۔ سپریم کورٹ نے بھی لنگڈو کے موقف کی تائید کی۔ مودی نے لنگڈو پر مذہبی تعصب کا الزام لگایا مگر کسی نے کان نہ دھرا۔ 
ہمارے ہاں انتخابات میں دھاندلی کو صرف ہارنے والے بُرا سمجھتے ہیں اور وہ بھی اس وقت تک جب تک خود اس قابل نہ ہو جائیں۔ ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کا شور اٹھتا ہے‘ ثبوت پیش کیے جاتے ہیں مگر روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کا رواج نہیں۔ لیپا پوتی اب تک ہوتی رہی۔ کبھی کسی نیک نام شخص کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کر کے آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفاف الیکشن کا مژدہ سنایا جاتا ہے‘ کبھی کچھ رقم دے کر مالیاتی خودمختاری کا دعویٰ ہوتا ہے اور کبھی قوانین میں معمولی ترامیم سے دھاندلی کا راستہ روکنے کی تدبیر۔ 
اگر سیاستدان اور حکمران انتخابی عمل کو فول پروف بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو الیکشن کمشن کی انتظامی اور مالیاتی خودمختاری کا اہتمام بخوبی کر سکتے ہیں۔ بھارت کی طرح نگران حکومت الیکشن کمشن کی ماتحت و محتاج ہو‘ کاغذات کی جانچ پڑتال اور امیدواروں کی چھان بین کے لیے مناسب وقت اور بے ضابطگیوں کے فوری ازالے کا آئینی و قانونی اختیار۔ صرف حکومت ہی نہیں عدلیہ کی مداخلت بھی بند ہونی چاہیے کہ پانچ پانچ سال تک حکم امتناعی چلتا ہے اور انتخابی عمل مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔ الیکشن کمشن کے سربراہ اور ارکان کے لیے عدلیہ سے تعلق کی شرط اب ختم کردینی چاہیے کیونکہ عدلیہ کے ارکان اب تک کوئی قابل فخر کارنامہ انجام نہیں دے سکے‘ الٹا اپنی ساکھ گنوا بیٹھے۔ 
ملک میں ایسے ریٹائرڈ اور حاضر سروس بیوروکریٹس‘ قانون دانوں‘ فوجی افسروں کی کمی نہیں جو بہترین انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال‘ اپنے اختیارات استعمال کرنے کے ہنر سے واقف اور ہر طرح کے سیاسی‘ سماجی اور سرکاری دبائو‘ مالی ترغیبات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور انہیں انتخابی مشینری سے کام لینے کا تجربہ ہے۔ ظاہر ہے کہ الیکشن کمشن اپنی ہیئت اور نوعیت میں ایک انتظامی ادارہ ہے اور کوئی اچھا‘ لائق‘ منصف مزاج اور سیاسی وابستگیوں سے پاک ایڈمنسٹریٹر ہی ٹی این سیشن کی طرح اس کی کارکردگی اور سا کھ کو بہتر بنا سکتا ہے۔ مگر حکومت اور اپوزیشن کا سارا زور ریٹائرڈ ججوں کی تلاش اور رضامندی پر ہے جن کی سادگی اور ناتجربہ کاری سے سیاسی اشرافیہ اور ان کی مرغ دست آموز بیوروکریسی بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔ 
موجودہ شکل میں الیکشن کمشن کی سربراہی کوئلوں کی دلالی ہے‘ جس کو بھی سونپی جائے گی وہ فخرو بھائی کی طرح اعتراض و تنقید کا ہدف بنے گا اور بالآخر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور۔ واقعی ملک میں منصفانہ اور شفاف الیکشن کا انعقاد مقصود و مطلوب ہے تو پھر دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ آئین اور قوانین میں ترمیم کی جائے اور الیکشن کمشن تمام سٹیک ہولڈر کے مشورے سے ازسرنو تشکیل دے کر اس کی سربراہی کسی با اختیار و باتدبیر شخص کو سونپی جائے جو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے فخر الدین جی ابراہیم سے مل کر ان کی روداد سنے‘ پھر بھارت کے دو تین چیف الیکشن کمشنرز کے تجربات کی روشنی میں لائحۂ عمل بنائے اور انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد تمام اداروں سے معاونت طلب نہ کرے بلکہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرائے۔ کوئی رکاوٹ برداشت کرے نہ مداخلت۔ افراد نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔
بدلنا ہے تو مے بدلو‘ نظامِ میکشی بدلو 
وگرنہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہو گا؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں