کہ حرکت تیز تر ہے

یہ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکمرانی (1997-1999ء) کی بات ہے۔ میاں محمد اظہر‘ شریف برادران کے قریبی اور معتمد ساتھی تھے اور میاں شہباز شریف کے بے تکلف دوست‘ایک دن کہنے لگے کہ میں نے میاں شہباز شریف سے پوچھا ''آپ بیورو کریٹس کو صبح سات بجے بلا لیتے ہیں سارا دن میٹنگز چلتی ہیں‘ ہدایات جاری ہوتی ہیں اور جلد سے جلد ان ہدایات پر عملدرآمد کی تنبیہ کی جاتی ہے شام کو پھر فالو اپ میٹنگ شروع ہو جاتی ہے اور بسا اوقات سارے دن کے بھوکے پیاسے بیورو کریٹ رات گئے گھر لوٹتے ہیں وہ کام کس وقت کرتے ہوں گے اور اپنے ماتحتوں کی کارگزاری کا جائزہ لینے کی فرصت انہیں کب ملتی ہو گی کہ ان سے بہتر پرفارمنس کی توقع کی جائے‘‘
میاں اظہر کا یہ بے تکلف انداز بالآخر قدیمی دوستوں سے دوری کا سبب بنا اور وہ چودھری برادران و شیخ رشید احمد کی طرح راندۂ درگاہ ٹھہرے۔مجھے یہ بات گزشتہ روز وزیر اعظم ہائوس میں طویل میٹنگ سے یاد آئی جو سانحہ پشاور کے بعد غالباً چوتھی یا پانچویں طویل میٹنگ تھی‘ آرمی چیف اپنے سینئر جرنیل ساتھیوں کے ہمراہ میٹنگ میں شریک تھے اور وزیر اعظم نے اپنے مشیران خاص کی موجودگی میں بیس نکاتی ایکشن پلان پر جلد ازجلد عملدرآمد کے لیے ہدایات جاری کیں۔سانحہ پشاور16دسمبر کو پیش آیا‘پندرہ دن گزر گئے‘ دو کل جماعتی کانفرنسیں ہو چکیں اور ان کے نتیجے میں بیس نکاتی ایکشن پلان بھی ترتیب دیا جا چکا ہے مگر تاحال یہ صرف پلان ہی پلان ہے ایکشن کہیں نظر نہیں آتا۔
دہشت گرد گروہوں کو مرعوب کرنے اور قوم بالخصوص سانحہ پشاور کے متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے‘ سزائے موت پر عملدرآمد کا غلغلہ بلند ہوا۔فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ بعض قیدی پھانسی پر لٹکائے بھی گئے مگر اس میں سول حکومت کی کوئی خواہش شامل تھی نہ کوشش۔ سول عدالتوں سے سزا یافتہ ایک بھی قیدی اب تک سزا یاب نہیں ہوا اور کل جماعتی کانفرنس میں فوجی عدالتیں تشکیل دینے کی جو یقین دہانی سیاسی قیادت نے کرائی تھی وہ بھی حسب عادت اتفاق رائے کے سراب کی نذر ہو چکی ہے۔ اتفاق رائے ایک ایسا کارآمد ہتھیار ہے جو ہمارے سیاست دان قوم کو بے وقوف بنانے اور قومی اہمیت کے فیصلوں اور منصوبوں کو سرد خانے میں ڈالنے کے لیے مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ فوجی عدالتوں کی تشکیل پر پہلا شک سابق صدر آصف علی زرداری نے کیا جن کا تاریخی فرمان ہے کہ 
وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے جنہیں پورا کیا جائے اور پھر عمران خان کی تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان نے در فنطنی چھوڑی کہ موجودہ نظام انصاف فوری انصاف دے سکتا ہے تو آئین میں ترمیم اور فوجی عدالتوں کی تشکیل کی کیا ضرورت ہے ؎
پسلی پھڑک اٹھی نگہ انتخاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
پروپیگنڈا یہی ہو رہا ہے کہ فوجی قیادت فوجی عدالتوں کی خواہشمند ہے اور وہ موجودہ نظام عدل و انصاف کو ناکام ثابت کرنا چاہتی ہے۔ مگر اس سوال کا جواب فوجی عدالتوں کے مخالف کسی آئینی ماہر‘ قانون دان اور سول سوسائٹی کے پاس نہیں کہ اگر موجودہ قانونی نظام قانون شکنوں کے لیے ڈیڑنس اور قانون پسندوں کے لیے فائدہ مند ہے تو 86فیصد عوام فوجی عدالتوں کے حق میں کیوں ہیں؟ لوگ تھانے کی طرح کچہری کو بھی عوام دشمن ‘ انصاف دشمن اور نسل کش ادارہ کیوں سمجھتے ہیں اور عوامی سطح پر یہ کیوں مشہور ہے کہ تھانے کچہری کا منہ اللہ تعالیٰ دشمن کو بھی نہ دکھائے۔
ان دنوں یہ بات کہنا ذرا مشکل ہے لیکن قبائلی علاقوں اور سوات میں طالبان کا ظہور مقامی سطح کی ان خودساختہ شرعی عدالتوں کے ذریعے ہوا جہاں لین دین اور لڑائی جھگڑے کے معاملات متصادم فریقوں‘ چشم دید گواہان اور اہل محلہ کی موجودگی میں چند دنوں میں نمٹائے جاتے اور لوگ اس نظام انصاف کی تعریف کرتے جس میں کسی کو وکیل کی بھاری فیس دینے کے لیے اپنی آبائی جائیداد ‘ گھر کا زیور یا مال مویشی بیچنے کی ضرورت تھی‘ نہ اگلی دو تین نسلوں تک انتظار کرنے کی حاجت‘قصہ زمین برسر زمین۔عدالتی نظام سے عام آدمی اس قدر الرجک ہے کہ لوگ اپنی جائیداد کا قبضہ چھڑانے یا کسی قضیئے کا تصفیہ کرانے کے لیے عموماً علاقے کے کسی کن ٹُٹے کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو معمولی معاوضہ پر مسئلہ حل کرتا ہے۔ 
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے دنوں میں عوام نے عدلیہ سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں۔اعلیٰ عدلیہ میں تو صورتحال قدرے بہتر ہوئی مگر ماتحت عدلیہ کی حالت ابتر ہے اور یہاں سفارش‘ رشوت اوردبائو‘ سکہ رائج الوقت ہے۔ ماتحت عدلیہ تحفظ سے محروم ہے اور عدلیہ بحالی تحریک میں سرگرم وکلاء برادری نے اسے غریب کی جورو بنا رکھا ہے۔ آئے روز ججوں اور وکیلوں کے تنازعات اس حقیقت کا مظہر ہیں ‘ اور تاثر یہ ہے کہ حکام بالا اپنا وزن وکلاء کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔ وکلاء کے دبائو کا شکار جج ان دہشت گردوں کے دبائو کا مقابلہ کس طرح کریں جنہوں نے ریاست کو چیلنج کر رکھا ہے؟ 
ملک حالت جنگ میں ہے اور حکومت کو اجلاسوں کی ایسی لت پڑی ہے کہ وزیر اعظم سے لے کر اہم وزیروں اور حکومتی عہدیداروں تک کسی نہ کسی اجلاس میں پھنسے ہیں۔اسحٰق ڈار اور احسن اقبال کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ خاصے متحرک ہیں اور دوسروں کو قائل کرنے کی اہلیت سے مالا مال۔ مگر وہ ایوان وزیر اعظم سے نکلتے ہی جہانگیر ترین کے گھر پہنچ جاتے ہیں تاکہ تحریک انصاف سے مذاکرات کی نشست برپا کر سکیں۔اب تک ان لاحاصل مذاکرات کی بائیس نشستیں ہو چکی ہیں اور نتیجہ صفر۔ مخدوم شاہ محمود قریشی مجلسی آدمی ہیں مرنجاں مرنج‘ ٹیبل ٹاک کے ماہر اور گفتگو کے شوقین مگر گزشتہ روز فون پر بات ہوئی تو وہ بھی اس مذاکراتی عمل سے بیزار نظر آئے۔انہیں مذاکرات وقت کا ضیاع اور تحریک انصاف کو مصروف رکھنے کا بہانہ نظر آئے‘ جن کا مقصد فوج اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔
نشستند گفتند برخاستند کی اس حکومتی عادت سے آپریشن ضرب عضب میں جان کی بازی لگانے والے جوانوں اور افسروں کو کیا پیغام مل رہا ہے؟فوجی عدالتوں پر شکوک و شبہات سے فوج کو بطور ادارہ کیا تاثر دیا جا رہا ہے؟اور سیاسی قیادت بالخصوص حکومت کے بارے میں دہشت گرد اور عسکریت پسند کیا سوچنے پر مجبور ہیں؟ بس یہی کہ ان تلوں میں تیل نہیں اور سیاسی حکمران معاملات بگاڑنے میں تو یدطولیٰ رکھتے ہیں برق رفتاری سے محکم فیصلے کرنا اور ان پر فوری عملدرآمد ان کے بس کی بات ہے نہ اس کے خوگر ہیں۔
دو عشروں سے ہر سال دسمبر‘جنوری کے مہینوں میں دھند کا راج ہوتا ہے مگر جس ملک میں آج تک دھند کے دوران فضائی سروس جاری رکھنے کی کوئی تدبیر سوچی گئی نہ فضائی مسافروں کی تکالیف کا ازالہ کرنے کی شعوری سعی ہوئی؛ حتیٰ کہ لاہور کے مسافر دمام ایئر پورٹ پر اتار دیے جائیں تو حکومت کو پروا تک نہیں‘ وہاں ضرب عضب جیسے مشکل کام سے نمٹنے کی توقع حکومت سے کرنا‘ ہے تو زیادتی مگر کیا کریں‘ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں۔
ہم نے ناروے میں جہاں گاڑیاں دن کو بھی ہیڈ لائٹس جلا کر چلتی ہیں طیاروں کو صبح شام اطمینان سے رن وے پر اترتے دیکھا حالانکہ ناروے میں 1960ء کے عشرے تک گھروں میں اٹیچد باتھ کا تصور نہ تھا اور نارویجن عوام اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کا سہرا پاکستانی ہنر مندوں اور کارکنوں کے سرباندھتے ہیں ۔
ہماری حکمران اشرافیہ کے طفیل پاکستان ترقی معکوس کی طرف گامزن ہے اور یہاں طول طویل اجلاسوں‘ بلند بانگ دعوئوں اور بے ربط دبے مغز باتوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جو کرنے لگتے ہیں ان سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ ہر نوع‘ نسل‘ زبان اور مذہب کے دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے خلاف کارروائی شروع نہ کر دیں ۔آرمی پبلک سکول کے 134بچوں کے قاتلوں کے ساتھ ساتھ تھر کے دو سو بچوں کے قاتل بھی سزایاب نہ ہونے لگیں۔ لہٰذا فوجی عدالتوں کی روک تھام ضروری ہے اور اس قانونی نظام پر گزارہ کیا جائے جس میں معمولی نوعیت کا مقدمہ بآسانی پچیس تیس سال تک لٹکایا جا سکتا ہے اور بالآخر گواہ منحرف ہو جاتے ہیں‘جج مرعوب یا قتل اور عادی مجرم باعزت بری۔ 
یہ نظام انصاف ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو مرغوب ہے کیونکہ اس کے صدقے سوئس بنک آباد ہیں۔ برطانیہ‘سپین‘ استنبول اور دبئی کی معیشت مضبوط‘ چند شاہی خاندانوں کی پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں۔ میاں اظہر کی طرح کون حکمرانوں سے کہے کہ صبح سے شام اور رات گئے تک اجلاس‘ شیطان کی آنت کی طرح طویل بحث و تمحیص اور ہوائی پلان سر آنکھوں پر مگر کچھ ایکشن بھی ہونا چاہئے۔ایکشن کے لیے وقت بھی ملنا چاہیے محض اٹھک بیٹھک نہیں کوئی مفید‘ نتیجہ خیز حرکت اور فعالیت بھی نظر آئے ؎
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں