مختلف نقطہ نظر کے دو سابق ججوں سے بات ہوئی‘ لاہور ہائی کورٹ کے قابل ترین‘ قابل احترام دونوں جج اس بات پر متفق نظر آئے کہ تین کے پینل میں سے جسٹس سردار رضا خان بطور چیف الیکشن کمشنر بہترین انتخاب ہیں۔ غیر معمولی طور پر دیانتدار‘ دبنگ قوت فیصلہ کے مالک اور اپنا فیصلہ منوانے کے اہل و عادی۔
جسٹس طارق پرویز اور جسٹس تنویر احمد خان کی دیانت و امانت میں شک نہیں اور میزان عدل کو طے شدہ اصولوں کے مطابق کسی ایک طرف جھکنے نہیں دیتے مگر ایک کی وجہ شہرت چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چوہدری اور دوسرے کی جسٹس (ر) خلیل رمدے سے قربت ہے۔ فخر الدین ابراہیم کے تجربے کی بنا پر الیکشن کمشن کے باقی ارکان کی موجودگی میں قوم کو ضرورت ایک دبنگ اور ذہنی و جسمانی طور پر مضبوط‘ چاق و چوبند چیف الیکشن کمشنر کی ہے۔ قرآنی الفاظ میں بسطۃً فی العلم و الجسم۔
سید خورشید شاہ نے اسحق ڈار کی موجودگی میں چیف الیکشن کمشنر کے طور پر تین قابل احترام شخصیات کے پینل پر اتفاق رائے کا اعلان کیا تو دوسروں کی طرح میں نے بھی سکون کا سانس لیا کہ بعداز تاخیر و خرابی بسیار بالآخر حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن نے بہتر فیصلہ کیا۔ پہلے کی طرح بندر بانٹ نہیں کی۔ نصف لی و نصف لکم ہذا قوم جاہلون۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی بھی تنویر احمد خان کے بجائے سردار رضا خان پر متفق ہو جائے تو الیکشن کمشن کے باقی ارکان کی موجودگی میں نئے چیف‘ اپنے پیشرو فخرو بھائی سے بہتر کار گزاری دکھا پائیں گے؟
پاکستان میں انتخابی عمل کبھی دھاندلیوں سے پا ک نہیں رہا۔ آزادانہ ‘ منصفانہ اور شفاف الیکشن کے لیے الیکشن کمشن نے بھی کچھ زیادہ تردد نہیں کیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہر حکمران نے اپنی مرضی کا الیکشن کمشن تشکیل دیا اور پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے اس ادارے کو بطور بیساکھی استعمال کیا۔ آئین اور قانون کی طرح ہر ادارہ حکمران کا بندہ بے دام اور زر خرید غلام نہ ہو تو حکمرانی کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے ۔ اور ہمارے حکمران یہ کبھی نہیں ہونے دیتے۔
عمران خان جب کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ 1970ء کے سوا ملک میں کبھی منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے تو لوگ محظوظ ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں 1970ء کے انتخابات کا موازنہ 2013ء کے انتخابات سے کیا جائے تو پچھلے سال کے انتخابات تاریخ کے سب سے زیادہ آزادانہ‘منصفانہ اور شفاف نظر آتے ہیں۔شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 1970ء میں دوسری جماعتوں کو صرف اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت دی تھی‘ پولنگ کے روز مخالفین کو ووٹ بھگتانے اور عملے کو ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی اور رزلٹ مرتب کرنے کی آزادی نہیں تھی۔
1977ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کا اعتراف اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان نے ان الفاظ میں کیا ''ہم نے تو دکان سجا دی تھی اس پر ڈاکو پڑ گئے تو ہمارا کیا قصور۔‘‘ اس ننگی دھاندلی کے خلاف پرجوش تحریک نے سٹیک ہولڈرز کو انتخابی دھاندلی کے انداز اور طریقے بدلنے پر مجبور کیا تاکہ ملک دوبارہ کسی بڑی اتھل پتھل کا شکار نہ ہو۔ ہر جماعت کو کسی نہ کسی صوبے میں حصہ رسدی دینے کا اہتمام بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی مگر عمران خان نے ابتدائی غلطیوں کے بعد مل جل کر کھانے اور اقتدار کے مزے اڑانے کے اس نظام کو چیلنج کر کے صورتحال خراب کر دی۔ ورنہ 2013ء کے انتخابات کو قابل قبول بنانے کی تدبیر عمدہ تھی۔ ہر سیاسی و مذہبی جماعت کسی نہ کسی جگہ شریک اقتدار۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ دھرنے اور احتجاج کا کیا فائدہ جبکہ میاں نواز شریف بدستور برسر اقتدار ہیں اور پارلیمنٹ ان کی پشت پر کھڑی ہے؟ بجا۔لیکن پاکستان میں الیکشن کمشن کی زمام کار پہلی بار صرف ایماندار اور نیک نام ہی نہیں بلکہ ایک دبنگ ‘ قوت فیصلہ کے مالک اور اپنے فیصلے منوانے کی اہلیت سے مالا مال فرد کو سونپنا کس کے دبائو کا نتیجہ ہے؟ نئے چیف‘ متنازعہ ارکانِ کمشن کے خلاف سپریم جوڈیشل کمشن میں ریفرنس بھیج کر اپنی طرح کے بہترین افراد کو اپنے اردگرد جمع کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا کریڈٹ کس کو جائے گا؟ انتخابی اصلاحات کا مرحلہ بھی بالآخر طے پاتا ہے اور حکومت پی ٹی آئی مذاکرات میں انتخابی دھاندلیوں کی تفتیش کے لیے قابل عمل میکنزم طے پا جاتا ہے تو یہ دھرنے اور احتجاج کی برکت ہے یا حکمرانوں اور فرینڈلی اپوزیشن کی ملی بھگت کا نتیجہ؟فیصلہ انصاف پسند قارئین خود کر سکتے ہیں۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس بار نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام پر صاد یا مخالفت کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ۔ تینوں ناموں کی چھان بین جسٹس وجیہہ الدین اور حامد خان کے بجائے ان لوگوں سے کرانی چاہیے جو وکیلوں اور ججوں کی پالیٹکس سے آزاد اور ذاتی و گروہی پسند و ناپسند سے بالاتر ہیں۔تینوں ناموں کو محض اس بنا پر مسترد کرنا دانشمندی نہیں کہ انہیں میاں نواز شریف اور خورشید شاہ نے پیش کیا۔ اور کسی شخص کو محض اس کی نیک نامی اور شرافت کی بنا پر قبول کرنا بھی نادانی ہو گی۔ فخر الدین جی ابراہیم کے تجربے کے بعد ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر جسٹس سردار رضا پر کیوں متفق نہ ہو سکے‘ یہ بھی طرفہ تماشہ ہے۔ شاید دونوں نہیں چاہتے کہ الیکشن کمشنر کوئی نڈر اور منہ زور شخص ہو۔
سپریم کورٹ کے دبائو پر چیف الیکشن کمشنر کے تقرر سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہو گئی کہ حکمرانی کا موجودہ انداز‘ خودکار طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ حکمران قوت فیصلہ سے محروم ہیں۔ کسی خود مختار ادارے کے سربراہ کا تقرر ہو یا الیکشن کمشن کی تکمیل جب تک بھر پور سیاسی و قانونی دبائو نہ ہو اور حکومت بحران کی شدت محسوس نہ کرے کوئی ڈھنگ کا فیصلہ ہوتا ہے نہ آئینی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔اس طرز حکمرانی نے عوام کو موجودہ نظام سے بدظن کر دیا ہے اوروہ تبدیلی کی خواہش کرنے لگے ہیں۔
اس سے زیادہ سنگدلی اورشقی القلبی کیا ہو سکتی ہے کہ تھر میں غذائی قلت‘ ناکافی طبی سہولتوں اور حکومت کی غفلت و بے پروائی سے چھوٹے چھوٹے بچے موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ پنجاب میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہسپتالوں میں مائوں کی گود یں اجڑ رہی ہیں۔ سڑکوں پر کھٹارا بسیں‘ سکول جاتے بچوں میں موت بانٹ رہی ہیں مگر حکمران خواہ وہ مرکز کے ہوں یا صوبے کے سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ جتنا زور ہمارے حکمرانوں نے اپنا عرصہ اقتدار پورا کرنے‘ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو نیچا دکھانے اور اپنے مخالفین کی سرکوبی کرنے پر لگایا اگر اس کا عشر عشیر قوم کو غربت و افلاس‘ بھوک پیاس‘ بیماریوں ‘ جہالت بے روزگاری سے نجات دلانے پر لگایا ہوتا تو پاکستان واقعی جنت نظیر نظر آتا۔ کم از کم ابوظہبی اور دبئی کے حکمران و عوام ہم پر رشک کرتے۔
حکمرانوں کی انہی غلط ترجیحات اورحقیقی عوامی مسائل سے روگردانی کے سبب نوجوان مایوس و مشتعل ہیں۔ انہیں یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو ڈاکٹر کی توجہ ملتی ہے نہ معیاری دو ائی۔سرکاری سکولوں میں غریب کے بچے کو ٹاٹ میسر ہے نہ استاد اور مارکیٹ میں ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی پھل سبزیاں خریدنے کی سکت نہیں رکھتی مگر حکمرانوں کو کھربوں روپے کے میگا پراجیکٹس میں دلچسپی ہے کیونکہ قدریہاں انسانوں کی نہیں‘ فکر کسی کو ان کی تعلیم‘ صحت اور روٹی روزی کی نہیں اور ضرورت صحت مند‘خواندہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت کی نہیں صرف بیمار‘ لاغر ‘ ان پڑھ اور محتاج و بے بس ووٹروں کی ہے جو ان کے منصوبوں سے متاثر ہو کر انہیں ووٹوں کا نذرانہ پیش کر سکیں۔
اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ آتا تو شاید اگلے دو تین سال تک یہ آئینی منصب خالی پڑا کسی عمر رسیدہ اور بھلکٹر شخص کی راہ تک رہا ہوتا اور ڈنگ ٹپائو سسٹم جاری رہتا جو ہماری اشرافیہ کی ضرورت ہے۔
کاش سپریم کورٹ خیبر پختونخوا سمیت تمام صوبائی حکومتوں کو ضلعی حکومتوں کے انتخابات اگلے ایک ڈیڑھ ماہ میں کرانے کا پابند کرے اور ان کی حیل و حجت کو مسترد کر کے عملدرآمد نہ کرنے والی حکومت کو سخت سزا کی نوید سنائے تاکہ عوام کو بھی اقتدار میں شرکت کا موقع ملے اور وہ اپنے مسائل مقامی سطح پر حل کر سکیں کیونکہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی حکومت انتخابات کرانے میں سنجیدہ ہے نہ الیکشن کمشن تیار‘ شاید نئے چیف الیکشن کمشنر بھارتی چیف الیکشن کمشنر کی طرح حکومتوں کو اس پر مجبور کر دیں مگر بدقسمتی سے موجودہ انتظام کے تحت چیف صاحب باقی ارکان کے محتاج ہیں اور ان کے فیصلوں پر انگوٹھا لگانے کے پابند۔ جسٹس بھگوان داس نے ان ارکان کی رخصتی کے بغیر عہدہ سنبھالنے سے انکار کیا شاید نئے چیف بھی یہ شرط عائد کریں۔اے کاش!