آغا شورش کاشمیری کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ برسوں قبل کہہ گئے ؎
یہ ہے میرے بست سالہ تجربے کا ماحصل
مفلسی ہر حال میں اک انتہائی جرم ہے
مالک مکان اور کرایہ دار میں سے کون سچا ہے کون جھوٹا؟ منصفانہ تفتیش سے دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہوگا مگر چھبیس کم سن بچیاں اس تنازع کی بھینٹ کیوں چڑھیں‘ خلق خدا کے سامنے تماشہ کیوں بنیں اور انہیں تھانے کا منہ کیوں دیکھنا پڑا جو دوست تو دوست خدا کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ اصل سوال یہ ہے۔ مگر ہم نے اپنے فکرو عمل اور کردار و گفتار سے معاشرے کو جس نہج پر لا کھڑا کیا ہے اس کا یہ منطقی نتیجہ ہے۔ بے حسی‘ سنگدلی‘ شقی القلبی اور ناعاقبت اندیشی کا ہر سو دور دورہ۔
آٹھ دس سال کی یہ بچیاں کسی ماں کے جگر کا ٹکڑا ہیں اور کسی باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔ کس غیرت مند باپ کا دل چاہتا ہے کہ اس کی نورنظر دوسروں کے ٹکڑوں پر پلے اور کون سی ماں یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی لخت جگر آنکھوں سے دور رہے۔ ماں کے لیے تو بچوں کی ایک لمحے کی جدائی قیامت ہوتی ہے ہزار طرح کے اندیشے اور وسوسے اس کو ادھ موا کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر جب گلاب چہرہ بچی کراچی جیسے شہر میں ہو جو عرصہ دراز سے درندوں کی گرفت میں ہے۔
ہم اس رسولﷺ کے نام لیوا ہیں جن کا بچوں بالخصوص بچیوں سے پیار ضرب المثل ہے۔ حبشہ سے آنے والی ایک بچی کا نام حسنہ تھا۔ آپؐ اس کو توتلی زبان میں سنہ سنہ پکارتے اور وہ بھاگ کر چلی آتی۔ ایک مرتبہ کسی نے سیاہ دھاری دار کپڑا آپؐ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا۔ آپؐ کو پسند آیا‘ اُم خالد نامی بچی کو بلایا اور اپنے ہاتھ سے پہنا کر فرمایا ''پہنو اور بوسیدہ کرو‘ پہنو اور بوسیدہ کرو‘‘۔
مگر یہاں بچیوں کے ساتھ بالعموم وہ سلوک روا رکھا جاتا ہے جو زمانہ جاہلیت میں عرب کے بعض قبائل کا شعار تھا۔ بچیوں کی پیدائش پر آزردگی اور ماتم‘ بیوی کو طعنے اور خاندان بھر میں رسوائی۔ آپؐ نے ان والدین کو جنت میں داخلے کی بشارت دی جو اپنی دو یا تین بچیوں کو اچھی تعلیم و تربیت کے بعد دلہن بنا کر رخصت کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں جاہلانہ قبائلی معاشرے کی طرح بچی کا باپ ہونا باعث شرمندگی ہے۔
کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد کے عشرت کدوں میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے والوں کو ان غریبوں اور بے وسیلہ شہریوں کی پریشانی سے کیا سروکار جن کے بچے اور بچیاں چار پانچ سال کی عمر میں پہنچ جائیں تو ان کی جان پر بن آتی ہے کہ ان ننھے فرشتوں کا کیا کریں۔ محلے میں سرکاری سکول نہیں‘ پرائیویٹ سکولوں کی فیس دینے کی استطاعت نہ بچوں کی یونیفارم‘ کتابیں خریدنے کی سکت۔ گھریلو ملازمت‘ فیکٹری و ورکشاپ کی مشقت کا مزا وہ زندگی بھر چکھ چکے ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو چکھانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ انہیں گلیوں‘ محلوں میں آوارہ پھرنے اور جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھنے کی اجازت دے نہیں سکتے کہ ماں باپ غریب ہوں یا امیر بہرحال اولاد کے حوالے سے احساسات دونوں کے یکساں ہوتے ہیں؛ چنانچہ دینی مدرسہ ہی ان کی اولین ترجیح ٹھہرتا ہے۔
دینی مدارس کی خامیاں اپنی جگہ‘ ان سے شکایات بھی بہت ہیں۔ نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں‘ ماحول مسلک و فرقہ کے تعصبات پر مبنی اور اندازکار جدت سے یکسر محروم۔ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ مدارس رفاہی اداروں کے طور پر اپنا مثبت اور مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق دینی اداروں میں اس وقت اٹھارہ سے بیس لاکھ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
ان طلبہ و طالبات کو عوام کے عطیات‘ صدقات‘ زکوٰۃ پر چلنے والے ادارے تین وقت کا کھانا‘ لباس‘ طبی سہولتیں اور کتب مفت فراہم کرتے ہیں۔ اکثر مدارس میں ماہانہ وظیفہ کی مد میں فی کس پانچ سو روپے کی ادائیگی بھی ہوتی ہے۔ غریب والدین اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرانے کے بعد ذہنی‘ روحانی اور معاشی آسودگی محسوس کرتے ہیں کہ بچہ بھوک‘ آوارگی اور ناخواندگی تینوں سے بچ جاتا ہے۔ دینی تعلیم کی بنا پر آخرت میں بخشش کی امید اس پر مستزاد۔ یہ بچیاں بھی انہی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہوں گی یا پھر یتیم جن کا ہمارے معاشرے میں کوئی پرسان حال نہیں۔ عزیز رشتے دار بھی انہیں بوجھ سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں دینی مدارس کی اصلاح کا شور کئی عشرے قبل ایوب خان کے دور میں اُٹھا‘ یحییٰ دور میں نور خان کمیٹی کی سفارشات میں دینی مدارس کا ذکر بطور خاص ہوا۔ بھٹو‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں بھی اعلانات ہوتے رہے مگر عملی اقدام عنقا۔ دینی مدارس کی اصلاح و ترقی تو خیر کیا ہونی تھی سرکاری سکولوں کی حالت روز بروز ابتر ہوتی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ کوئی نچلے متوسط طبقے کا فرد بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کرانے کا رسک نہیں لے سکتا جہاں فرنیچر نہ ٹیچر اور گرمی میں پنکھا نہ سردی میں ہیٹر۔ دیہات تو درکنار شہروں کے سکول بھی ویرانی و بے سروسامانی کا جگر خراش منظر پیش کرتے ہیں‘ ملکہ نور جہاں کے اس شعر کی تصویر ؎
بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے
نے پر پروانہ سوزو نے صدائے بلبلے
2002ء میں اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان شہر میں ایک سکول دیکھنے کا موقع ملا جہاں چھٹی ساتویں جماعت کے بچے کھلے آسمان تلے سالانہ امتحان دے رہے تھے۔ سکول کے وسط میں بارشی پانی جمع تھا جس سے بدبو کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ ہیڈ ماسٹر نے بتایا کہ سکول کی عمارت گرنے کے قریب ہے اس لیے اپریل کے آخری ہفتے میں جب جنوبی پنجاب میں گرمی قدم جما چکی ہوتی ہے‘ کلاسیں صحن میں ہو رہی ہیں کیونکہ بچوں کی زندگی عزیز ہے۔ کیپٹن (اب کرنل) ملک محمد شفیق کو حیرت ہوئی مگر میں نے بتایا کہ یہ کوئی اکیلا سکول نہیں‘ اس دھرتی پر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں سکولوں کی یہی حالت ہے مگر ہمارے حکمران خواہ فوجی ہوں یا سویلین‘ ان پر کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ انہیں چند بڑے شہروں میں فلائی اوورز‘ انڈر پاسز‘ جہازی سائز سڑکیں‘ پارک‘ آبشاریں اور آسمان کو چھوتی بلڈنگوں کی تعمیر سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ غریب علاقوں‘ غریب آبادیوں‘ غریب لوگوں اور غریب بچوں کے درد کا درماں‘ تعلیم و صحت کی سہولتوں کا سامان کر سکیں۔
پنجاب دیگر صوبوں سے بہتری کا دعویدار ہے اور یہ کچھ غلط بھی نہیں مگر یہاں تریسٹھ ہزار سکولوں میں سے اکثر کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سکول کی عمارت ہے تو ٹیچر نہیں‘ ٹیچر ہے تو کسی کا سفارشی ہونے کی بنا پر کبھی حاضر نہیں ہوتا اور سکول کی شکل دیکھ لے تو بھوت بنگلے میں خود بیٹھ سکتا ہے نہ طالب علموں کو بٹھا کر پڑھانے کے قابل۔ اکثر سکول زمینداروں نے جانوروں کے اصطبل کے طور پر مخصوص کر رکھے ہیں اور کہیں کہیں یہ ڈیرے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے لوئر مڈل کلاس کی مت مار دی ہے۔ پاورٹی لائن سے نیچے زندگی گزارنے والے عوام کالانعام اپنے بچوں کو اگر گلی محلے میں قائم چھوٹے بڑے مدرسے میں نہ بھیجیں تو کہاں جائیں۔
اگر مالک مکان اور کرائے دار میں جھگڑا نہ ہوتا تو باجوڑ کی یہ بچیاں اسی مدرسے یا دارالکفالہ میں بیٹھی دور دراز بسنے والے اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں کی یاد میں آنسو بہا رہی ہوتیں۔ تھانے میں پہنچنے سے پہلے کسی کو ان کی مظلومیت اور بے بسی کا احساس تھا نہ گڑیاں اور کھلونے پہنچانے کی جلدی اور نہ ان کی کفالت کی فکر۔ پولیس نے ان بچوں کو برآمد کر کے اپنی تحویل میں لیا تو ہر ایک کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کا موقع مل گیا ورنہ کراچی کے ہر محلے میں ایسے ہی مدارس موجود ہیں جہاں بچے اور بچیاں اسی طرح کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں مگر والدین خوش کہ ان کے بچے ناخواندگی و جہالت کے علاوہ کم عمری کی مشقت سے بچ کر دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ ماں باپ پر بوجھ نہیں۔
پاکستان کے حکمرانوں کے علاوہ سیاستدانوں اور اصلاح معاشرہ کے علمبرداروں کو کبھی فرصت ملے تو اس امر پر غور کریں کہ اگر یہ دینی مدارس موجود نہ ہوں‘ رفاہی ادارے اور فلاحی تنظیمیں طب‘ تعلیم‘ اپنی مدد آپ کے تحت روزگار اور بے آسرا خاندانوں کی کفالت کے لیے سرگرم عمل نہ ہوں تو اس معاشرے کا کیا بنے اور بھوکوں‘ بے روزگاروں‘ بیماروں‘ آوارہ گردوں کی فوج ظفر موج اشرافیہ سے کیا سلوک کرے گی جسے لوٹ مار کے سوا کچھ سوجھتا ہے نہ اپنے اور اپنے خاندان کے سوا کسی کے دکھ درد‘ فکر فاقے سے کوئی سروکار ہے۔ پاکستان محروموں‘ مظلوموں اور کمزوروں کی حالت بہتر بنانے اور انہیں سماجی‘ معاشی و قانونی انصاف فراہم کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا مگر یہ ظالموں‘ طاقتوروں اور مراعات یافتہ وڈیروں کی چراگاہ بن گیا‘ جہاں بے یارومددگار بچیوں اور بیٹیوں پر بھی اس وقت تک کوئی ترس نہیں کھاتا‘ کسی کا جذبہ انسانی ہمدردی نہیں جاگتا جب تک وہ دادرسی کے لیے تھانے میں نہ پہنچ جائیں‘ تھانہ کہاں عقوبت خانہ۔