Stop This Nonsense

یہ لطیفہ نہیں، آنکھوں دیکھا، کانوں سنا واقعہ ہے۔ لاہور کے ایک اخبار نے مذہبی نزاع اور بدمزگی سے بچنے کے لیے دینی کالم کی جگہ علامہ شبلی نعمانیؒ اور سید سلیمان ندویؒ کی کتاب سیرت النبی ﷺ قسط وار چھاپنا شروع کردی۔ کتاب چونکہ عشروں سے علمی و مذہبی حلقوں میں مقبول و مستند تھی‘ اس لیے کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ اس کی قسط وار اشاعت پر کوئی اعتراض کر سکتا ہے۔ 
ایک دن بے احتیاطی سے نامکمل واقعہ نقل ہوا جس پر ایک مکتب فکر نے اعتراض کیا۔ پولیس نے بلاتاخیر اخبار کے مالک، مدیر اور علامہ شبلی نعمانیؒ، سید سلیمان ندویؒ کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی اور ایک تفتیشی کو اخبار کے دفتر بھیج دیا۔ اخبار کے مدیر حمید جہلمی مرحوم کے دھیمے مزاج، طبعی شرافت اور نرم گفتاری سے تفتیشی اہلکار متاثر ہوا اور بولا،میرا آپ سے کوئی لینا دینا نہیں، آپ بس میرے ساتھ تعاون کریں اور اصل ملزموں علامہ شبلی نعمانیؒ اور سید سلیمان ندویؒ کا اتا پتا بتادیں ،میں ان سے خود نمٹ لوں گا اور آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ یہ واقعہ مجھے پنجاب بھر میں متنازعہ کتابوں کی تلفی ، لائوڈ سپیکر کے غلط استعمال کی روک تھام اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے حکومت اور پولیس کی پھرتیاں دیکھ کر یاد آیا۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے فروغ میں کس گروہ، ادارے اور انداز فکر کا کیا کردارہے؟ کسی سے مخفی نہیں۔ فروعی مذہبی اختلافات فرقہ واریت میں کیسے ڈھلے ،فرقہ وارانہ تنظیموں کے دفاتر بارود خانوں میں کیسے بدلے اور مختلف مذہبی مکاتب فکر کے انتہا پسند اورعسکری مزاج عناصر نے اپنے مخالفین کو بندوق کے زور پر ختم کرنے کا آغاز کب اور کیوں کیا؟ حکمرانوں کے سوا سب جانتے ہیں،سیاستدان، جج، جرنیل، دانشور اور میری طرح کے عامی۔ موجودہ صورتحال کی فرقہ پرست مذہبی جماعتیں ، کٹھ ملا، نیم خواندہ واعظ، ذاکر، ریاستی ادارے اور مختلف ادوار کی حکومتیں کس حد تک ذمہ دار ہیں اور کینچوے کو اژدھا بننے کا موقع کس نے فراہم کیا؟ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ؎جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔مگر گڑے مردے اکھاڑنے کا موقع ہے ،نہ لکیر پیٹنے کا فائدہ؟ 
بلاشبہ مسلکی تعصبات ، مذہبی مباحث میں شدت، مختلف مسالک کے مابین اصولی مشترکات کے بجائے فروعی اختلافات پر زور اور دلآزار تحریروں اور تقریروں کے علاوہ لائوڈ سپیکر کا غلط استعمال نفرت کے فروغ اور تنازعات میں اضافے کا سبب ہیں اور ان کا قلع قمع تقاضائے وقت۔ کم علم ، کج فہم اور تُند خوواعظوں اور ذاکروں نے ہمیشہ قیامت ڈھائی اور لائوڈ سپیکر کو اپنے مسلک کی ترویج سے زیادہ مسلکی مخالفین کی دل آزاری کے لیے وقف کیا۔ قرآن و حدیث کے بجائے تاریخی سیاسی اختلافات کا جاو بے جا تذکرہ اور غیرثقہ روایات کی تشہیر جن سے نوجوان نسل کے جذبات برانگیختہ ہوتے اور انہیں مرنے مارنے پر ابھارتے ہیں۔ برصغیر میں لائوڈ سپیکر آیا تو علماء کی اکثریت نے تصویر اور کرنسی نوٹ کی طرح اس کی مخالفت کی، اسے شیطانی آلہ قرار دیا مگر اب مسجد اور امام بار گاہ بعد میں بنتی ہے لائوڈ سپیکر پہلے نصب ہوتا ہے اور دوران خطبہ و تقریر بجلی چلی جائے ،یہ شیطانی آلہ بند ہوجائے تو خطیب محترم چپ سادھ لیتے ہیں، لائوڈ سپیکر چالو ہوتو وہ کچھ ارشاد فرمائیں۔
لائوڈ سپیکر کے بے جا اور غلط استعمال کا قانون موجود ہے مگر انتظامیہ اور پولیس نے اس پر عملدرآمد کی ضرورت کبھی محسوس کی نہ اس شیطانی آلے کے شر سے بیماروں ، طالب علموں ، ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں اور صبح سے شام تک ذہنی و جسمانی مشقت کے بعد رات گئے دیر سے سونے والوں کو محفوظ رکھنے کی سعی۔ اذان، خطبہ جمعہ اور کسی مذہبی اجتماع کے موقع پر تقریروں کے لیے لائوڈ سپیکر کے استعمال پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے مگر اسے گھنٹوں دلآزار نعروں اور نفرت انگیز اظہار خیال کے لیے وقف کیے رکھنا دین کی خدمت ہے نہ مسلکی تبلیغ کا تقاضا۔ تاہم برس ہا برس تک کسی کو روک تھام کی توفیق ہوئی نہ خود مذہبی جماعتوں اور آئمہ و خطبا کو مضر اثرات کا احساس ہوا۔
یہی معاملہ ان اشتعال انگیز‘ تعصب خیز مذہبی و مسلکی کتابوں کا ہے جو نیم خواندہ ذہنوں کو مسموم اور شرپسند عناصر کے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتی ہیں۔ یہ کتابیں سرعام چھپتی اور بکتی رہیں۔ معاشرے میں تعصب ، نفرت اور فساد کی آبیاری ہوتی رہی مگر کسی حکومت اور ادارے نے توجہ نہیں دی۔ ایک سابق آئی جی نے، جب وہ لاہور کے ڈی آئی جی تھے ، بہت بڑے عالم دین کا ذکر کیا جن کی دلآزار کتاب کے کچھ حصے پڑھ کر ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ مزید ہیجان و اضطراب سے بچنے کے لیے کتاب کا مطالعہ چھوڑ‘ اسے آتشدان میں پھینک کر گھر سے باہر نکل گئے۔
اقبال احمد خان مرحوم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بنے تو انہوں نے پہلی بار تمام مسالک کے علماء کی مدد سے ان کتابوں کی اشاعت و ترویج رکوانے کا بیڑا اٹھایا۔ وہ اخبارات کے دفاتر میں جاکر فرقہ وارانہ تنظیموں کے دلآزار بیانات اور نعرے شائع نہ کرنے کی اپیل کرتے رہے۔ صاحبزادہ فضل کریم مرحوم نے بھی بطور وزیر اوقاف پنجاب بہت سی متنازعہ کتابوں پر پابندی لگائی اور اس ضمن میں تمام مکاتب فکر نے ان کا ساتھ دیا۔ مختلف مکاتب فکر کے مابین اتحاد و اتفاق کے لیے مولانا عبدالستار خان نیازیؒ کا پیش کردہ فارمولا مشتہر ہوا۔ متحدہ علماء بورڈ کا قیام بھی ان کا کارنامہ ہے۔
تاہم نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے حکومت نے پولیس کو جو کام سونپا ہے وہ اصلاح احوال کے بجائے فسادخلق کا باعث بن رہا ہے۔ رحیم یار خان سے علامہ ریاض احمد قادری نے فون کیا کہ اذان کے بعد مخصوص انداز میں درود شریف پڑھنے پر موذنوں کو گرفتار کیاجارہا ہے۔ لاہور میں اردو بازار ، داتا دربار اور انار کلی کے معروف ناشرین مبتلائے آزار ہیں۔ حتیٰ کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی کتاب غنیتہ الطالبین جو ظاہر ہے کہ ممنوعہ کتابوں میں شامل نہیں اور صدیوں سے راہ سلوک کے مسافروں کی رہنمائی کررہی ہے، رکھنے کے جرم میں علامہ تقی عثمانی کے بھتیجے پر مقدمہ بن چکا ہے۔ حکومت نے کتب فروشوں کو ممنوعہ کتابوں کی کوئی مصدقہ فہرست فراہم کی،نہ انہیں اعتماد میں لیا اور اوپر کے احکامات پر چھاپوں اور گرفتاریوں کا آغاز ہو گیا۔ ایسے ایسے کتب فروشوں کے خلاف مقدمات درج کرکے گرفتار کیاگیا جو زندگی بھر فرقہ واریت میں ملوث ہوئے نہ کبھی مسلکی تعصبات کے بارے میں سوچا اور نہ کبھی کسی عسکری تنظیم یا شخصیت سے واسطہ رکھا۔کتب فروش برادری ممنوعہ اور قابل اعتراض کتابیں خود تلف کرنے پر آمادہ ہے مگر اس کی کوئی سنے تو؟ 
متنازعہ کتابوں پر پابندی کا اختیار متحدہ علماء بورڈ کے پاس ہے مگر پولیس اہلکار اپنے نمبر ٹانگنے اور دیہاڑی لگانے کے لیے جس کتاب، مصنف یا پبلشر اور کتب فروش کو چاہیں مجرموں کی صف میں کھڑا کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور ہمارے ہاں عموماً معاملات اسی طرح نمٹائے جاتے ہیں۔ داتا دربار کے قریب عموماً تصوف کی کتابیں شائع اور فروخت ہوتی ہیں مگر پولیس کی دستبرد سے وہ بھی محفوظ نہیں۔ چنداں بعید نہیں کہ غنیتہ الطالبین کی طرح رسالہ قشیریہ ، کشف المحجوب ، فتوح الغیب ، فوائد الفواد اور انفاس العارفین جیسی کتب تصوف بھی پولیس کی نظرمیں متنازعہ کتب ٹھہریں اور کوئی پولیس اہلکار کسی دن لوگوں سے پوچھتا پھرے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، شیخ ابو القاسم قُشیریؒ، حضرت سید علی ہجویری ؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کون ہیں،کہاں رہتے ہیں تاکہ اندیشہ نقص امن کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔
فرقہ واریت کا خاتمہ وقت کی ضرورت اور قوم کا مطالبہ ہے‘ متنازعہ کتب پر پابندی اور لائوڈ سپیکر کے بے جا استعمال کی روک تھام اسی سلسلے کی کڑی۔ مگر اس بھونڈے انداز میں نہیں کہ اُلٹا لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اشتعال انگیزی اور شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو ۔لوگ باور کرنے لگیں کہ مقصد فرقہ واریت کا خاتمہ نہیں ،مذہبی کتابوں اور اختلاف رائے پر پابندی کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی انٹرنیٹ اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں کتابوں کی ضبطی اور اتلاف سے بھلا کیا فائدہ؟ انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور دیگر جدید ذرائع سے ان کی ترسیل و تشہیر زیادہ آسان ہے۔ فرقہ واریت اور انتہاپسندی کا خا تمہ دل و دماغ کی تبدیلی، ذہنی تطہیر ، موثر و متبادل بیانیے اور حکمت و دانش سے ممکن ہے ،کسی ڈائریکٹ حوالدار کے ذریعے نہیں جو اپنا نام لکھنا جانتا نہیں ،غنیتہ الطالبین میں فرقہ پرستی تلاش کرلیتا ہے۔ معاشرے کو سدھارنا مقصود ہے یا مزید انتشار، بے چینی اور اشتعال برپا کرنا مطلوب ؟ Stop This Nonsense۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں