بے نظیرہار

سوئس فیڈرل ٹربیونل نے بالآخر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا۔ ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قیمتی ہار کے حوالے سے بومر فنانس کی اپیل مسترد کردی۔ بومر فنانس مبینہ طور پر JensSchlergmilchنے سابق صدر آصف علی زرداری سے مل کر قائم کی۔
ایک لاکھ اسی ہزار ڈالر مالیت کے اس ہار کا نوے کی دہائی میں خوب چرچا رہا۔ برطانیہ کے سرے محل اور اس ہار کے بارے میں میاں نوازشریف نے قومی اسمبلی میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ایس جی ایس کو ٹیکنا کمپنی سے رشوت لے کر خریدے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہلے تو اس الزام کی دو ٹوک تردید کی، پھر کہا کہ ہم خاندانی رئیس ہیں کیا ایک قیمتی ہار نہیں خرید سکتے؛ تاہم سوئس مقدمات کو انہوں نے میاں نوازشریف کے دست راست سیف الرحمن کی کارستانی قرار دیا جو احتساب بیورو کے سربراہ تھے اور شاہی جوڑے سے لوٹ مار کا مال اگلوانے کے لیے سرگرم عمل۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب پیپلزپارٹی کا نام سن کر میاں نوازشریف کا خون کھول اٹھتا تھا اور وہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے سابق حکمران ٹولے کو سزائیں دلوانے کے درپے تھے۔ پھر 12اکتوبر ہوگیا اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کی طرح میاں صاحب کی رائے بدل گئی۔ اب وہ خود اور ان کے ساتھی سیاستدانوں کی کرپشن کو جمہوریت کا حسن اور اس کی مخالفت کو غیر جمہوری رویہ قرار دیتے ہیں۔ جدہ میں سینئر صحافی سہیل وڑائچ سے انٹرویو میں میاں صاحب نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مشورہ ایجنسیوں نے دیا اور سیف الرحمن کو احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کرنا ان کی غلطی تھی۔
ایس جی ایس کوٹیکنا کا قصہ یہ ہے کہ کسی نابغے کے مشورے پر بے نظیر بھٹو نے ایس جی ایس کوٹیکنا نامی کمپنی کو درآمدی اشیا کی مالیت ، تعداد، وزن اور ٹیکس کے ازسر نو تعین کا ٹھیکہ دیا جو درآمد کنندگان پر بوجھ اور کرپشن کا ایک نیا کھاتہ تھا۔ اس کمپنی سے وابستہ لوگوں نے درآمد کنندگان کے ناک میں دم کردیا اور کلیئرنس کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔
لوگوں نے سراغ لگایا تو پتا چلا کہ امپورٹ کے سرکاری ادارے کی کارگزاری بہتر بنانے کے نام پر کرپشن کا جو نیا کھاتہ کھلا ہے وہ حکومت کے اہم ارکان کی بالائی آمدنی میں اضافے کی تدبیر ہے ۔کمپنی کے کارپردازان حق خدمت بیرون ملک ادا کرتے ہیں اور سوئس بینکوں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ قیمتی ہار کی خریداری لندن کی ایک جیولری نمائش میں ہوئی جہاں محترمہ نے نقد کے بجائے کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کی اور پھنس گئیں۔ کریڈٹ کارڈ سے کی گئی ادائیگی سے بیرون ملک اکائونٹ کا سراغ ملا۔
پاکستان میں کرپشن کا آغاز الاٹ منٹوں ، روٹ پرمٹوں اور چھوٹی موٹی مراعات کے ذریعے1950ء کی دہائی میں ہوگیا تھا مگر یہ کرپشن ایسی تھی جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا نہ کسی دوسرے کی حق تلفی ہوئی۔ قاعدے قانون کو توڑنے اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے کا رواج نہ تھا۔ اقربا پروری کی لعنت بھی 1970ء اور 1980ء کے عشرے کی دین ہے۔ 1970ء سے قبل ایوب خان کے سوا کسی حکمران نے اپنے بھائی، بیٹے ، بیوی، بہو، بیٹی کو رکن اسمبلی بنایا نہ قومی وسائل کے دودھ کی رکھوالی سپرد کی۔ ورنہ نوابزادہ لیاقت علی ، عبدالرب نشتر، ملک غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ ، فیروز خان نون اور ذوالفقار ممدوٹ کی اولاد ان پڑھ تھی نہ نالائق اور غبی کہ کسی محکمے کی سربراہی اور کسی اسمبلی کی رکنیت کے قابل نہ سمجھی جاتی؛ یہ حکمران اپنی جملہ بشری کمزوریوں کے باوجود اس طرح کی وارداتوں کو معیوب سمجھتے اور بلاوجہ ہدف تنقید بننے سے گریز برتتے۔
1980ء کے عشرے میں ترقیاتی فنڈز ، ٹھیکوں ، کاروبار اور کک بیکس کے ذریعے لوٹ مار کی لت جو سیاستدانوں اور حکمرانوں کو پڑی، ایس جی ایس کوٹیکنا کیس اس کی ہلکی سی جھلک ہے۔ سوئس عدالتوں میں برسوں کیس چلتا رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری زیر سماعت مقدمے کی پیشیاں بھگتتے رہے۔ ایک موقع پر گواہی کے لیے سابق وزیر خزانہ مخدوم شہاب الدین کو بھی پیش ہونا پڑا مگر پیپلزپارٹی کے قائدین کے علاوہ کارکنوں نے کبھی یہ مان کر نہیں دیا کہ ایسا کوئی مقدمہ کسی سوئس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ جب سابق چیف جسٹس جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کی عدالت میں خط کا معاملہ زیر سماعت تھا اور اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بذات خود عدالتوں میں پیش ہورہے تھے ،اس وقت بھی جیالوں کو یقین تھا کہ یہ محض ٹوپی ڈرامہ ہے اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش۔ حتیٰ کہ جب واجد شمس الحسن کیمرے کے سامنے دستاویزات اپنی گاڑی میں منتقل کررہے تھے تو اسے کرپشن کا ثبوت نہیں ،میڈیا کی شرارت ہی سمجھا گیا۔
سرے محل بک چکا، کس نے بیچا اور کس نے خریدا۔ سب جانتے ہیں۔ قیمتی نیکلس کی واپسی اور حوالگی کا دعویٰ کس نے کیا یہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔ سوئس فیڈرل ٹربیونل دعویدار کی اپیل مسترد کرکے اسے حکومت پاکستان کی ملکیت قرار دے چکا ہے اور اس کا دو ٹوک مطلب ہے کہ یہ مال مسروقہ ہے، کرپشن کی رقم سے خریدا گیا۔ مگر 29اکتوبر کے اس فیصلے کے بعد حکومت پاکستان خاموش ہے۔ اسحاق ڈار نے کئی ماہ قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ سوئس بینکوں میں پڑے دو سو ارب ڈالر کی واپسی کے لیے عدالتوں اور حکومت سے رجوع کریں گے مگر تب سے اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پاکستان کی دولت سوئس بینکوں میں جمع کرانے والے بیشتر حکومت میں شامل ہیں یا اس کے حلیف اور مددگار۔
سادہ لوح عوام حیران ہیں کہ ٹرانسپورٹ کا کاروبار منافع بخش ہے۔ بجلی کی طلب اور رسد میں ہمیشہ تفاوت رہتا ہے، نجی شعبے کی سٹیل ملز کے وارے نیارے ہیں مگر حکومت کے زیر انتظام قومی فضائی ایئر لائن، ریلوے ، بجلی کی پیداوار اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں اور پاکستان سٹیل کا خسارہ ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے۔ کل کے کنگلے آج ارب پتی بلکہ کھرب پتی ہیں۔ سائیکل سواروں کے زیراستعمال لینڈ کروزر ہیں اور جنہیں کبھی سالم تانگہ کرنے کی توفیق نہ تھی وہ ذاتی طیاروں میں اڑتے پھرتے ہیں مگر ریاست کا ہر محکمہ ، ادارہ اور کاروبار خسارے میں ہے۔ اگر کساد بازاری، معاشی جمود اور مندے کا رجحان ہے تو اس کے اثرات حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ذاتی کاروبار پر کیوں نہیں پڑتے اور بھوک ، افلاس ، مہنگائی اور بے روزگاری کا نشانہ یہ چند خاندان کیوں نہیں بنتے، جو روزانہ قومی اداروں کی تباہی کا رونا روتے اور جن کے اقدامات کی وجہ سے خسارہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔
سوئس مقدمات میاں صاحب کی ہدایت پر نوے کے عشرے میں قائم ہوئے ،فیصلہ اب آیا ہے ۔ظاہر ہے کہ سوئس ٹربیونل حکومت پاکستان کے ماتحت ہے نہ آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کے مخالفین کے زیر اثر کہ سیاسی انتقام اور ناانصافی کا الزام لگے۔ مگر چور اور چوکیدار میں بھائی چارے اور من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو ، کی گردان کے سبب ٹربیونل کے فیصلے پر کسی نے توجہ نہیں دی ا ور قومی دولت واپس لانے پر کوئی تیار نہیں۔
شاید اس وقت کا انتظار کیا جارہا ہے جب پارٹنر شپ ٹوٹے، ہر چور ، اچکے ، راہزن، لٹیرے پر عوامی عدالت میں فردجرم عائد ہو اور عوام قومی خزانہ لوٹ کر اپنی اولاد، جائیداد، دولت بیرون ملک منتقل کرنے والوں کا احتساب خود کریں کیونکہ حکومت اگر بیرون ملک عدالتوں کے منصفانہ فیصلوں پر عملدرآمد کی اہل بھی نہیں تو اندرون ملک عدالتیں بھلا قومی مجرموں کو کیسے سزائیں سنا سکتی ہیں جن پر جائیدادیں اور چمک کا بھونڈا الزام لگانا آسان ہے اور ناانصافی کا ڈھنڈورا پیٹنا سیاستدانوں کے علاوہ ان کے گماشتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل۔
بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف انہی لوگوں کو جینے ، پھلنے پھولنے اور وسائل و اختیار کے مزے لوٹنے کا حق حاصل ہے جو خوئے غلامی میں پختہ ، لوٹ مار میں یکتا اور جھوٹ بولنے ، آئین ، قاعدہ ، قانون کو جھٹلانے میں ہرفن مولا ہیں اور عوام بھی اس حقیقت کو قبول کرکے انہی کے ساتھ سرنگوں ہوچکے ہیں، ورنہ سوئس ٹربیونل کے فیصلے کے ایک ماہ بعد بھی حکومت خاموش اور قوم لاعلم نہ ہوتی۔ پاکستان میں اس طرز سیاست نے نوجوانوں کو موجودہ '' جمہوری نظام‘‘ سے متنفر کردیا ہے ۔وہ تبدیلی کی خواہش کرنے لگے ہیں اور یہ خواہش بالآخر انارکی اوربغاوت کی شکل اختیار کرسکتی ہے کیونکہ نوجوان نسل سمجھنے لگی ہے کہ اگر لٹیرے محافظ جمہوریت ، سرپنچ اور سربلند ہیں تو پھر کسی دیانتدار، خادم قوم اور تبدیلی کے علمبردار کا کوئی مستقبل نہیں۔
حبیب جالب نے اس طرز سیاست و حکمرانی سے مایوس ہوکر کہا تھا :
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
مرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا
جھکا کے سر کو ہوجاتا جو''سر‘‘ میں
تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا
زمینیں میری ہر صوبے میں ہوتیں
میں واللہ صدر پاکستان ہوتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں