یوم اقبال ؒ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے مزے کی بات کہی۔ ایک محفل میں نوجوان اقبال کے ولولہ انگیز اشعار سے حاضرین کے قلب کو گرما اورروح کو تڑپا رہے تھے۔ مستقبل کے بلند عزائم اور کچھ کر گزرنے کی لگن کا اظہار ۔محفل میں موجود بیورو کریٹس نے انہیں بھرپور داد دی۔ گورنر نے ایک بیورو کریٹ سے پوچھا ،پاکستان کے ہر نوجوان کا آئیڈیل اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ ہے مگر عملی زندگی میں آکر ان کی تعلیمات ، اقوال، افکار سب بھول جاتا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے؟ ...''فکر اقبال ؒ و قائد ؒ پر عمل کرکے تو ہم زندگی بھر ہی او ایس ڈی بنے رہیں گے۔ ہمیں اچھی پوسٹنگ کون دے گا۔ ‘‘سنیئر بیورو کریٹ نے برجستہ جواب دیا۔ جس پر پوری محفل کشت زعفران بن گئی ۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ کسی سکول اور کالج میں چلے جائیں۔ ریستوران اور پارک میں بے فکری سے گپ شپ لگاتے ، ہنسی مذاق کرتے نوجوانوں سے پوچھ لیں اور ہرغریب سے غریب اور امیر سے امیر علاقے کی نوجوان نسل سے مکالمہ کرلیں۔ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کی شخصیت ، فکری پرواز اور ملی خدمات سے مسحور بچوں اور نوجوانوں کی تعداد غالب ہوگی اور جب یہی نوجوان مقابلے کا امتحان پاس کرکے تربیتی اداروں میں کٹھن مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ان کے آئیڈیل ہمارے قومی ہیرو ہوتے ہیں مگر عملی زندگی میں پہنچ کر فیلڈ مارشل ایوب خان ، ذوالفقار علی بھٹو ، ضیاء الحق، نوازشریف، آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف کی دانش و بصیرت ، انتظامی صلاحیت ، قومی خدمت اور اپنے مفلوک الحال عوام سے محبت تو یاد رہتی ہے اقبال ؒ کی گفتار اور قائداعظم ؒ کا کردارسب کچھ بھول جاتا ہے۔
ہماری بیورو کریسی ہمیشہ سے ایسی تھی نہ پاکستان محض خوشامدیوں ، موقع پرستوں اور ابن الوقتوں کی فصل کاشت کرنے والا ملک ہے۔ جب تک ہمارے حکمرانوں کے مزاج میں قانون پسندی، عوام دوستی اور روایت پرستی کا عمل دخل رہا، انہوں نے اپنے آپ کو مطلق العنان حکمران کے بجائے قاعدے ضابطے کا پابند انسان سمجھا ۔ بیورو کریٹ بھی ان کے احکامات کو حرف آخر سمجھنے اور ہر صورت حکم بجالانے کے مرض میں مبتلا نہ ہوئے۔ خود بھی قانون کی پابندی کی ، حکمرانوں سے بھی کرائی اور ملک جنگل نہ بنا، جہاں صرف طاقتور کو جینے کا حق ہوتا ہے اور کمزور کے لیے ع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
چودھری محمد علی بیورو کریٹ تھے مگر حالات نے انہیں ملک کا وزیراعظم بنادیا ۔وزیراعظم دولت مشترکہ کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ جانے والے تھے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہاں طبی معائنہ بھی کرالیں۔ وزیراعظم نے پوچھا مگر وہاں طبی معائنہ اور علاج مہنگا ہے ،میں اپنے خرچ پر طبی معائنہ کرانے کی پوزیشن میں نہیں۔ چنانچہ کابینہ کے ایک اجلاس میں وزیراعظم نے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جانے ، طبی معائنہ کرانے اور اخراجات کے لیے سرکاری خزانے سے قرضے کی منظوری لی جو قسطوں میں ادا ہوا اور پھر عازم برطانیہ ہوئے۔ ان دنوں وزیراعظم کو صرف اپنا پرائیویٹ سیکرٹری اور متعلقہ محکمے کا وزیر بیرون ملک دوروں میں ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔ اہل خانہ ، عزیزو اقارب، من پسند صنعتکاروں اور لطیفہ گوئوں ، مالشیوں،چاپلوس بیورو کریٹس کی برات لے جانے کی اجازت تھی نہ روایت۔
قیام پاکستان کے بعد ایک وزیر غالباً فضل اللہ پراچہ نے ساہیوال میں جلسے کے دوران مقامی کالج کے لیے دس ہزار روپے گرانٹ کااعلان کیا۔ واپسی پر انہوں نے وزارت خزانہ کو گرانٹ جاری کرنے کی ہدایت کی۔ سیکرٹری خزانہ کی طرف سے جواب ملا کہ آپ کو پیشگی اجازت یا بجٹ میں ایلوکیشن کے بغیر گرانٹ دینے کا اختیار ہے نہ اعلان کرنے کا۔ لہٰذا یہ گرانٹ جاری نہیں ہوسکتی۔ کافی ردّو قدح کے بعد وزیراعلیٰ کی خصوصی درخواست پر یہ گرانٹ جاری ہوگئی مگر آئندہ کے لیے وزراء کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ پیشگی منظوری کے بغیر کسی گرانٹ اور ترقیاتی فنڈ کا اعلان نہیں کریں گے۔
الطاف گوہر کراچی میں تعینات تھے۔ وزیراعظم کی طرف سے انہیں ایک قطعہ اراضی امریکی سفارت خانے کو لیزپر دینے کا حکم ملا۔ ڈپٹی کمشنر نے صاف انکار کردیا۔ یہ قطعہ اراضی کسی قیمت پر الاٹ نہیں ہوسکتا، قواعد و ضوابط اجازت دیتے ہیں نہ یہ عوامی مفاد کا تقاضا ہے۔ وزیراعظم نے ویل ڈن کہہ کر اپنا حکم واپس لے لیا۔ اس بیورو کریٹ نے ایک موقع پر 14اگست کے جلسے کے لیے مسلم لیگ کو نشتر پارک الاٹ کردیا، حسین شہید سہروردی وزیراعظم تھے اور 14اگست کو کراچی میں یوم پا کستان کے حوالے سے یہ جلسہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو اجازت نامہ منسوخ کرنے کی ہدایت جاری نہیں کی بلکہ وزیراعظم نے ڈھاکہ جانے کا فیصلہ کرلیا، الطاف گوہر کراچی ایئرپورٹ پر رخصت کرنے گئے تو حسین شہید سہروردی نے کہا'' جانتے ہو وزیراعظم 14اگست فیڈرل کیپٹل میں گزارنے کے بجائے ڈھاکہ کیوں جارہا ہے؟‘‘ الطاف گوہر نے لاعلمی ظاہر کی تو کہا '' صرف تمہاری وجہ سے !تم اگر جلسہ گاہ مسلم لیگ کو نہ دیتے تو میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتا ، اب ڈھاکہ اس لیے جارہا ہوں کہ لوگ یہ نہ کہیں وزیراعظم دارالحکومت میں موجود تھے مگر انہیں یوم پاکستان پر عوام کے سامنے آنے اور قیام پاکستان کی سالگرہ منانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اب میں ڈھاکہ میں عوام سے خطاب کروں گا۔‘‘
سرفیروز خان نون نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت کررکھی تھی کہ ہم سیاسی لوگ ہیں، اپنے ساتھی وزیروں ، ارکان اسمبلی اور کارکنوں کی جائز و ناجائز فرمائشیں ماننے کے عادی ،مگر یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ جب میں کسی سیاسی دبائو پر غیر قانونی حکم جاری کروں تو اس پر خود عملدرآمد کرو، نہ کسی اور کو کرنے دو۔ میرے تحریری احکامات کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال سکتے ہو۔ الطاف گوہر نے لکھا کہ بیگم فیروز خان نون اصرار کرتیں تو مجھ سے پنجابی میں کہتے '' بکن دے سو، توں او کر جو کتاب کہندی اے‘‘ ایسے حکمرانوں کے ماتحت کام کرنے والے بیورو کریٹس قانون، قواعد اور ضابطے سے ہٹ کر کوئی کام کیوں کرتے اور اپنے سیاسی باس کے سامنے قاعدے قانون کا حوالہ دیتے کیوں جھجکتے۔ دور دراز علاقے میں تبادلے کا خوف ،نہ او ایس ڈی بننے کا ڈر اور نہ کسی ناکردہ گناہ پر جبری ریٹائرمنٹ کا دھڑکا۔
اب مگر صورتحال کیا ہے ؟حکمران خوا ہ وہ کوئی فوجی ہو یا سویلین ،چن چن کر ایسے بیورو کریٹ اپنے اردگرد اکٹھے کرتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے محروم اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے فن میں طاق ہوں۔ گنگاگئے تو گنگا رام، جمنا گئے تو جمنا داس۔ بھٹو صاحب کے دور میں جوسرکاری افسر سوشلز م اور مساوات محمدی ؐ کے پرچارک تھے، جنرل ضیاء الحق کے دور میں حاجی ثناء اللہ بن کر اسلامی نظام کی تبلیغ کرنے لگے اور جب 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار ملا تو یہ بھٹو صاحب کے قابل اعتماد ساتھیوں کے طور پر زرداری صاحب کو حکومت چلانے اور مال بنانے کے گُر سکھانے لگے۔
ایک نیک نام بیورو کریٹ 1993ء میں میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ ختم ہونے کے بعد میاں زاہد سرفراز کے ساتھ پریس کانفرنس میں موٹروے کی تعمیر کو قومی خزانے پر بوجھ قرار دینے میں مصروف تھے ، اپنی ایک پرانی رپورٹ کا ذکر کیا جو انہوں نے موٹروے کی تعمیر کے خلاف تیار کی تھی ، دوسرے دن پتا چلا کہ موٹروے کی منظوری بھی موصوف کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے دی اور موٹروے کے حق میں ان کا ایک نوٹ بھی منظوری نامے کے ساتھ منسلک ہے۔ 1973ء کے آئین میں سرکاری ملازمین کو ملازمت کے تحفظ سے محروم کردیاگیا۔ بڑے بڑے اور نیک نام بیورو کریٹس حکمرانوں کی ناراضگی کی بنا پر پانچ پانچ سال تک کھڈے لائن لگے رہے اور انہیں کہیں سے انصاف ملا نہ صلہ وستائش۔
ڈاکٹر صفدر محمود او ایس ڈی کے طورپر ریٹائر ہوگئے۔ کرامت بخاری کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا اور کئی دیگر اہل، محنتی اور نیک نام محض حکمرانوں کی گڈبک میں نہ ہونے کی بنا پر اچھی پوسٹنگ سے محروم رہے۔ البتہ خوشامدیوں، مفاد پرستوں اور وفاداری کا یقین دلاکر ہر حکمران کو بے وقوف بنانے والوں کے خوب وارے نیارے ہیں۔ وہ جونیئر حیثیت میں سینئر پوزیشن پر براجمان ،حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاکر ملک، عوام اور قومی خزانے کا بیڑا غرق کررہے ہیں اور اپنی کامیابی و کامرانی پر شاداں و فرحاں ہیں۔ کلام اقبال پڑھ کر، قائداعظم کے اقوال پر عمل کرکے انہیں آخر کیا ملے گا؟ او ایس ڈی بننے کا دھڑکا لگا رہے گا۔گورنر سرور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ سچ نہیں ؟ ان کا اپنا ایک سالہ تجربہ کیا ہے؟