شرسے خیر کا ظہور

شرسے خیر کا ظہور ہوچکا۔ دہشت گردوں کی بلاامتیاز وتفریق سرکوبی حکومت ، فوج اور سیاسی ودینی قوتوں کا مطمح نظر ٹھہرا۔ خدا کرے کہ یہ اتحاد و اتفاق سلامت رہے اور ترجیحات بھی وقت گزرنے کے ساتھ تبدیل نہ ہوں جو ہمارا قومی مزاج ہے اور حکمران اشرافیہ کی دیرینہ عادت۔
دہشت گردی کا یہ سانپ ایک دن میں اژدھا نہیں بنا۔ ہم نے چالیس پینتالیس برس تک دودھ پلایا۔ جب بھارت مشرقی پاکستان میں بنگالی نسل پرستی کو فروغ دے رہا تھا اور سیاسی جماعتیں آہستہ آہستہ عسکری تنظیموں کا روپ دھار رہی تھیں تو ہمارے حکمران، سیاستدان اور دانشور حیلوں بہانوں سے اس عفریت کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ بھارت کی تربیت یافتہ مُکتی باہنی کے گوریلوں کو بنگالی ہیرو قرار دینے والے آج بھی زندہ ہیں اور اپنے کیے پر ہرگزشرمندہ نہیں۔ جو کچھ وطن عزیز میں گزشتہ نو دس سال سے ہورہا ہے اور جس کی انتہا سانحہ پشاور ہے اتنا ہی اذیت ناک منظر محب وطن بنگالی و غیر بنگالی پاکستانیوں نے مارچ سے دسمبر تک 1971ء میں دیکھا۔ معصوم بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بے دردی سے قتل عام اور خواتین کی جبری آبروریزی اس پر مستزاد۔
پاک فوج نے ان عسکریت پسندوں ، تخریب کاروں ، دہشت گردوں اور باغیوں پر جوابی وار کیا تو اس پر اندرون و بیرون ملک طعن و تشنیع ہوئی اور دفاع وطن کے لیے پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے والوں کا دشمن اور اسٹیبلشمنٹ کا وظیفہ خوار قرار دیاگیا ۔آج بھی جب حسینہ واجد کی حکومت موت اور عمر قید کی سزائیں سناتی ہے تو پاکستان میں بہت سے لوگ خوشی سے بغلیں بجاتے ہیں کہ انہیں اپنے کیے کی سزا ملی، پاکستان سے محبت اور ریاست کے باغیوں ، بھارت کے تنخواہ دار، تربیت یافتہ دہشت گردوں کی مخالفت ان کا جرم تھا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بلوچستان میں شورش برپا ہوئی تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بیرونی اشارے پر آزاد بلوچستان کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تو ایک بار پھر فوج کی مخالفت اور باغیوں کی حمایت ہوئی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ کراچی اور اندرون سندھ پاکستان کا پرچم جلانے اور ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بننے والوں کے خلاف جب بھی حکومت یا فوج نے کوئی سخت فیصلہ کیا تو انسانی حقوق کی فارن فنڈڈتنظیموں کی طرح بعض اہل سیاست و صحافت نے شور مچایا اور مشرقی پاکستان کے تجربے کے پیش نظر کسی نے کھل کر حکومت یا پاک فوج کا ساتھ نہ دیا۔ ستم ظریفی یہ کہ پاکستان کے خلاف بندوق اٹھانے والے بعض گوریلوں کو بعدازاں ریاست نے انعام و اکرام سے نوازا۔ عسکریت پسندی ،دہشت گردی مذہبی و مسلکی بنیادوں پر ہو یا نسلی و لسانی اور علاقائی حقوق کا نعرہ لگاکر ،دونوں صورت میں سنگین جرم ہے۔ ریاست کے وجود کے لیے خطرہ۔ دہشت گردوں کو پناہ افغانستان میں ملے یا بھارت اور کسی مغربی ملک میں ،جس طرح براہم داغ بگٹی اور حیربیار مری دندناتے پھرتے ہیں، دہشت گردی کا نشانہ کسی آرمی پبلک سکول کے بچے بنیں یا بلوچستان میں علم کی روشنی پھیلانے والے یا پنجاب و سرائیکی وسیب کے غریب ٹیچر اور عروس البلاد کراچی میں ڈاکٹر ،انجینئر اور مہاجر و غیر مہاجر شہری،ہرنوع کی دہشت گردی کا قلع قمع قومی سلامتی کا تقاضا اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی بنا پر جب یورپی یونین، اندرون ملک انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر پریشر گروپوں کی پروا کیے بغیر سزا یافتہ دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکانے کا فیصلہ ہوا تو ہر طرف سے تائید ہوئی۔
مگر کیا چند سو دہشت گردوں کو پھانسی دینے پر ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے؟ کیا تعلیمی ادارے اور دینی مدارس چند دنوں کے لیے بند کردینے سے معصوم بچے محفوظ ہوجائیں گے اور افغانستان کی حکومت اور ایساف کا تعاون دہشت گردی کے خاتمے کی ضمانت ہے؟ یہ ضروری تھااور ہے مگر مرض جس قدر پیچیدہ اور مُتعدّی ہے علاج بھی ضرورت سے زیادہ احتیاط ، تحمل مزاجی ، راست فکری اور شائستگی کا متقاضی ہے۔ جذباتی ردعمل ہیجان ،اشتعال اور جلد بازی ریاست کو زیبا ہے نہ ریاستی اداروں کے لیے یک رخی پالیسی روا۔
آرمی پبلک سکول سے لے کر جی ایچ کیو ، واہگہ بارڈر اور مہران بیس پر حملے میں اگر ایک ہی گروہ ملوث ہے اور دونوں تازہ واقعات شمالی وزیرستان آپریشن کا ردعمل ہیں تو یقینا کارروائی بھی انہی گروہوں اور ان کے گرفتار افراد کے خلاف ہونی چاہیے لیکن تاریخی نوعیت کے موجودہ قومی اتحاد و اتفاق ، سیاسی سطح پر غیر معمولی بیداری اور حیران کن یکسوئی سے بس اتنا فائدہ اٹھانا دانشمندی اور دور اندیشی نہیں۔ باشعور قومیں بڑے مواقع سے بڑے فوائد اٹھاتی اور بلند اہداف حاصل کرتی ہیں۔
توقع یہی ہے کہ معاملہ صرف پہلے کی طرح ہنگامی نوعیت کے اقدامات تک محدود نہیں رہے گا۔ کچھ فیصلے وزیراعظم نوازشریف نے جی ایچ کیو میں فوج کی قیادت کے ساتھ مل کر کیے۔ بہت سے پارلیمانی کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں ہوں گے۔ مگر دہشت گردی کی موجودہ لہر پر قابو پانا حتمی ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ ہر نوعیت کی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے کا اس سے بہتر موقع شاید ہمارے حکمرانوں اور سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ کو پھر کبھی نہ ملے۔ 
ہر طرح کے عسکریت پسندوں ، دہشت گردوں، تخریب کاروں ، باغیوں اور بیرونی ایجنٹوں کو ملیا میٹ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے پشت پناہ اور ہمدردوں ، ان کے قبیح جرائم کو مذہب، مسلک ، رنگ، نسل، علاقے کی بنیاد پر جواز فراہم کرنے والوں کو بھی مجرم تصور کیاجائے اور انہیں کسی قسم کی سیاسی، مذہبی، مسلکی چھتری استعمال کرنے کا ہرگز کوئی موقع فراہم نہ کیاجائے۔ ہر دہشت گرد کو بلاتفریق مذہب ، مسلک، بلاتمیز نسل ، زبان و علاقہ کیفر کردار تک پہنچا کر ہی معاشرے کو ان درندوں سے پاک کیاجاسکتا ہے،جن کی وجہ سے پاکستان میں انسانی زندگی غیر محفوظ ہوچکی۔
تمام مسالک کے جید علماء کو آمنے سامنے بٹھا کر یہ طے کیاجائے کہ اسلام میں جہاد کا تصور کیا ہے؟ کیا ریاست کی جگہ کوئی گروہ اور فرد بھی اعلان جہاد کا مکلف ہے اور کیا اسلام میں مسلم ریاست کے ان اداروں کو نشانہ بنانا جائز ہے جو قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ان سرگرمیوں میں ملوث افراد کے بارے میں ریاست کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے، کہنے کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاستی معاملات طے کرنے میں علماء کا کیا کام ؟ مگر یہ محض خود فریبی ہے۔ قومی سطح پر ابہام سے عسکریت پسندوں نے فائدہ اٹھایا اور اب بھی اگر یہ ابہام ختم نہ کیاگیا تو آپریشن اور سزائوں کے مطلوبہ نتائج کا حصول مشکل ہوگا۔
دینی مدارس اور مساجد کو حکومتی کنٹرول میں لائے بغیر کسی قاعدے ضابطے کا پابند کرنا ضروری ہے مگر یہ احتیاط کہ ان کی آزادی مجروح اور محکمہ اوقاف کے تجربات کا اعادہ نہ ہو جس کے ملازم سرکاری مولوی حکمرانوں کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ ویسے بھی جو حکومتیں سرکاری سکول چلانے سے قاصر ہیں وہ بے چاری دینی مدارس کا کباڑہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گی اور علماء و اساتذہ کی آزادی تحریر و تقریر متاثر ہوگی۔
دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں ، ججوں ، وکلا اور گواہوں کے علاوہ تفتیشی افسروں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جس کو پورا کرنے میں ریاست اب تک کامیاب نہیں ہوئی۔ عوام کی طرف سے فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ اس لیے ہوتا ہے کہ ان کے سربراہ کسی خوف اور رکاوٹ کے بغیر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں نہ تو کسی مجرم کی طرف سے دھمکی کی پروا ہوتی ہے اور نہ وکلااور گواہوں کی طرف سے تاخیری حربوں کا سامنا۔ خصوصی عدالتوں کو بھی یہ اعتماد ہونا چاہیے ورنہ مقدمات لٹکتے اور فیصلے موخر ہوتے رہیں گے۔ میڈیا کے حوالے سے عوامی تحفظات کا جائزہ بھی احتیاط سے لینا چاہیے۔
حکمران بھی اب اقتدار کو آزمائش اور قومی ذمہ داری سمجھ کر ادائے فرض کی عادت اپنائیں۔ موجودہ قومی اتفاق رائے کو وہ مہلت عمل سمجھیں جو غیر معینہ عرصے کے لیے نہیں مختصر مدت کے لیے ہے اور اگر وہ دبائو سے نکلتے ہی پرانی روش پر گامزن ہوگئے تو اپنے علاوہ ملک و قوم کے ساتھ بھی زیادتی کریں گے۔ سزائے موت بھی اگر رات کے اندھیرے کے بجائے چوکوں ، چوراہوں میں دی جائے تو اثرات قدرے بہتر مرتب ہوں گے۔ انسانوں کے بجائے قاتلوں ، دہشت گردوں تخریب کاروں اورغدارانِ وطن کے حقوق کی علمبردار اور وکیل تنظیموں کو اعتراض ہوگا مگر قصاص میں زندگی ہے اور جرم کے مطابق سزا میں عبرت۔ دیکھیں پارلیمانی کمیٹی کیا تجاویز پیش کرتی ہے اور ان پر عملدرآمد میں ریاستی ادارے کتنا وقت لیتے ہیں۔پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں