نااہلی یا ناکامی ؟

معلوم نہیں پاکستانی عوام کی قسمت خراب ہے یا 2008ء میں بحال ہونے والی جمہوریت سبزقدم کہ تب سے اب تک سکھ کا سانس لینا مشکل ہوگیا ہے ۔دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری اور ناانصافی کو قوم نے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا مگر اب بجلی بند، گیس غائب اور پٹرول نایاب۔ گھر میں سکون نہ باہر نکلنا آسان۔ حکمران الّا ماشاء اللہ ایسے کہ وزیراعظم کو چھ روز بعد پٹرول بحران کا پتہ چلا اور سیکرٹری پٹرولیم‘ ایم ڈی پی ایس او‘ ڈی جی آئل کو معطل کر کے وہ مطمئن ہو گئے۔ ہے نہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ماہرانہ چال۔ 
بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب سابق عوامی حکومت کے دور میں بیک وقت نازل ہوا تو یہ عذر لنگ پیش کیا گیا کہ جرنیلی حکومت نے بجلی اور گیس کی پیداوار نہیں بڑھائی، موجودہ حکومت نے بھی اس بہانے کا سہارا لیا۔ کسی نے یہ سوال کیا نہ حکمرانوں نے سوچا کہ شوکت عزیز اور پرویز مشرف جاتے جاتے کیا بجلی گھر اور گیس کے کنویں اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ان کی حکومت کو رخصت ہوئے چھ برس بیت گئے۔ کیا اقتدار چھوڑتے وقت ان کی وصیت تھی کہ خبردار بجلی اور گیس کی پیداوار بڑھائی تو ہماری تمہاری کُٹی، اور موجودہ و سابق حکمران اس وصیت کا احترام کررہے ہیں‘ لوڈشیڈنگ سے کام چلارہے ہیں۔
جمہوریت کی محبت اور منتخب حکمرانوں کے عشق میں یہ مان بھی لیا جائے کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نگوڑے فوجی حکمران اور اس کے کٹھ پتلی وزیراعظم شوکت عزیز کی بدترین سیاسی و معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے تو پٹرول کی نایابی کس کے ہنر کا شاہکار ہے ؟اور کن غیر جمہوری قوتوں کی سازش؟ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ ایک ہفتہ سے پنجاب کے شہری پٹرول پمپوں پر خوار ہورہے ہیں۔ اتنی لمبی قطاریں انتخابات کے روز پولنگ سٹیشنوں پر کم نظر آتی ہیں جتنی ان دنوں پٹرول پمپوں کے اردگرد کار اور موٹرسائیکلوں کے علاوہ ہاتھوں میں خالی کین پکڑے شہریوں کی دکھائی دیتی ہیں۔ دھینگا مشتی‘ چھینا جھپٹی اور گالم گلوچ اس پر مستزاد۔ لڑائی صرف خریداروں اور پٹرول پمپ مالکان و ملازمین کے مابین نہیں ہوتی‘ طویل انتظار سے تنگ آکر خریدار آپس میں بھی لڑ پڑتے ہیں۔ 
پٹرول کی قلت اس وقت شروع ہوئی جب دنیا بھر میں تیل کی قیمت گرتے گرتے 45ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگئی ہے اور روس، ایران اور داعش کو نیچا دکھانے کے لیے مغربی اور ہمارے ہمسایہ عرب ممالک نے تیل کی لوٹ سیل لگادی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل مہنگا تھا تو قلت کا جواز یہ پیش کیا جاسکتا تھا کہ حکومت کے پاس رقم نہیں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ناگہانی طور پر قیمتیں گرنے کے خوف سے تیل درآمد نہیں کررہیں مگر اب ایسی بات بھی نہیں۔ غفلت‘ نااہلی اور کرپشن کے سوا اس بحران کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی مگر ذمہ داروں کا تعین اور سزا کا اہتمام کرنے کے بجائے معطلی سے کام چلایا جا رہا ہے جو اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کا دیرینہ حکومتی وتیرہ ہے۔ حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں سے بھی کسی کو ہوش ہے نہ جرأت کہ وہ عوامی جذبات کی ترجمانی کر سکیں۔ سب یوں چپ ہیں جیسے عوام کی ذلت و رسوائی اور تکلیف کا انہیں علم ہے نہ کوئی سروکار۔
اس طرح کی نااہلی کا مظاہرہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ہوا ہوتا تو مینار پاکستان پر کیمپ لگ جاتا، آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے گونجتے اور میڈیا پر صبح سے شام تک ذمہ داروں کی نالائقی، کرپشن، کمشن خوری اور ملی بھگت کے قصے خوب نمک مرچ لگا کر بیان کیے جاتے۔ لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں جلوس بھی لازماً نکلتے مگر یہ مسلم لیگ کی حکومت ہے جس کے مخالفین میں سے پیپلزپارٹی ابھی 2013ء کے الیکشن میں تاریخی ناکامی کے صدمے سے باہر نہیں نکل پائی، تحریک انصاف کی قیادت حلقہ 122کے بارے میں ٹربیونل کے فیصلے کی منتظر ہے اور وزیراعظم کی طرح اُسے بھی پٹرول بحران کا علم چھ روز بعد ہوا۔ رہے عمران خان کے پیروکار وہ بے چارے اپنے لیڈر کی شادی خانہ آبادی کے حوالے سے معترضین کامنہ بند کرنے کی تدبیر یں سوچ رہے ہیں۔ 
سپریم کورٹ نے البتہ پٹرولیم مصنوعات کی قلت اور ملٹری کورٹس کی تشکیل کے ضمن میں حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا ذکر برسرعام کیا ہے۔ ترقی یافتہ اور اپنی نیک نامی کے حوالے سے حساس ریاستوں میں تو کوئی معقول شخص یہ سوچ نہیں سکتا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت منتخب حکومت کو ناکام اور نااہل قرار دے اور بجلی، گیس ، پٹرول جیسی اشیا نایاب ہوں پھر بھی وہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہ سکے مگر یہ پاکستان ہے جہاں 134بچوں کی شہادت پر کوئی ذمہ داری قبول کرکے مستعفی ہوتا ہے نہ تھر میں بھوک، پیاس اور امراض کے باعث تین سو بچوں کے جاں بحق ہونے پر شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ 
ناکام ریاستوں کے بارے میں سنا تھا کہ وہاں قومی وسائل اور انصاف تک ہر غریب امیر کی رسائی مساوی نہیں ہوتی۔ چھوٹی سے چھوٹی عدالت سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک انصاف کی فراہمی کے الگ پیمانے ہوتے ہیں۔ کسی بینک سے قرضہ لینا ہو یا بجلی، گیس اور فون کا کنکشن، امیر اور طاقتور کو ان مراحل سے نہیں گزرنا پڑتا جن کا عام شہری مکلف ہے۔ تھانے میں غریب آدمی کو عزت نہیں ملتی، گھر میں ہر شہری کو تحفظ کااحساس نہیں ہوتا۔ حکومت کی رٹ سول اداروں کے ذریعے ملک کے ہر شہر ، قصبے ، دیہات اور علاقے پر نہیں ہوتی اور اسے کوئی طاقتور گروہ ، حکومت کا مخالف ، اتحادی یا چہیتا جب چاہے پامال کرسکتا ہے۔ قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوتا اور قانون کی نظر میں سب برابر نہیں ہوتے۔
ناکام ریاستیں وارلارڈز اور مافیا کے قبضے میں ہوتی ہیں یہ مافیاز اور وارلارڈز نہ تو عدالتوں کو کام کرنے دیتے ہیں نہ میڈیا کو آزادی سے اپنے فرائض انجام دینے کی سہولت حاصل ہوتی ہے اور نہ بھتہ دیے بغیر کوئی کام ہوسکتا ہے۔ادارے اول تو موجود ہی نہیں ہوتے اگر ہوں تو ان میں ہر کام وارلارڈز اور ان کے متعین کردہ افراد کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ کوئی قاعدہ ، کوئی قانون، کوئی ضابطہ ان طاقتوروں کا ہاتھ روکنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ہر گروہ اور ادارہ آزاد بلکہ مادر پدر آزاد ہوتا ہے اور یہ اپنی مادر پدر آزادی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتا۔
ناکام ریاستوں میں اشیائے خورونوش اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں کو قوانین ، ضابطوں اور مارکیٹ اکانومی کے طے شدہ اصولوں کے برعکس ذخیرہ اندوزوں ، ناجائز منافع خوروں ، گراں فروشوں اور سمگلروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کی جو مرضی نرخ مقرر کرے اور چاہے تو غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لیے گوشت، دودھ ، مکھن، پھل،پٹرول کا حصول ناممکن بنادے۔ یہ چیزیں صرف لامحدود آمدنی والے ایک مخصوص و محدود طبقے کی دسترس میں ہوتی ہیں۔ ان ریاستوں میں امیر بسیار خوری سے اور غریب فاقہ کشی سے مرتے ہیں۔ امیراور غریب کی بیماریاں تک الگ الگ ہوتی ہیں۔اچھی تعلیم اور معیاری طبی سہولتوں پر امرا کا حق ہوتا ہے اور اس حق کے حصول کے لیے فاقہ کشوں کے بچوں کو غیر قانونی ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ ناکام ریاست اپنی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کا احترام بھی ہرشخص، ادارے اور گروہ سے اس کی ضرورت، مصلحت اور وقتی تقاضوں کے مطابق کراتی ہے اور اگر کوئی کرنے سے انکار کردے تو برا نہیں مناتی۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے بیس دن کا ذخیرہ نہیں ر کھا تو کسی نے پوچھا نہیں اور پی ایس او اگر دو سو ارب کے گردشی قرضے تلے تب گئی تو کسی نے سوچا نہیں۔ہر ایک کے وارے نیارے ہیں اور ریاست کے علاوہ عوام پریشان و شرمندہ۔ افواہ یہ ہے کہ موجودہ بحران پی ایس او کی نج کاری کا بہانہ ہے۔
پٹرول بحران سے نمٹنے کی ایک تدبیر خادم اعلیٰ پنجاب کو سوجھی۔ حکم ہوا کہ لاہور میں سی این جی سٹیشنز کھول دیئے جائیں‘ بندہ پوچھے جناب! آپ وزیراعلیٰ پنجاب ہیں یا واقعی تختِ لاہور کے تاجدار۔ دیگر علاقوں کے عوام نے کیا قصور کیا ہے کہ انہیں سی این جی سے محروم رکھا جائے۔ یہ زندہ دلانِ لاہور پر مہربانی ہے یا ہدف طعن و تشنیع بنانے کا اہتمام؟ خادم اعلیٰ کو شاید یہ کسی نے نہیں بتایا کہ سی این جی سٹیشن ایک دن کے لیے کھلیں یا ایک ماہ کے لیے‘ انہیں ستر اسی ہزار روپے کے ایم ڈی آئی چارجز پڑ جائیں گے اسی بنا پر ڈیلرز تردد کا شکار ہیں۔ 
پاکستان مگر نیوکلیئر ریاست ہے اور یہاں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے۔ اے پی سی میں طے پانے والے معاملات پر انگوٹھا لگانے والی پارلیمنٹ ہے اور طاقتوروں کے سامنے عجزو نیاز کا پیکر پولیس و انتظامیہ بھی جو غریبوں کے لیے قہرو غضب کی علامت سمجھی جاتی ہے اس لیے ناکام ریاست کا لیبل اس پر چسپاں نہیں ہوسکتا۔ یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں