اسلام آباد پولیس عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ ظاہر ہے ان ہائی پروفائل شخصیات کو اپنے طور پر گرفتار کرنا پولیس کے بس کی بات نہیں وہ حکومت کی طرف دیکھ رہی ہے مگر حکومت میں شامل عہدیدار الگ الگ ڈفلی بجا رہے ہیں۔
اے آر ڈی کی تحریک میں پیپلزپارٹی کے ایک سرکردہ رہنما نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خوب لاٹھیاں کھائیں۔ پولیس نے حسب روایت بلوے ، قانون شکنی اور توڑ پھوڑ کے مقدمات درج کرلیے۔1985ء کے انتخابات میں یہ رہنما غیر جماعتی انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے اور کچھ عرصہ بعد اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔ مقدمات جوں کے توں رہے اور پھر مقامی عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔
دو چار پیشیوں کے بعد تفتیشی افسر نے عدالت میں جو رپورٹ پیش کی اس میں کہا گیا تھا کہ '' ملزم مذکور علاقہ میں عدم دستیاب ہے۔ بار بار طلبی کے باوجود تھانہ میں حاضر نہیں ہوا ۔ ملزم کے بارے میں اہل علاقہ سے معلوم ہوا ہے کہ اب اسلام آباد میں پایا جاتا ہے اور ایک محکمے کا وزیر ہے چنانچہ ریڈ کے لیے پولیس پارٹی کو اسلام آباد روانہ کیاگیا مگر ملزم کے وزیر ہونے کی وجہ سے پولیس پارٹی گرفتاری سے قاصر رہی۔ مفصل رپورٹ ہمراہ چالان پیش ہے۔ ملزم کی غیر حاضری میں حسب ضابطہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘‘
30اور31اگست کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا۔ احتجاجی تحریکوں میں مظاہرین قابو سے باہر بھی ہوتے ہیں اور ناخوشگوار واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں بھی معمول کی بات ہیں۔ یہاں مولانا عبدالستار خان نیازی، چودھری ظہور الٰہی اور حبیب جالب کے خلاف ایسے ایسے مقدمات درج ہوئے کہ لوگ آج تک ان حکمرانوں کی عقل و دانش کا ماتم کرتے ہیں جن کے دور میں پولیس یہ مقدمات درج کرتی تھی اور حکمران ملزمان کی گرفتاری پر خوش ہوتے تھے۔
گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ کے دور میں عوامی شاعر حبیب جالب پر مقدمہ درج ہوا کہ وہ مال روڈ پر ایوب خان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ، تلاشی پر جیب سے شراب کی بوتل برآمد ہوئی تو الطاف گوہر نے گورنر کی توجہ دلائی کہ نواب صاحب سوچیے حبیب جالب کو بوتل مل جائے تو باغ جنا ح میں بیٹھ کر مزے اڑائے گا یا صدر کے خلاف نعرے لگائے گا ؟ بات دل کو لگی ،گورنر نے یہ مقدمہ فوری طورپر ختم کرنے کا حکم دیا کہ لوگ حکومت کے بارے میں سوچیں گے کہ ایک شاعر سے خوفزدہ ہے۔ مگر 1970ء کے عشرے میں یہ مذاق مسلسل چلتا رہا۔ گائے بھینس چوری، بکری چوری اور شراب پی کر غل غپاڑہ کرنے کے الزام میں سیاستدانوں کے خلاف نہ صرف مقدمات درج ہوئے بلکہ انہیں پابند سلاسل بھی کیاگیا۔
اب ہماری پولیس اور حکومت اتنی بالغ تو ہوگئی ہے کہ وہ سیاستدانوں پر بھینس اور بکری چوری کے مقدمات درج نہیں کرتی، خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک ، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف مقدمہ بنانا ضروری سمجھے تو الزام پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی سٹیشن پر حملے کا لگاتی ہے۔ شاید سمجھتی ہو کہ جب ملک کے وزیراعظم پر طیارہ کیس بن سکتا ہے، حکومت میں بیٹھے لوگ سپریم کورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں‘ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کا ذمہ دار ادارہ ماڈل ٹائون میں سیدھی گولیاں چلاکر 14افراد کو شہید اور 80,85کو زخمی کرسکتا ہے تو کسی سیاسی جماعت کے سربراہ اور ایک چھوٹے صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے پارلیمنٹ ہائوس، ٹی وی سٹیشن پر حملہ کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ جب چودھری نثار علی خان اور پرویز رشید کہتے ہیں کہ حملے میں صرف عام کارکن‘ پولیس کے مخبر نہیں بلکہ سیاسی و مذہبی رہنما بھی شامل تھے تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ۔
وارنٹ گرفتاری کے اجراء کے بعد عمران خان اور دوسرے لیڈروں کوتو خیر کیا فرق پڑنا تھا جس طرح لاہور میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت اندراج مقدمہ کے باوجود سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزم پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں‘ کسی مائی کے لال کی مجال نہیں کہ وہ ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ سکے اسی طرح فی الحال پرویز رشید صاحب کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ لیکن دنیا بر امید قائم ۔ اگر 30نومبر کو بڑا اور پرجوش ہجوم اکٹھا ہونے کا امکان بڑھا تو حکومت کے ہاتھ پائوں پھولنے کی صورت میں یہ نوبت بھی آسکتی ہے کہ ہمارے ہاں حکمران عقل و خرد کے بجائے اپنے چاپلوس مشیروں پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔
دھرنے کی طوالت اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی بیرون ملک روانگی سے حکومت کو موقع ملا تھا کہ وہ عمران خان سے کچھ دو ، کچھ لو کے اصول کے تحت آبرو مندانہ ڈیل کرتی۔ عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے کی شرط سے دستبردار ہوکر حکومت کو باقی ماندہ پانچ نکات پر سمجھوتے کی راہ دکھائی مگر حکومت کا رویہ مرغے کی ایک ٹانگ والا ہے۔ حکمرانوں کے مزاج میں نرمی، معاملہ فہمی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جو عنصر ستمبر میں نظر آرہا تھا وہ دبائو کا نتیجہ اور ناکامی کا خوف تھا۔ حکمران سنبھل گئے ہیں اور اب انہیں کابینہ سے نااہل ، کام چور اور لگائی بجھائی کے عادی وزیروں کو نکالنے کی جلدی ہے‘ نہ انتخابی اصلاحات کی فکر اور نہ چیف الیکشن کمشنر کو با اختیار بنانے کی ضرورت۔ حتیٰ کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی خواہش کے مطابق سانحہ ماڈل ٹائون کے حقیقی ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے پر بھی وہ آمادہ نہیں ورنہ طاہر القادری آرمی چیف سے فریاد نہ کرتے ۔
دنیا بھر میں اپوزیشن سیاسی درجہ حرارت تیز کرتی ہے۔ مقصد براری کے لیے ہر ناخوشگوار واقعہ پر مٹی کا تیل ڈال کر اس کی سنگینی بڑھاتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ کام حکومت نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ جس طرح جون میں لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکومت نے لاپروائی سے 14اگست کا انتظار کیا اب بھی گزشتہ ایک ماہ سے 30نومبر کا انتظار کیا جارہا ہے اور حکومتی عہدیداروں کے بیانات پڑھ کر یہ لگتا ہے کہ جس طرح وہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے تعاون سے سابق بحران سے بخیرو خوبی نکل گئے اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ عمران خان کے ناتجربہ کار کارکن، آپس میں لڑائی جھگڑے کے عادی عہدیدار اور دھرنے کی طوالت سے دلبرداشتہ حامی اول تو 30نومبر کو اسلام آباد کارخ نہیں کریں گے ، اگر لاہور ، ملتان اور میانوالی کی طرح بڑا مجمع اکٹھا ہوگیا تو عمران خان کی تقریر سننے اور درشن کرنے کے بعد منٹوں سیکنڈوں میں منتشر ہوجائے گا مگر دونوں اطراف سے جس طرح بیانات کی گولہ باری جاری ہے اور جذبات بھڑکائے جارہے ہیں اس کا نتیجہ ناخوشگوار اور خلاف توقع بھی نکل سکتا ہے۔
محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں۔ گرفتاری کا شوق حکومت کو مہنگا پڑسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں سے زیادہ عوام میں ری ایکشن ہوگا۔ حکومت کا جمہوری چہرہ مسخ اور اب تک تحمل و برداشت کا ریکارڈ خراب ہوگا۔ عمران خان کو اس مقدمہ میں اکیلا گرفتار کرنا خلاف قانون ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کو بھی گرفتار کرنا پڑے گا جو پاکستان میں ایک نئی روایت ہوگی۔ یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ اسلام آباد کا واقعہ کیا سانحہ ماڈل ٹائون سے زیادہ سنگین اور غیر انسانی تھا کہ آج تک تفتیش کا آغاز ہوا نہ کسی کی گرفتاری کا فیصلہ ؟
دانشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ جس طرح سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر معطل ہے‘ آج تک کسی کو جھاڑ پونچھ کر کسی عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی‘ اسی طرح اسلام آباد کے واقعہ کی سرکاری ایف آئی آر بھی سردخانے میں پڑی رہتی۔ زیادہ سے زیادہ مذاکرات کے موقع پر سودے کاری کے لیے استعمال ہوتی مگر سرکاری حلقوں میں دانشمندی جنس ارزاں ہوتی تو صرف سال سوا سال کے عرصہ میں پاکستان اتنے بڑے بحران سے کیوں گزرتا اور ساری دنیا میں ہم تماشہ کیوں بنتے۔
عمران خان وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک سے ٹلے نہ مختلف شہروں میں جلسے کرنے سے باز آئے ہیں بلکہ روزانہ گرفتاری کا چیلنج دیتے ہیں۔ وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد قانونی کارروائی ضروری ہے۔ حکومت بھی عدالتی احکامات کو زیادہ عرصہ تک روک نہیں سکتی بالآخر پولیس پارٹی کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے روانہ کرنا ہی پڑے گا۔
اس مقدمہ کے ملزمان پیپلزپارٹی کے رہنما کی طرح گرفتار تو شاید نہ ہوپائیں کہ ان میں سے ایک پشاور میں ہیں اور صوبے کے وزیراعلیٰ ۔ البتہ کسی دن عدالت کے سامنے یہ رپورٹ پیش ہوسکتی ہے '' ملزمان مذکور اپنی رہائش گاہوں سے غائب ہیں اور پولیس کو عدم دستیاب۔ سنا ہے کہ شام کے وقت ڈی چوک کے سامنے ایک کنٹینر کے اوپر پائے جاتے ہیں جو پولیس کے لیے ناقابل دست اندازی ہے۔ ریڈ پارٹی روانہ کی گئی مگر کنٹینر کے قریب خوش پوش و خوش باش خواتین کے جوش و جلوہ اور ابرارالحق ، عطاء اللہ عیسی خیلوی کی گائیکی سے محظوظ ہوکر واپس آگئی۔ مفصل رپورٹ ہمراہ چالان پیش ہے۔ ملزمان کی غیر حاضری میں حسب ضابطہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘‘