آرمی پبلک سکول پشاور میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بچوں کے ساتھ '' لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ پڑھتے دیکھ کر میری عمر کے لوگوں کو اپنا بچپن یاد آگیا۔ میں نے اپنے سکول فیلو ماسٹر منظور احمد آصف کو فون کیا اور پوچھا ''کیا ہمارا سکول بھی کھل گیا یا ابھی بند ہے؟‘‘'' سکول کھلا ہے اور میں کلاس میں ہوں‘‘ منظور آصف نے بتایا۔
کئی قصبوں ، دیہات اور یونین کونسلوں پر مشتمل وسیع و عریض علاقے کا واحد مڈل سکول شکارپور (ضلع راجن پور)میں واقع تھا جس میں بچوں کو داخل کرانے کے شوق میں ہمارے والد صاحب نے آبائی گائوں قاسم پور سے ہجرت کی اور ملکیتی گھر چھوڑ کر کرائے کے مکان میں رہنا پسند کیا، کیونکہ قاسم پور میں اس وقت سکول تھا نہ بچوں کو سکول بھیجنے کا رواج۔ یہ الگ قصہ ہے کہ قاسم پور کے لوگوں نے ہمارے والد کو نقل مکانی سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور کئی روز تک منت سماجت کرتے رہے۔
یہ مڈل سکول کیا تھا؟ چار بوسیدہ کمروں پر مشتمل ایک بوسیدہ عمارت جہاں دن کو کلاسیں ہوتیں اور رات کو غیر مقامی اساتذہ کرام شب بسری کرتے۔ واحد لوکل ٹیچر قاضی کریم بخش مرحوم تھے ، باقی اساتذہ مسافر تھے اور ان دنوں سکول ہی ٹیچر کی شبانہ روز سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد پڑھائی اس وقت تک چلتی جب تک ٹیچرز کا دل کرتا۔ اوقات کار کی پابندی کا رواج تو تھا مگر چھٹی کی جلدی اساتذہ کو ہوتی نہ شاگردوں کو اور نہ والدین کو ۔
سکول کی پرانی عمارت کو صاف ستھرا رکھنے پر تو ہمیشہ توجہ دی گئی، مگر تزئین و آرائش کی گنجائش تھی نہ وسائل۔ بھوسے اور گارے سے بنی اس عمارت کی اندرونی دیواروں پر چونا کیا گیا تھا اور صحن میں بوہڑ کے ایک قدیمی درخت کی شاخوں اور پتوں نے کم و بیش سارے صحن کو ڈھانک رکھا تھا۔ صبح سویرے کبھی باسی روٹی اور رات کے بچے سالن اور گاہے چائے کے ساتھ رس کیک کا ناشتہ کرنے کے بعد سکول پہنچتے تو گرمیوں میں ٹھیک سات اور سردیوں میں آٹھ بجے گھنٹی بجتی اور تمام بچے صحن میں اسمبلی کے لیے قطار بنا لیتے۔
تلاوت قرآن مجید کے بعد مولانا ظفر علی خان کی نعت پڑھی جاتی ؎
وہ شمع اجالا، جس نے کیا چالیس برس تک غاروںمیں
اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے بازاروں میں
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی‘ ابوبکرؓ ‘عمرؓ ‘عثمانؓ ‘علیؓ
ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبیﷺ، کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
باری باری روزانہ ایک طالب علم نعت پڑھتا اور سارے اساتذہ و طلبہ اسے دہراتے۔ اساتذہ اور طلبہ میں شیعہ ،سنی، بریلوی، دیو بندی کی تفریق تھی نہ کسی کو نعت کے آخری شعر پر اعتراض کیونکہ اس وقت تک فرقہ واریت نے مسجد اور امام بارگاہ سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ شکار پور کی جامع مسجد میں ،''تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ‘‘کا منظر دیکھنے کو ملتا تھا۔ فاروق احمد و عابد حسین میں کوئی تفریق نہ تھی۔
نعت رسول مقبول کے بعد ایک نظم پڑھی جاتی ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے
کچھ عرصہ بعد اس نظم کی جگہ بچے کی دعا(علامہ اقبالؒ) پڑھنے کا رواج پڑا ؎
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو، خدایا میری
جب آخری شعر پڑھا جاتا ؎
مرے اللہ ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو، اس رہ پہ چلانا مجھ کو
تو سب حاضرین زور سے ''آمین ‘‘کہتے۔ قومی ترانہ آخر میں ہوتا جس کے بعد اسمبلی برخاست ہو جاتی۔
نعت و نظم کے بعد حاضری لگتی اور طالب علم باری باری نظم یا نثر میں اظہار خیال کرتے جس طالب علم نے اچھا رٹا لگایا ہوتا اسے داد بھی ملتی اور تختہ سیاہ پر اس کا نام بھی لکھا جاتا۔ گزشتہ روز کے غیر حاضر طالب علم کی گوشمالی کی جاتی ۔
سکول کا چار کمروں پر مشتمل نیا بلاک بنا تو ہیڈ ماسٹر عبدالحکیم خادم صاحب نے اس کی صاف ستھری اور چونا گچ سفید دیواروں پر اپنی خوش خطی کے جوہر دکھائے۔ ذوق ان کا عمدہ تھا اور خط جاذب نظر۔ انہوں نے نیلی روشنائی سے دیواروں پر کہیں اشعار اور کہیں اقوال زریں لکھے اور کہیں کہیں نقش و نگار بھی بنائے۔ ' تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے‘‘ اتنا بڑا اور خوش خط لکھا کہ عشروں بعد بھی نظروں میں سمایا ہوا ہے۔ اس مصرع کی سمجھ کہیں بہت بعد میں آئی۔ان دنوں جاگیرداروں، وڈیروں اور پیروں ،میروں کے زیراثر علاقے اور ماحول میں بندہ وآقا کے مابین تمیز کی بات عجیب اور ناقابل فہم لگتی۔ کمروں اور برآمدوں کی دیواروں پر اقبالؒ، غالب، خواجہ فرید اور دیگر شعراء کے اشعار درج تھے انہی دیواروں پر لکھی اقبالؒ کی ایک رباعی آج تک یاد ہے ؎
عطا اسلام کا جذب دروں کر
شریک زمرۂ لایحزنوں کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا! مجھے صاحب جنوں کر
اگر کوئی شعیب آئے میسر شبانی سے کلیمی دو قدم ہے کا مفہوم اپنے والد صاحب سے سمجھا۔ ان دنوں اساتذہ کرام سے شاگردوں کی بے تکلفی ہوتی نہ نصاب سے باہر کوئی بات پوچھنے کی ہمت۔ کیا پتہ استاد کا پارہ چڑھ جائے اور وہ ''مولا بخش‘‘ ہاتھ میں لے کر سبق سکھانے لگے۔ آج کے شہری بچوں کو ''مولا بخش‘‘ نامی ڈنڈے سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے کیونکہ مار نہیں پیار کا زمانہ ہے۔ ہمارے زمانے میں سکول داخلے کے ساتھ ہی والدین ٹیچر سے استدعا کرتے ماسٹر جی آج کے بعد بچے کی کھال آپ کی اور ہڈیاں ہماری، اسے تعلیم اور تربیت درکار ہے پیار سے ملے یا مار سے آپ کی مرضی۔
امتحانات شروع ہونے سے دو اڑہائی ماہ قبل اساتذہ کرام بچوں کو شام کے وقت بلا کر تیاری کراتے۔ ان دنوں ٹیوشن کا لفظ کبھی سنا نہ پڑھا۔ برسوں بعد غالباً ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں ٹیوشن پر پابندی کا غلغلہ بلند ہوا تو پتہ چلا کہ شہروں میں استاد اپنے طالب علموں کو شام کے وقت پڑھانے کی فیس لیتے ہیں۔ تعجب ہوا اوراقبالؒ یاد آئے ؎
تھا وہ بھی زمانہ کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجیے
ان دنوں مسجد کی طرح سکول بھی دارالامن تھا جہاں کوئی بھی دلآزار بات کہنی روا تھی نہ سننے کا رواج تھا۔ استاد کے سامنے شاگرد تو کجا اہل علاقہ بھی سراپا ادب و احترام بن جاتے۔ تمباکو نوشی درکنار کوئی قہقہہ لگا کر ہنستا تو لوگ تعجب سے دیکھتے کہ ماسٹر جی کے سامنے یہ بے تکلفی۔ سکول میں مسلک اور زبان کی بات کرنے کی کسی کو اجازت تھی نہ استاد یا والدین حوصلہ افزائی کرتے۔ سکول کی لائبریری میں کتابیں کم تھیں مگر جتنی تھیں قابل مطالعہ۔ تاریخ، جغرافیہ، ادب، شاعری، ناول، افسانے اور اسلامیات کے حوالے سے آسان اور زود فہم۔ اکثر کتابیں سکول کی لائبریری میں پڑھنے کا موقع ملا جبکہ ماسٹر ریاض اظہر صاحب ہمیں زبردستی اخبار پڑھاتے اور اتوار کے روز ایک گھنٹہ بلا کر پورے ہفتے کی خبروں کا خلاصہ بیان کرنے کو کہتے۔ صحافت کا شوق ریاض اظہر صاحب کی دین ہے اور سیاست کا چسکا تاج محمد صاحب نے لگایا ۔
ہمارے سکول کے اردگرد چار دیواری تھی نہ کوئی چوکیدار۔ سکول کی میز کرسیوں کی فکر تو سب کرتے مگر کسی ٹیچر یا سٹوڈنٹ کو گزند پہنچنے کا اندیشہ؟ ناممکن ۔خاندانی دشمنیاں بھی تھیں اور باہمی رنجشیں بھی مگر ان کی وجہ سے کوئی اپنے بچوں کو غیر محفوظ ہرگز نہ سمجھتا۔ مجھے یاد ہے کہ بعض بڑوں کی بول چال آپس میں بند ہوتی مگر ان کے بچے ایک دوسرے کے گھر میں یوں گھومتے پھرتے ‘کھیلتے کودتے کھاتے پیتے ‘جیسے آپس میں گہرا رشتہ ہے اور بڑے باہم شیر و شکر ہیں۔
آرمی پبلک سکول کے خوبصورت وردی میں ملبوس بچوں کو لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری پڑھتے دیکھ کر لگا کہ میرا بچپن لوٹ آیا ہے۔ ہمیں ملیشیا کا کھردرا یونیفارم پہننا پڑتا اور وقتاً فوقتاً ''مولا بخش‘‘ سے تواضع بھی ہوتی جو اساتذہ کرام کسی غلطی کوتاہی کے عوض کم، اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے زیادہ استعمال کرتے مگر سکول اور پڑھائی سے جی کبھی نہ اُکتایا۔ماں باپ کی دعائوں ‘ضروری سہولتوں سے محروم اس سکول ، سخت گیرو صاف دل اساتذہ ، مولا بخش اور ملیشیا کے یونیفارم کے طفیل حالات بدلے ، قسمت مہربان ہوئی اور زندگی قدرے سنور گئی ورنہ ہم کیا، ہماری اوقات کیا ؟ ع
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
آرمی چیف نے آرمی پبلک سکول پہنچ کر بچوں اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی ۔کاش ہمارے وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور دیگر سرکاری عہدیدار بھی یہ تکلف گوارا کرتے۔ اپنے اپنے سکول میں جا کر بچوں اور ان کے والدین کا حوصلہ بڑھاتے مگر ان بے چاروں کو اپنی حفاظت کی پڑی ہے یہ کسی دوسرے کو احساس تحفظ کیسے دلائیں۔