دن ایک ستم ‘ ایک ستم رات کرو ہو

مسکین سے نوجوان نے سیلزمین کے سامنے ہاتھ جوڑے اور لجاجت سے کہا، زیادہ نہیں صرف آدھ لٹر پٹرول دے دو، میری چاند گاڑی میں مریض ہے تاکہ میں اسے جناح ہسپتال پہنچادوں۔ سیلزمین نے جسے چھ روز سے نجانے کتنے بیماروں اور ضرورت مندوں سے واسطہ پڑ چکا تھا، بے رخی سے انکار کردیا۔ مجھے چاند گاڑی کے مسکین صورت ڈرائیور کی لجاجت اور سیلز مین کی بے رخی میں چھپی بے بسی نے افسردہ کردیا۔ مگر یہ اکیلا شہری نہیں جسے پوری قیمت پر بھی نصف لٹر پٹرول دستیاب نہیں پنجاب کے شہریوں کے لیے ان دنوں پٹرول معشوق ہزار غمزہ ہے جو ہر ایک کو ٹھینگا دکھا رہا ہے ؎
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
فلم امرائو جان کے روایتی محبوب کے دیوانوں کی تعداد شاید شاعر نے مبالغہ آرائی کرکے ہزاروں تک بڑھا دی تھی مگر میاں نوازشریف کی حکومت نے جو محبوب پٹرول کی شکل میں تخلیق کیا اس کے دیوانے ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں جنہیں صبح سے شام تک پٹرول پمپوں پرپڑائو ڈالنے کی مجبوری لاحق ہے ۔ صحافی علی سلمان جعفری نے گزشتہ روز اپنے دوست کا حال بتایا جو بحریہ ٹائون کے اس پٹرول پمپ پر جہاں پٹرول ہمیشہ دستیاب رہتا ہے کبھی ''سیل بندہے‘‘ کا بورڈ نہیں لگا، دوپہر بارہ بجے قطار میں لگا اور رات ساڑھے آٹھ بجے باری آئی تو منت سماجت کے بعد صرف پچیس لٹر پٹرول ملا ۔پیچھے کھڑے لوگوں نے مبارکباد دی اور گھر والوں نے واپسی پر صدقہ اتارا ۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
لاہور پریس کلب میں انتخابی دھاندلیوں سے متعلق اعتزاز احسن کی پریس کانفرنس سے واپس دفتر لوٹا تو ٹی وی پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار دھواں دار پریس کانفرنس کررہے تھے۔ڈار صاحب کی پریس کانفرنس سن کر ہرگز نہیں لگتا تھا کہ وہ حکومت کے ایک ذمہ دار اور بااختیار وزیر ہیں اور تیل بحران کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے البتہ اعتزاز احسن کی یہ بات درست لگی کہ میاں نوازشریف کو پیپلزپارٹی یا کسی اور کی اپوزیشن کی طرف سے دمادم مست قلندر کی ضرورت نہیں۔ میاں صاحب کے اپنے وزیر ہی اس نیک کام کے لیے کافی ہیں۔اسحاق ڈار، شاہد خاقان اور خواجہ آصف ہر ایک الگ الگ ڈفلی بجا رہا ہے۔
ڈار صاحب نے ایک طرف تو تیل بحران کو حکومت کے خلاف گہری سازش قرار دیا۔ دوسری طرف سوال کیا کہ آخر شپنگ کمپنیوں نے تیل کی سپلائی کے لیے جہاز کیوں نہ بھیجا؟ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے تیل کا مطلوبہ مقدار میں ذخیرہ کیوں نہ کیا ؟اور جن اداروں کی ذمہ داری ہے ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟وغیرہ وغیرہ ۔ڈار صاحب اگر یہ بھی نہیں جانتے کے شپنگ کمپنیوں سے جہاز لے کر تیل کی ترسیل، تیل کے ذخیرے کی جانچ پڑتال اور پی ایس او کو بروقت ادائیگی حکومت کی ذمہ داری ہے؟تو آدمی کیا کہے اور کس سے گلہ کرے ۔ وزارت خزانہ ، وزارت پٹرولیم اور وزارت بجلی و پانی نے اپنا فرض ادا نہیں کیا تو کوتاہی کا مرتکب کوئی اور نہیں بطور وزیر خزانہ موصوف خود اور ان کے قریبی ساتھی شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف ہیں یا پھر ان کے گورووزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف ہیں مگر ڈار صاحب سازش کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، جو حکمران ٹولے کا دیرینہ وتیرہ ہے ۔ ایک مسئلہ درپیش ہو تو اسے حل کر پائیں یا نہیں مگر اس کے ساتھ دو تین مزید مسائل ضرور پیدا کردیتے ہیں۔
میاں نوازشریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد توانائی کا بحران حل کرنے پر کمر کس لی، اسحاق ڈار صاحب نے گردشی قرضوں کو توانائی کے بحران کی جڑ بتایا اور جون 2013ء میں ایک پریس کانفرنس کے دوران قوم کو خوشخبری سنائی کہ چار سو اسی ارب (480)روپے کے گردشی قرضے ادا کرکے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیاجائے گا۔ 480ارب روپے کی کثیر رقم تھرمل پاور کمپنیوں کو ادا کردی گئی، بجلی کے نرخ دوگنے مگر لوڈشیڈنگ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی اور گیس کی قلت اس پر مستزاد،سی این جی سٹیشنز بھی بند۔ پٹرول کے بحران نے حکومت کی بصیرت ، دور اندیشی منصوبہ بندی اور کارگزاری سب کا پول کھول دیا۔ گردشی قرضے ایک بار پھر چار سو ارب روپے سے بڑھ چکے ہیں۔ صرف پی ایس او کا گردشی قرضہ دو سو ارب سے زائد ہے۔ بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ میں کمی تو درکنار عوام کو پٹرول بھی میسر نہیں اور وفاقی وزراء کے بیانات سن اور پڑھ کر لگتا ہے کہ ذمہ دار وہ نہیں کوئی اور ہے اور قصور وار موجودہ حکومت نہیں کوئی سازشی ادارہ یا گروہ ہے جس نے حکومت کو بدنام کرنے کے لیے بحران پیدا کیا۔
جس ریاست اور معاشرے میں احتساب اور مواخذے کا کوئی فول پروف اور تسلی بخش نظام نہ ہو، امیر، غریب، طاقتور ، کمزور کے لیے سزا و جزا کے الگ الگ پیمانے ہوں اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ ہو،وہاں بحران ہر روز جنم لیتے اور عوام کی جمع پونجی ، عزت نفس اور چین سکون لوٹ کر رخصت ہوجاتے ہیں ۔ ان سے کوئی سبق سیکھتا ہے نہ اگلے بحران کی پیش بندی کرتا ہے۔ مسلم لیگ ن کو اقتدار میں آئے ڈیڑھ سال گزرا ہے۔ کم از کم تین چار بار یہ بحرانوں کی لپیٹ میں آچکی مگر مجال ہے کہ اس نے کوئی سبق سیکھا ہو۔ اعتزاز احسن نے پریس بریفنگ میں دعویٰ کیا اور سو فیصد درست کہا کہ اگر ہم اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر حمایت اور تعاون نہ کرتے تو ستمبر میں حکومت کا بوریا بستر گول ہوجاتا۔ مگر اتنے بڑے جھٹکے کے بعد حکومت کا رویہّ کیا ہے ؟جوڈیشل کمشن کی تشکیل میں تذبذب اور دھاندلی کا الزام ماننے سے انکار؟ عمران خان توخیر حکومت کا دشمن ٹھہرا مگر الیکشن اور حکمرانوں سے اعتزاز احسن بھی شاکی ہیں اور حلقہ124میں دھاندلی کی مناسب تحقیقات نہ ہونے پر برہم۔ ستمبر میں حکومت کی خوشامد، چاپلوسی اور اب بے اعتنائی جاٹ کو کھلتی بہت ہے ؎
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
حکومت کی ضد ہے کہ نہیں ان انتخابات کو جہاں ہیں، جیسے ہیں کی بنیاد پر مان لو اور 2018ء میں ایک بار پھر ایسے ہی انتخابات کے لیے تیار رہو۔ تب تک ہم ووٹ دینے والے عوام کو بجلی ، گیس کی لوڈشیڈنگ، پٹرول کی قلت اور چینی کی مہنگائی و چور بازاری کا مزہ چکھاتے رہیں گے۔
موجودہ بحران سازش نہیں حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وزیراعظم ذمہ داری قبول نہ بھی کریں مگر اسحاق ڈار ، شاہد خاقان عباسی اور بجلی و پانی کی وزارت چلانے کے اصل ذمہ دار کسی صورت میں بری الذمہ قرار نہیں دیے جاسکتے۔ شپنگ کارپوریشن نے کوتاہی کی تو یہ بھی کسی اور کا نہیں حکومت کا ادارہ ہے اور ایک وزارت کے ماتحت، سیکرٹری ، ایڈیشنل سیکرٹری اور ایم ڈی پی ایس او کی معطلی بجا،یہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں ناکام رہے مگر کلیتاً ذمہ دار یہ ہیں تو پھر وزیر مشیر کس مرض کی دوا ہیں۔ اگر یہ اتنے ہی بے خبر اور نااہل ہیں،انہیں پٹرول کی طلب بڑھنے کا علم ہوا نہ ذخیرہ گھٹنے کا تو ایسے گھامڑوں کوبرقراررکھنے کی کیا تک ہے۔کام کے نہ کاج کے ،دشمن اناج کے۔
اس دوست نوازی، سیاسی مصلحت پسندی اور پسند و ناپسند نے ملک کا بیڑا غرق کیا ہے۔دینے کے باٹ اور ، لینے کے اور ۔ فیصلہ ساز سیاستدان ہیں۔ قومی وعوامی ضروریات کا خیال رکھنا اور بیورو کریسی کی رہنمائی کرنا ان کا فرض ہے اور کوئی کوتاہی ہو تو ذمہ داری انہیں قبول کرنی چاہیے مگر یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کھان پین نوں خوشیاتے دھون بھنان نوں جما۔ اس نااہلی ، نالائقی اور ذمہ داری سے گریز کو دیکھ کر لوگ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے بارے میں سوچتے ہیں کیونکہ حالت جنگ میں بھی سیاستدان نیشنل گورنمنٹ بناکر بنیادی قومی مسئلہ نمبر ایک یعنی دہشت گردی حل کرنے پر تیار نہیں۔ اپنا ہی پیدا کردہ تیل کا بحران جنہیں گہری سازش نظر آتا ہے وہ دہشت گردوں کا مقابلہ خاک کریں گے۔ ہر صبح ایک نیا مسئلہ اور ہر شام ایک نیا بحران ۔ اسحاق ڈار کی پریس کانفرنس پر کلیم عاجز یاد آئے ؎
دن ایک ستم‘ ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو‘ دشمن کو بھی جو مات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں