میںآدمی ہوں‘ مرا اعتبار مت کرنا

بیرسٹر اعتزاز احسن کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ گیارہ گھنٹے پر محیط کل جماعتی کانفرنس نے سات گھنٹے فوجی عدالتوں کے بارے میں ان کے تحفظات پر بحث کی۔ مگر بالآخر فوجی عدالتوں کے جملہ مخالفین قائل کیسے ہو گئے؟ یہ اعتزاز احسن کو ضرور بتانا چاہیے۔ 
شیخ ابراہیم ذوق کا ایک غیر معروف شعر ہے جو کل جماعتی کانفرنس کے فیصلوں اور گزشتہ تین چار روز سے حکومت کی سنجیدگی پر مجھے بار بار یاد آتا ہے ؎ 
پیر مغاں کے پاس وہ دارو ہے جس سے ذوقؔ 
نامرد‘ مرد‘ مرد‘ جواں مرد ہو گیا 
کل جماعتی کانفرنس کے دوران بھی شاید پیرمغاں کا یہ دارو کام آیا‘ ورنہ جس قسم کی قانونی موشگافیوں نے جنم لیا تھا بہت سے لوگوں کو گمان گزرا کہ یہ کانفرنس دو چار روز ضرور چلے گی اور شاید نتیجہ کچھ نہ نکلے۔ 
بحث برائے بحث میں ہمارے علماء سیاستدانوں‘ قانونی ماہرین اور سوڈو انٹلیکچولز کا کوئی ثانی نہیں۔ کج بحثی میں بھی یہ باکمال ہیں۔ اقبالؒ نے شاید انہی کے بارے میں فرمایا ؎ 
قلندر جز دو حرفِ لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا 
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا! 
اگر آرمی چیف اپنے دیگر وردی پوش ساتھیوں کے ہمراہ محفل میں موجود نہ ہوتے‘ وزیراعظم سانحہ پشاور سے مضطرب قوم اور فوج کے جذبات و احساسات کا ادراک نہ رکھتے اور عمران خان فوجی عدالتوں کی حمایت میں پہل نہ کرتے تو ہمارے قانونی بقراط اور سیاسی سقراط طلاقت لسانی کا خوب مظاہرہ فرماتے مگر ؎
تیرے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا 
کہ نہ آئینہ میں رہی جِلا‘ نہ پری کوں جلوہ گری رہی 
وہ عجب گھڑی تھی‘ میں جس گھڑی لیا درس نسخہ عشق کا 
کہ کتاب عقل کی طاق میں جوں دھری تھی‘ تیونہی دھری رہی 
اعتزاز احسن کے دلائل میں یقینا وزن ہوگا‘ بین الاقوامی سطح کے قانون دان ہیں‘ پرویز مشرف کے دور آمریت میں پوری قوم اور اعلیٰ عدلیہ ان کے دلائل سے متاثر ہو کر سڑکوں پر نکل آئی اور جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرا کے دم لیا‘ مگر کل جماعتی کانفرنس میں وہ مسلم لیگ ن‘ تحریک انصاف اور فوجی قیادت کو تو خیر کیا قائل کر پاتے‘ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور جماعت اسلامی کو بھی اپنے مؤقف پر برقرار نہ رکھ سکے اور ان پارٹیوں کا موڈ دیکھ کر خود بھی فوجی عدالتوں کے حامیوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ شاید سوچا ہو ؎ 
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ 
تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے 
غلام احمد بلور‘ سراج الحق‘ فاروق ستار اور رضا ربانی نے بھی اعتزاز احسن کو سمجھایا ہوگا کہ ؎ 
تمہارے وعظ میں تاثیر تو ہے حضرت واعظ 
اثر لیکن نگاہِ ناز کا بھی کم نہیں ہوتا 
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کس کی نگہ ناز نے بڑے بڑے سیاستدانوں‘ قانونی ماہرین اور حضرت مولانا جیسے فقیہانِ عصر پر اثر کیا اور وہ پل بھر میں منطق و استدلال کی چوکڑی بھول کر بُزا خفش کی طرح حکومتی تجویز پر سر ہلانے لگے ؎ 
کسی کے آنے پہ ساقی کے ایسے ہوش اُڑے 
شراب سیخ پہ ڈالی‘ کباب شیشے میں 
میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کی سنجیدگی‘ ہر صبح اجلاس‘ ہر شام سوچ بچار دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو چند روز پہلے تک یوں بے فکر و بے نیاز نظر آتے تھے جیسے ملک میں آپریشن ضرب عضب نہیں فوڈفیسٹیول چل رہا ہے۔ ہر روز روزِ عید‘ ہر شب شبِ برات۔ حالانکہ سانحہ پشاور سے ملتے جلتے دہشت گردی کے کئی سانحات وقوع پذیر ہو چکے تھے‘ جمود مگر سانحہ پشاور نے توڑا‘ کاش ہم 134 بچوں کے وحشیانہ قتل کا انتظار نہ کرتے اور جو بھاگ دوڑ‘ سوچ بچار اور فکرمندی اب نظر آ رہی ہے یہ آپریشن شروع ہونے پرجون میں دیکھنے کو ملتی‘ حکومت کا بھرم بھی قائم رہتا اور سیاستدانوں کے بارے میں بھی یہ پختہ رائے قائم نہ ہوتی کہ جب تک انہیں چھڑی نہ دکھائی جائے‘ یہ گاجر پر لڑتے مرتے ہیں۔ 
یہ فکرمندی اور سوچ بچار‘ بھاگ دوڑ بھی بے سود نہیں مگر جب تک پولیس اور انتظامیہ کو فعال نہیں کیا جاتا‘ موجودہ حالات کے مطابق اپنی کارگزاری بہتر بنانے کی ترغیب نہیں ملتی‘ معاملہ ڈھاک کے وہی تین پات رہے گا۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک خاتون اپنی بیٹی اور معذور بیٹے کے ساتھ گرفتار ہوئی۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ یہ جیل پر حملے کی تیاری کر رہی تھی۔ میڈیا پر خوب تشہیر ہوئی مگر ایک روز بعد اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ خاتون گھریلو تنازع کا شکار ہوئی اور وہ دہشت گرد ہے نہ دہشت گردوں کی ساتھی اور سہولت کار۔ پولیس نے دہشت گردوں کے ایک بڑے منصوبے کو ناکام بنانے کا جو دعویٰ کیا تھا وہ غلط نکلا اور یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ پنجاب پولیس اب بھی اپنے افسران اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ڈگر پر قائم ہے۔ 
پولیس ہمیشہ سے ایسی نہ تھی۔ یہ اُڑتی چڑیا کے پر گننے اور بڑے بڑے مجرموں کو پاتال سے نکال لانے کی شہرت رکھتی تھی مگر پھر حکمرانوں نے اسے ذاتی فورس بنانے کی ٹھانی اور اب حالت یہ ہے کہ دور دراز تھانے کے اہلکار کا تبادلہ بھی اعلیٰ حکومتی عہدیدار یا اس کے کسی قریبی دوست‘ رشتہ دار کی مرضی اور حکم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ سفارشی بھرتیوں نے پورا ڈھانچہ تباہ کردیا۔ ذوالفقار چیمہ کی اہلیت و صلاحیت اور ایمانداری ضرب المثل ہے۔ وہ شریف برادران کے قریب سمجھے جاتے ہیں اس لیے کراچی میں بطور آئی جی قبول نہ کیے گئے مگر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کے طور پر بھی وہ ناقابل قبول ٹھہرے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ ن کو بھی تابعدار اور کمزور پولیس اہلکار و عہدیدار پسند ہیں جو حکمرانوں کے اشارۂ ابرو پر کورنش بجا لائیں۔ 
اسلام آباد میں بیوروکریسی جس مایوسی‘ بے یقینی اور احساس محرومی کا شکار ہے اس کا اندازہ حالات سے باخبر ہر شخص کو ہے۔ پنجاب کے جونیئر افسر وزیراعظم ہائوس پر قابض سندھ‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سینئر موسٹ افسروں پر حکم چلاتے اور اسی نوعیت کا سلوک کرتے ہیں جو کسی زمانے میں مغربی پاکستان کے عاقبت نااندیش و خودسر بیوروکریٹس بنگالی افسروں سے کیا کرتے تھے۔ لاہوری گروپ سے نالاں وفاقی بیوروکریسی میں ایک بار پھر پنجابی افسروں کے علاوہ حکمرانوں کے خلاف غصہ جنم لے رہا ہے مگر حکمران بسم اللہ کے گنبد میں بند ہیں۔ یہ جنگ قومی اتحاد و یکجہتی اور باہمی اعتماد و یقین کے بغیر لڑی جا سکتی ہے نہ جیتی۔ مگر بیورو کریسی کی سطح پر اس سمت کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ 
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ وزیراعظم نے ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے جو چھ رکنی کمیٹی اپنی سربراہی میں تشکیل دی ہے اس کے پانچ ارکان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ کہنے کو سرتاج عزیز خیبرپختونخواکے شہری ہیں مگر وہ زمانہ طالب علمی سے اب تک لاہور کے رہائشی ہیں اور اس کمیٹی میں سندھ کی کوئی نمائندگی نہیں۔ 
وزیر دفاع ابھی تک خواجہ آصف ہیں جنہیں قومی سلامتی کے امور سے دور رکھا جاتا ہے۔ پشاور اور اسلام آباد کی کسی کانفرنس میں انہیں شریک نہیں کیا گیا مگر عملدرآمد کمیٹی میں وزیراعظم نے انہیں ڈال دیا ہے‘ معلوم نہیں مقصد کیا ہے اور انہیں وزیر دفاع کے منصب پر برقرار رکھنا کیوں ضروری ہے۔ اگر یہ کمیٹی ماضی کی ساری کمی کوتاہی پر قابو پا کر نتیجہ خیز اقدامات کرتی اور فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔ یہ قلق اگرچہ پھر بھی رہے گا کہ کاش یہ سب کچھ سانحہ پشاور سے پہلے ہوتا۔ اقدامات سول حکومت خود کرتی‘ سیاستدان بنیادی نوعیت کے فیصلے اپنی دانش و بصیرت اور صوابدید کے مطابق آزادانہ طور پر کرتے اور انہیں عقل بڑی یا بھینس کا پرانا محاورہ بولتے ہوئے عقل ہمیشہ چھوٹی نظر نہ آتی۔ 
بہرحال اعتزاز احسن کا شکریہ جس نے سات گھنٹے تک قومی کانفرنس کے شرکاء کو مصروف رکھا اور بالآخر ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں دیکھ کر اپنا پائوں ڈال دیا ؎ 
ہم جو کہتے ہیں سراسر ہے غلط 
سب بجا آپ جو فرمایئے گا 
پس تحریر: سابق صدر آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر تقریرمیں فوجی عدالتوں کی افادیت تسلیم کرنے کے بعد جوشکوک و شبہات ظاہر کئے اور پرویز مشرف کی آڑ میں فوج کو دھر رگڑا۔ یہ قومی سطح والے اتفاق رائے کے دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی شروعات ہے یا کچھ اور؟ کیا عرض کیا جائے ؎ 
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں