ایں گُلِ دیگر شگفت

صبح صبح گھر سے نکلنے لگا تو ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی میں پٹرول کم ہے‘ ڈلوانا پڑے گا، میں نے کہا نوپرابلم ، راستے میں پٹرول پمپ سے پٹرول ڈلوا لو، اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے؟ جس پٹرول پمپ سے ہمیشہ پٹرول ڈلواتے ہیں وہاں پٹرول نہ ملا تو دوسرے پر چلے گئے‘ وہاں بھی '' پٹرول پمپ بند ہے ‘‘کا بورڈ آویزاں تھا اور اس سے اگلے پربھی۔
میں نے ڈرائیور سے کہا‘ دفتر چلو شام تک سپلائی بحال ہوجائے گی آرام سے ٹینکی فل کرالیں گے مگر شام کو صورتحال پہلے سے ابتر نظر آئی۔ ہر پٹرول پمپ یوں سنسان پڑا تھا جیسے کراچی میں احتجاج کا اعلان ہونے کے بعد ہر پٹرول پمپ پہ الو بولتے ہیں۔ مباداکوئی مشتعل ہجوم اسے آگ لگا کر بھسم کردے۔ ایک پٹرول پمپ والے سے بندش کی وجہ پوچھی تو کوئی معقول جواب نہ ملا۔ ڈرائیور کا اصرار تھا کہ تیل کی قیمتیں کم ہونے والی ہیں لہٰذا پٹرول پمپ والوں نے فروخت بند کردی ہے مگر تین دن بعد عقدہ کھلا کہ پی ایس او اور تیل کمپنیوں نے عالمی مارکیٹ میں نرخوں کی کمی سے گھبرا کر تیل منگوایا نہ ذخیرہ کیا اور حکومت نے کسی سے پوچھا نہ کوئی دبائو ڈالا اور یوں عوام خوار ہوگئے۔
عین حالت جنگ میں یہ ہے ہماری گورننس اور سرکاری و کاروبار ی اداروں پر حکومت کی گرفت، کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ پنجاب کے عوام کو تین دن تک مناسب مقدار میں پٹرول سپلائی نہ کرنے والے اداروں کے خلاف وفاقی حکومت نے کیا کارروائی کی؟ پٹرول کی قلت کا پتہ چلتے ہی سپلائی بحال کرنے کے لیے کیا اقدامات ہوئے؟ اور جن سرکاری عہدیداروں کی غفلت یا ملی بھگت سے ایل سی بروقت نہ کھلی، آئل کمپنیوں نے مناسب ذخیرہ نہ کیا ، ان کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی ؟
عوام کے لیے تکلیف دہ اور ملکی سلامتی کے لیے خطرناک نااہلی کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حکومت اور اس کے ادارے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں۔ بیس نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری ہے ، خطے میں قیام امن کی ذمہ داری بھی ہم نے سنبھال لی ہے اور صرف اپنی قوم نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کو یقین دلایا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہمارا عزم اور حوصلہ بلند ہے اور تیاری مکمل۔ مگر ہماری کارگزاری کا یہ عالم ہے کہ تین دن سے پنجاب کے عوام پٹرولیم مصنوعات کے حصول کے لیے ایک پٹرول پمپ سے دوسرے پٹرول پمپ پر دھکے کھارہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پٹرول پمپ والے اپنی جگہ سچے ہیں سپلائی بحال ہو تو وہ کسی موٹرسائیکل ، کار یا ویگن کی خالی ٹینکی پُر کریں۔
بجلی اور گیس کی قلت کا رونا رونے والے عوام کو اگر پٹرولیم مصنوعات دستیاب نہ ہوں، وہ آسانی سے اپنے دفاتر اور کاروباری مراکز نہ جاسکیں‘ نہ ان کے بچے ، سکول اور مریض ہسپتال۔ ایدھی ایمبولینسز‘ ریسکیو1122کی گاڑیاں بھی چلنے سے معذور ہوں اور پولیس کی پٹرولنگ دشوار تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کوئی حکومت کے ان دعوئوں پر کیسے یقین اور اعتماد کرے گا جو دہشت گردی کی روک تھام اور ریاستی اداروں کی اوور ہالنگ کے حوالے سے کیے جارہے ہیں کیونکہ آئل کی ایل سی بروقت کھولنے،مارکیٹنگ کمپنیوں کو مناسب ذخیرہ رکھنے کی ہدایت کرنے پر حکومت کو غیر معمولی وسائل درکار ہیں نہ کسی بڑی فورس کی ضرورت ہے۔
صرف ڈیزل پٹرول پر کیا موقوف دیگر اشیائے صرف کی مارکیٹ میں مناسب قیمتوں پر دستیابی کا معاملہ بھی دگرگوں ہے۔ سبزیاں ، دالیں ، چینی، موسمی پھل باہر سے درآمد ہوتے ہیں نہ ملک میں پیداوار کی کمی ہے۔ اس کے باوجود تاجر اور دکاندار جب چاہیں نرخ بڑھا دیتے ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔ ایوب خان ایک فوجی آمر تھا اور آمروں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ انہیں عوام کی فکر ہوتی ہے نہ معاشرہ ان کی گرفت میں ہوتا ہے مگر جب 1965ء کی جنگ میں آٹے کی قلت و گرانی ہوئی تو مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کے ایک اخباری بیان کے بعد نہ صرف مارکیٹیں اشیائے صرف سے بھر گئیں بلکہ سابق قیمتیں بھی بحال ہوگئیں۔ وجہ یہ تھی کہ حکمران اپنے فرائض سے واقف تھے اور تاجر حکومتی احکامات کی سرتابی کے نتائج سے بخوبی آشنا۔ تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں کو اندازہ تھا کہ سخت گیر حکمران کے بیان کا مطلب کیا ہے ؟اور وہ اپنے احکامات کی تعمیل کرانے کا کس قدر اہل ہے۔
حکمرانی آخر ہے کیا؟ کسی ریاست کے شہری اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہوکر ریاست کو اختیارات کیوں سونپتے ہیں؟ محض اس بنا پر کہ ریاست انہیں امن اور تحفظ فراہم کرے‘ وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے اور ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں ، گراں فروشوں اور طاقتور گروہوں کے استحصال سے بچائے۔ لیکن اگر ریاست خود ہی ناجائز منافع خوری اور استحصال پر تل جائے‘ لوگوں کو جان ومال ، عزت و آبرو اور جائیداد کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرنے سے قاصر ہو اور نااہلی و نالائقی کا شاہکار تو عوام کی مایوسی ، بے یقینی ، ہیجان اور اشتعال کا کیا عالم ہوگا۔
سانحہ پشاور کو ایک مہینہ گزرا۔ بیس نکاتی ایکشن پلان منظور ہوا اور اس کی روشنی میں آئین میں اکیسویں ترمیم بھی ہوگئی مگر اب تک بحث مباحثے کا موضوع ملٹری کورٹس ہیں یا پھر دینی مدارس۔ پولیس کی تربیت اور کارگزاری بہتر بنانے ، انتظامیہ میں ردوبدل اور شہریوں کی آگہی و شعور میں اضافے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی نظر آتی ہے نہ حکمرانوں اور ریاستی اہلکاروں کے شب و روز میں تبدیلی کا احساس ہوتا ہے ؎
وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
قوم کی امنگوں اور جذبات کا مظہر اور حکومت کی نگرانی کا ذمہ دار ادارہ پارلیمنٹ ہے جو 16دسمبر سے 15جنوری تک صرف دو دن ایوان سے باہر طے پانے والے معاملات اور تیار ہونے والی ترامیم پر انگوٹھا لگانے کے لیے مستعد اور چاق و چوبند نظر آیا۔ ان ترامیم پر سنجیدہ بحث ہوئی‘ نہ کسی نے مضمرات پر غور کیا اور چند منٹوں میں آئین کی ہیئت تبدیل ہوگئی۔ کسی کو اس ترمیم پر اعتراض ہے‘ نہ ملٹری کورٹس کے قیام پر تحفظات مگر طریقہ کار بہرحال مضحکہ خیز تھا۔ اکیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس جاری ہیں مگر سیشن سے وزیراعظم کو دلچسپی ہے نہ ان کے وزیروں ، مشیروں اور ارکان قومی اسمبلی کو ۔ روزانہ کورم پورا نہیں ہوتا‘ محض خانہ پری اور ارکان اسمبلی کے ڈیلی الائونس،بھتہ میں اضافہ کے لیے اجلاس چل رہا ہے۔ شنید یہ ہے کہ دن پورے کرنے کے لیے اجلاس جاری رکھنا مجبوری ہے۔ لوگ دعا کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے دن جلد پورے ہوں اور قومی خزانے پر مزید بوجھ نہ پڑے۔ اس جملے سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ سال میں مقررہ دنوں تک اجلاس جاری رکھنا آئینی اور قانونی مجبوری ہے۔ جس کا اہتمام دلچسپی سے عاری سیشن کے ذریعے کیا جارہا ہے‘ حالانکہ حکومت چاہے تو اس اجلاس کو مفید اور کار آمد بناسکتی ہے مگر اس کی بلا سے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی نے ڈھنگ کا ایک کام کیا ہے۔ گستاخانہ اور دلآزارخاکوں کی اشاعت کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس کا مقصد یورپی عوام اور میڈیا کو مسلمانوں اور اہالیان پاکستان کے دلی جذبات سے آگاہ کرنا ہے مگر کاش کہ یہ قرارداد منظور کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ اور حکومت اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) پر دبائو ڈالتی کہ وہ اپنا سربراہ اجلاس بلاکر مغرب کو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات اور آزادی اظہار میں احترام انسانیت ، شائستگی اور اخلاقیات کے تقاضے ملحوظ رکھنے کی ضرورت سے آگاہ کر ے کیونکہ پانی اب سر سے گزرنے لگا ہے اور شریر عناصر تہذیبوں کے تصادم کی راہ ہموار کرنے میں پیش پیش ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف سعودی عرب میں ہیں۔ وہ چاہیں تو شاہ عبداللہ اور ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کرکے کوئی حکمت عملی وضع کرسکتے ہیں۔ اگر شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق میں سے کوئی زندہ اور حکمران ہوتا تو اب تک اسلامی ممالک کے سربراہان ایک جگہ بیٹھ کر عالم اسلام کے جذبات کی ترجمانی کرچکے ہوتے مگر اب تو ہماری قسمت میں حکمران بھی ایسے ہیں جو اپنے ملک میں تیل کی سپلائی برقرار رکھنے کے روادار ہیں اور نہ شاید اہل ۔ تبھی ایدھی اور ریسکیو1122کی ایمبولینسیں زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے سے قاصر ہیں اور خدا نہ کرے کہ کل کلاں کو فائر بریگیڈ اور پولیس کسی جائے حادثہ پر محض اس لیے نہ پہنچ پائے کہ گاڑیوں میں پٹرول نہیں۔ یہ پانی سے تو چلتی نہیں۔رہے عوام تو ان کی قسمت میں خواری لکھی ہے ایک یہ بھی سہی ۔کوئی جائے تو جائے کہاں...؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں