بازار

عمران خان کی پریشانی بجا اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کا عزم مبارک‘ مگر لگتا نہیں کہ وہ ارکان اسمبلی کو ووٹ بیچنے سے روک پائیں گے۔ انہوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو تین چار ارکان بدک گئے اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہو کر اس فیصلے کی مٹی پلید کرتے رہے۔ 
آغا شورش کاشمیری مرحوم نے ''بازار‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جو کئی عشرے بعد آج بھی تروتازہ ہے ؎ 
قلم بِک رہے ہیں نوا بِک رہی ہے 
چمن بِک رہے ہیں‘ صبا بِک رہی ہے 
اِدھر جنسِ بازار ہیں ماہ و پروین 
اُدھر مہ وشوں کی رِدا بِک رہی ہے 
اِدھر کارواں منزلیں ڈھونڈتے ہیں 
اُدھر شہرتِ رہنما بِک رہی ہے 
درِ میکدہ سے سواد حرم تک! 
ہر اک شئے بنامِ خدا بِک رہی ہے 
پاکستان میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوا۔ 1950ء کے عشرے میں ہر روز بنتی ٹوٹتی حکومتوں کی اہم ترین وجہ اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں کے علاوہ ارباب سیاست اور ارکان پارلیمنٹ کی خوئے بے وفائی بھی تھی۔ خان عبدالولی خان مرحوم ری پبلکن پارٹی کی تشکیل اور اپنے بزرگ ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ارکان پارلیمنٹ مسلم لیگی وزیراعظم کو اپنی وفاداری اور سردار عبدالرب نشتر کے حق میں ووٹ دینے کی یقین دہانی کرانے میں مصروف تھے کہ انہیں پتہ چلا گورنر جنرل نے ڈاکٹر خان صاحب کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم اپنے مہمانوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر یہ معلوم کرنے زنان خانے گئے کہ چائے میں کتنی دیر ہے مگر جب واپس آئے تو ڈرائنگ روم خالی تھا ایک آدھ کے سوا تمام ارکان اسمبلی ڈاکٹر خان صاحب کے گھر کا طواف کرنے پہنچ چکے تھے رات کو مسلم لیگی کی حیثیت سے سوئے اور صبح ری پبلکن کے طور پر آنکھ کھولی۔ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اسی دور میں کہا تھا کہ میں مہینے میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلتی ہیں۔ 
1988ء سے 1997ء کے عرصے میں ووٹوں کی خریداری اور وفاداری بدلنے کا کاروبار عروج پر پہنچا چھانگا مانگا‘ سوات اور مری کے عشرت کدے آباد ہوئے۔ جن دنوں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین ضمیروں کی خریدوفروخت کا مقابلہ تھا اور ارکان اسمبلی صبح و شام وفاداریاں بدل کر منہ مانگی قیمت وصول کیا کرتے تھے۔ ایک رکن اسمبلی نے تو حد کردی ایک دن وہ محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے مل کر پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرتے دوسرے دن وہ لاہور میں میاں نوازشریف کے ساتھ بیٹھے پریس کانفرنس کر رہے ہوتے اور تیسرے دن پھر اسمبلی میں اپنے ضمیر کی خلش مٹانے کا اعلان۔ 
اچھرہ لاہور سے رکن اسمبلی میاں عثمان مرحوم ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ مال روڈ پر دوران سفر سرخ اشارے پر گاڑی رکی تو ایک نوجوان گاڑی کے قریب آیا‘ ادب سے سلام کیا اور کچھ کہنا چاہا۔ میاں عثمان نے شیشہ نیچے کیا تو اس نے پوچھا ''کیا آپ رکن اسمبلی ہیں؟‘‘ ان دنوں ٹی وی چینلز کی بھرمار نہ تھی اور لوگ ارکان اسمبلی کو آسانی سے پہچانتے نہیں تھے۔ میاں عثمان نے اثبات میں جواب دیا تو نوجوان نے نعرہ لگایا ''لوٹا ای اوئے‘‘ یہ نعرہ سنتے ہی پیدل چلنے والوں نے بھی لوٹا لوٹا کی تکرار شروع کردی اور جب تک اشارہ نہ کھلا رکن اسمبلی سہمے بیٹھے رہے کہ نجانے نعرہ بازوں کا اگلا اقدام کیا ہو۔ 
نقد ادائیگی پر ووٹ بیچنے کا رواج بھی اسی دور میں پڑا ورنہ اس سے پہلے حکومت دبائو ڈال کر‘ پرمٹ‘ ملازمت اور وزارت کا لالچ دے کر ووٹ بٹورتی اور اپوزیشن پرانے تعلقات‘ اصول پسندی اور ضمیر پرستی کا واسطہ دے کر اپنے امیدوار کے حق میں ہموار کرتی۔ ایوب دور میں البتہ ایک مذہبی رہنما کے بارے میں مشہور ہوا تھا کہ ان کا ووٹ لاکھوں میں بکا۔ 
بلوچستان سے قیمتی معدنیات کی کانوں کے مالک میر نبی بخش زہری بار بار رکن سینیٹ منتخب ہوئے تو الزام لگا کہ وہ ووٹ خرید کر ایوان بالا میں پہنچ جاتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان کے بارے میں بھی یہ تاثر اس وقت پختہ ہوا جب پرویز مشرف دور میں نہ صرف وہ خود بلکہ ان کی اہلیہ اور دو بیٹے بھی منتخب ایوانوں میں پہنچ گئے‘ وزارتوں سے بھی نوازے گئے اور ان کی اصول پسندی کے چرچے ہونے لگے کہ وہ ووٹوں کی خریداری میں کھرے ہیں۔ ہر وعدہ ایفا کرتے ہیں اور ادائیگی میں ہرگز تاخیر نہیں کرتے۔ ووٹوں کے نرخ بڑھے تو انہوں نے ایسے ارکان اسمبلی کو مزید رقم پیش کی جو ان سے ووٹ کی کم قیمت وصول کر چکے تھے۔ صاحبزادے نے اعتراض کیا تو ڈانٹا کہ ہم چند کروڑ روپے کی خاطر ساکھ خراب کیوں کریں۔ 
پارلیمانی ایوانوں میں تحریک انصاف وارد ہوئی اور عمران خان کی طرف سے نظریاتی سیاست کے نعرے گونجے تو ارکان اسمبلی کی خریدو فروخت کا بازار بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ 2013ء کے انتخابی نتائج نے ویسے بھی ارکان اسمبلی کو کسی کام کا نہ چھوڑا۔ میاں نوازشریف اور مسلم لیگ کو مرکز اور پنجاب میں اتنی بھاری اکثریت ملی کہ ارکان اسمبلی کے ناز نخرے اٹھانا تو درکنار حکمرانوں کو ان سے ہاتھ ملانے کی ضرورت بھی نہ رہی۔ جون 2013ء میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی نے بتایا کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہونے کے لیے ایک ہفتے سے اپنے ساتھیوں سمیت لاہور میں مقیم ہے مگر میاں شہبازشریف تو درکنار میاں حمزہ شہبازشریف سے ملاقات کا وقت بھی نہیں مل رہا۔ 
خدا خدا کر کے ان دنوں خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور سندھ میں ارکان اسمبلی کی قسمت جاگی ہے پنجاب میں پھر بھی مندا ہے کہ اپوزیشن یہاں ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو عمران خان گھاس ڈالتے ہیں نہ پرویز خٹک نے اب تک انہیں کسی قسم کی مراعات سے نوازا ہے۔ طویل دھرنے نے ان کا کچومر نکال دیا ہے اور وہ بے چارے ابھی تک اپنے انتخابی اخراجات بھی پورے نہیں کر پائے۔ ان حالات میں اگر سینیٹ کی رکنیت کے خواہاں بعض دولت مندوں نے بوریوں کے منہ کھولے ہیں تو عمران خان ڈنڈا لے کر کھڑے ہو گئے ہیں کہ خوچہ کسی نے ہاتھ آگے بڑھایا تو سر پھاڑ دوں گا۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی پیر کی گائے بن گئی ہے جو دودھ دیتی ہے نہ ذبح کی جا سکتی ہے مگر برادرم ہارون الرشید کا خیال ہے کہ عمران خان لاکھ جتن کریں خیبرپختونخوا میں ہارس ٹریڈنگ ہو کر رہے گی اور جو وفاداری بیچنے کا ارادہ کر چکے ہیں وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔ 
"Where there is will, there is way"
ع سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے 
دھرنا کنٹینر پر کھڑے ہو کر عمران خان نے بارہا کہا کہ انہیں اس دوران زندگی کے بہترین تجربات ہوئے اور مخلص و نظریاتی کارکنوں کا پتا چلا۔ اب انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کا تجربہ ہوگا۔ ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کی تدبیر انہوں نے کھلے عام ووٹنگ کی صورت میں سوچی ہے مگر ہمارا آئین جس پر ہم سب کو فخر ہے خفیہ رائے شماری پر زور دیتا ہے جس کا مقصد عوامی نمائندوں کو کسی دبائو اور ترغیب کے بغیر ضمیر کی روشنی میں ووٹ کا موقع فراہم کرنا تھا مگر ہمارے نمائندوں نے اکثر و بیشتر اس شق کو اپنی قیادت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور اپنی وفاداری کی بہترین قیمت وصول کرنے کے لیے استعمال کیا۔ خیبرپختونخوا میں ہارس ٹریڈنگ کی روک تھام کے لیے یہ طریقہ شاید کارگر ثابت نہ ہو۔ 
ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں‘ دولت نوازی اور اقرباپروری کو خیرباد کہیں‘ ٹکٹ دیتے وقت اہل‘ مخلص اور نظریاتی کارکنوں کو اہمیت دیں‘ ان سے عطیات کے نام پر بھتہ وصول کیا جائے نہ جماعتی عہدیدار انہیں اپنے ڈیرے اور انتخابی مہم کے اخراجات پر مجبور کریں؛ تاہم ایک جماعت اکیلے یہ کام نہیں کر سکتی۔ کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق سب کو قبول کرنا پڑے گا ورنہ جماعت اسلامی نے کوشش کر کے دیکھ لی‘ خود سکڑ گئی اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی وغیرہ کا کلچر دوسری جماعتوں میں مقبول ہو گیا۔ ہارس ٹریڈنگ بھی ان میں سے ایک ہے۔ دیکھیں سینیٹ میں ارکان اسمبلی کا کیا بھائو لگتا ہے‘ پانچ کروڑ‘ سات کروڑ یا دس کروڑ۔ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں