میری بُکّل دے وچ چور

دعویٰ حکومت کا یہ ہے کہ پٹرول کا بحران ختم ہوگیا ہے۔ ضرورت سے زیادہ پٹرول سپلائی ہورہا ہے۔ لاہور میں پٹرول کی کھپت پچیس لاکھ لٹر ہے، ڈی سی او لاہور کا دعویٰ ہے کہ شہر میں یومیہ سپلائی تیس لاکھ لٹر کردی ہے مگر بہتر انتظامات اور بحران کے خاتمے کے باوجود وزیراعظم نے دورہ سوئٹزرلینڈ منسوخ کردیا ہے۔ وہ ڈیوس فورم میں شریک نہیں ہوں گے۔
لوگ حیران ہوکر پوچھتے ہیں یہ بحران کی موجودگی کا اعتراف ہے یا اپنے ساتھیوں اور متعلقہ اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار؟ کیا وزیراعظم کو اندیشہ ہے کہ ان کے ملک سے باہر قدم رکھتے ہی پٹرول کا بحران پھر شدت اختیار کرلے گا؟
پارلیمانی نظام جمہوریت کو ترقی پذیر ممالک میں اس لیے بہتر اور مناسب طرزِ حکومت خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں اختیارات کا منبع کسی ایک شخص کی ذات نہیں بلکہ فیصلہ سازی کے عمل میں کئی لوگ شریک ہوتے ہیں‘ یوں بہتر اجتماعی مشاورت اور اختیارات کے عدم ارتکاز کی بنا پر نظام ریاست خوش اسلوبی سے چلتا ہے۔ پارلیمانی نظام ایک تکون کا نام ہے۔ (1)قومی، مرکزی یا وفاقی حکومت (2)صوبائی حکومت (3)ضلعی یا مقامی حکومت۔ یہ تینوں مل کر عام آدمی کے مسائل لوگوں کے دروازے پر حل کرتی اور اچھی حکمرانی کا ثبوت دیتی ہیں‘ مگر ہمارے ہاں بدترین شخصی حکمرانی کو پارلیمانی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے، اور جو انکار کرے وہ جمہوریت کا دشمن اور اسٹیبلشمنٹ کا آلۂ کار ہے۔
پٹرول کا بحران کیوں پیدا ہوا۔ چھوٹے سے قصبہ کے پٹرول پمپ پر کام کرنے والے سیلز مین کو بھی علم ہے اور چنگ چی رکشہ چلانے و الے ماجھے گامے کو بھی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی مت اتنی نہیں ماری جتنی ہمارے فیصلہ سازوں کی مار دی ہے۔ چالاک تھرمل پاور کمپنیوں کو ہمارے منصوبہ سازوں کی اس کمزوری کا علم ہے۔ اس لیے انہوں نے موخر ادائیگی کے عوض دھڑا دھڑ فرنس آئل لیا اور پی ایس او کو بروقت ادائیگی نہ کی۔ پی ایس او پر حکومت کا دبائو تھا کہ وہ آئی پی پیز کو سپلائی جاری رکھے مگر ادائیگی پر اصرار نہ کرے تاکہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے نہ پائے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اپنے سٹاک سے روزانہ اوگرا کو آگاہ کرتی اور بیس روز کا ذخیرہ رکھنے کی پابند ہیں۔ تیل کے ذخائر میں کمی ہوتی رہی مگر کسی نے ان سے پوچھا نہیں کہ لائسنس کی شرط کے مطابق انہوں نے بیس دن کا ذخیرہ کیوں نہیں رکھا۔ وزارت پٹرولیم ، وزارت بجلی و پانی اور وزارت خزانہ کی تگڑم نے پٹرول کا بحران پیدا کیا اور وزیراعظم اپنے روزمرہ مشاغل کے سبب ساری صورتحال سے لاعلم رہے‘ نتیجہ معلوم۔
اگر فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کا عمل پارلیمانی نظام جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق وسیع ہوتا، بیورو کریٹس کو آزادی ملی ہوتی ، وہ خود کوئی فیصلہ کرپاتے اور ملک میں منتخب بلدیاتی اداروں کا وجود ہوتا، گلی محلے کے منتخب کونسلر پٹرول پمپوں کی بندش اور تیل کی قلت سے پہلے روز ہی اپنی قیادت کو آگاہ کرتے تو کیا پھر بھی یہ بحران اس قدر طوالت اختیار کرتا؟ کیا تین وزیر ذمہ داری کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈال کر اور وزیراعظم سارا غصہ بے زبان و بے بس بیورو کریٹس پر نکال کر بری الذمہ ہوگئے اور کیا ہر مسئلہ کا حل وزیراعظم کی ملک میں موجودگی سے مشروط ہے؟ کیا عہد جدید میں مہذب ریاستیں اس طرح چلتی ہیں ؟ اور بحرانوں پر اس طرح قابو پایا جاتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کیے بغیر گونا گوں اور پیچیدہ مسائل میں گھری ریاست نہیں چل سکتی۔ جو اب سب کو معلوم ہے مگر جس نوع کا طرزِ حکمرانی ہماری اشرافیہ کو مرغوب ہے وہ عمل کی اجازت نہیں دیتا۔ 
ملک میں جنگ برپا ہے۔ فوج بیک وقت کئی محاذوں پر نبرد آزما ہے۔ وزیراعظم نوازشریف ہی نہیں سارے سیاستدان تسلیم کرتے ہیں کہ یہ طویل اور صبرآزما جنگ ہے مگر آرمی چیف اطمینان سے غیر ملکی دورے کر رہے ہیں۔ امریکہ، سعودی عرب، برطانیہ وغیرہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان دوروں سے جنگ متاثر ہوئی یا کوئی مسئلہ پیدا ہوا؟ ہرگز نہیں۔ کوئی مانے نہ مانے‘ پاک فوج ایک چیف آف کمانڈ اور لگے بندھے نظام کے تحت کام کرتی ہے۔ اس خودکار نظام کو چلانے کے لیے آرمی چیف کی ملک میں موجودگی ضروری ہے‘ نہ ان کی عدم موجودگی میں کوئی بحران پیدا ہوتا ہے‘ بلکہ 12اکتوبر 1999ء گواہ ہے کہ اگر طالع آزما عناصر آرمی چیف کی ملک میں عدم موجودگی کے دوران اس نظام میں رخنہ اندازی کی کوشش کریں تو اس میں ان بلٹ صلاحیت موجود ہے کہ یہ رخنہ اندازی سے متاثر ہوئے بغیر چلتا رہے اور رخنہ اندازوں کو اپنی حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
ویسے یہ بھی حیران کن بات ہے کہ جب رمضان المبارک میں پاکستان پر ایک سیاسی بحران کے سائے منڈلارہے تھے‘ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے لانگ مارچ اور دھرنے کا الٹی میٹم دے رکھا تھا تو وزیراعظم دس بارہ روز کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔ واپسی پر بھی انہوں نے لانگ مارچ روکنے کی کوشش کی‘ نہ ماڈل ٹائون کے خونیں واقعہ کے ذمہ داروں کو سزا دینے کی ضرورت محسوس کی اور نہ الٹی میٹم دینے والی جماعتوں سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے۔ سیاسی بحران نے جنم لیا اور یہ اتنا شدید تھا کہ خود حکمرانوں نے اسے جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے کی سازش بتایا۔
چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا، سرمایہ کاری رک گئی اور پوری دنیا میں پاکستان مذاق بن گیا‘ اس کے باوجود وزیراعظم نے اپنے غیر ملکی دورے منسوخ نہیں کیے۔ یہ خود اعتمادی تھی یا بے نیازی؟ مگر اب جبکہ حکومتی بھونپو بحران کے خاتمے کا اعلان کررہے ہیں‘ وزیراعظم نے دورہ سوئٹزرلینڈ منسوخ کردیا۔ کیا وزیراعظم اسلام آباد میں بیٹھ کر اب تیل سپلائی کا حساب کتاب کریں گے یا انہیں شک ہے کہ تیل کا بحران پیدا کرنے والے ان کے کچھ نادان دوست کسی سازش میں ملوث ہیں اور وہ دوبارہ کوئی کھیل کھیل سکتے ہیں؟
1992ء میں لاہور کے علاقہ اسلام پورہ میں آٹھ نو افراد قتل ہوئے تو وزیراعظم نے افراتفری میں اپنا دورۂ جاپان ملتوی کردیا۔ جاپانی حکومت عرصۂ دراز تک پاکستان سے ناراض رہی کیونکہ دورے کی کسی معقول اور ٹھوس جواز کے بغیر یکطرفہ منسوخی کو مہذب ممالک اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ آج تک قاتلوں کی گرفتاری عمل میں آئی نہ قتل کا معمہ حل ہوا۔ البتہ عام آدمی کو یہ پیغام ملا کہ ملک میں اوپر سے نیچے تک ایڈہاک ازم رائج ہے اور ریاستی معاملات فرد واحد کی مرضی‘ منشا اور مداخلت سے چلتے ہیں۔ پولیس، انتظامیہ، تفتیشی ادارے، جزا و سزا کا معقول نظام کچھ بھی موجود نہیں‘ ورنہ وزیراعظم کو دورہ منسوخ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اعتراض بیرونی دوروں پر ہے نہ ان کی منسوخی پر مگر معقول جواز دونوں کا ہونا چاہیے۔ 
پٹرول کا بحران حکومت سے فیصلہ سازی کے عمل میں دانائی، دور اندیشی، بہتر منصوبہ بندی اور بے لاگ احتساب کا تقاضا کرتا ہے۔ دو تین افراد کی قربانی مانگتا ہے جن کی نااہلی ، غفلت، بے نیازی اور نفع اندوزی کے سبب یہ بحران پیدا ہوا مگر وزیراعظم اپنی بُکّل میں چھپے چوروں کی سرکوبی کے بجائے اب بھی لیپا پوتی سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف سے آبرومندانہ سمجھوتے پر وہ تیار نہیں۔ بلاتفریق احتساب اور مواخذہ انہیں پسند نہیں اور ہر شعبے میں اہلیت و صلاحیت کا فقدان، کرپشن و اقربا پروری کا کلچر فروغ پذیر ہے جس کی ایک جھلک پٹرول بحران میں دیکھنے کو ملی‘ مگر دعویٰ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت وہ فرمائیں گے اور جیت کر دکھائیں گے۔ ایک کے بعد دوسرا بحران اور ہر بحران سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی۔ آخر فوج کب تک اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے علاوہ ناکارہ حکومتی نظام کو سنبھالے گی؟ اس کے صبر اور حوصلے کی بھی ایک حد ہے۔ ہمارے جمہوریت پسند حکمرانوں کو اس کا احساس ہے ؟ یا سینیٹ کے انتخابات تک وہ وقت گزاری کے ذریعے ایک نئے معرکے کی تیاری کررہے ہیں۔ بعض دوستوں کے خیال میں طویل معرکہ آرائی کی مشق۔ 
بیرون ملک آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جو غیر معمولی پزیرائی ملی وہ بعض ستم ظریفوں کو ہضم نہیں ہو رہی اور وہ طرح طرح کی سازشی کہانیوں سے دل پشوری کر رہے ہیں مگر ''ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘ کے مصداق ہماری فوجی اور سیاسی قیادت کو امریکہ اور ان کے اتحادیوں سے ہوشیار ضرور رہنا چاہیے کہ یہ ترقی پذیر ممالک میں ون ونڈو آپریشن کو ترجیح دیتے ہیں اور ہمیشہ ''مناسب‘‘ آدمی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ سیاسی قیادت کو اہلیت‘ صلاحیت‘ دوراندیشی اور بہتر ڈلیوری سسٹم سے ان سازشی تھیوریوں کی نفی کرنی چاہیے‘ کسی احمقانہ معرکہ آرائی اور مہم جوئی سے نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں