تیری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے

فارسی میں کہتے ہیں ''رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت‘‘ عمران خان اور الطاف حسین کے مابین گرم گفتاری میں ان دونوں کا کچھ نہ بگڑتا۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے مابین زور آزمائی سانڈوں کی لڑائی ثابت ہوتی جس میں نقصان ہمیشہ گھاس کا ہوتا ہے ۔ ملک کے دوسرے حصوں میں تو دونوں جماعتوں کے مظاہرے پرامن رہتے مگر کراچی کا مزاج قدرے مختلف ہے ۔ ہنسی مذاق میں بھی دوچار لاشیں گر جاتی ہیں اور چار چھ جنازے اٹھانے پڑتے ہیں ۔یارلوگ اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت احتجاجی مظاہرے ، ہڑتال یا دھرنے کی کال دے تو وہ اپنا کام دکھائیں۔
پاکستان میں احتجاجی سیاست اور ایک دوسرے سے تلخ کلامی کا رواج اب نہیں پڑا۔ قیام پاکستان سے قبل بھی سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ۔بسا اوقات یہ ابتذال کی حدود کو چھوتی اور سیاسی کارکن باہم دست و گریباں ہوتے مگر چونکہ اسلحے کی ریل پیل تھی نہ سیاسی اختلافات نے قبائلی دشمنیوں کا روپ دھارا تھا‘ اس لئے یہ خدشہ بہرحال نہیں ہوتا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی باہمی لڑائی امن وامان کا مسئلہ پیدا کردے گی ۔ دو چار دن شور شرابا اور پھر سکون و اعتدال۔
تحریک پاکستان کے دوران مجلس احرار کے مولانا مظہر علی اظہر نے قائداعظم کے بارے میں سوقیانہ زبان استعمال کی تو امیر شریعت سید عطاء اﷲ بخاری نے اظہار تاسف کیا اور آغاشورش کا شمیری کے بقول کہا'' مظہر علی اظہر نے ہماری زندگی بھر کی کمائی بربادکردی‘‘ اس طرز گفتگو نے سیماب صفت مظہر علی اظہر کو ''مولانا اِدھر علی اُدھر‘‘ بنا دیا ۔گھرکے رہے نہ گھاٹ کے اور بالآخر تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئے ۔ معاشرے میں اخلاقیات اور شریفانہ طرز گفتگو کی اہمیت تھی اور قومی رہنمائوں سے توتکار کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔
سانحہ بلدیہ ٹائون اور سانحہ بارہ مئی ہماری قومی تاریخ کے المناک اور شرمناک باب ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں زندہ انسانوں کازندہ جلایاجانا کسی مہذب معاشرے میں قابل قبول ہو سکتا ہے نہ قابل برداشت ۔ ایم کیو ایم نے کبھی اس کی ذمہ داری قبول کی ہے نہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کی نمائندہ جماعت سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے اور نہ کوئی انسان بقائمی ہوش و حواس ان درندوں سے نرمی کی خواہش کر سکتا ہے جو کئی گھروں کو اجاڑنے اور سینکڑوں خاندانوں کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ایم کیو ایم کیلئے بہترین لائحہ عمل یہی تھا کہ وہ از خود ان دونوں سانحات میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا مطالبہ کرتی ، جوڈیشل کمشن قائم کرنے کا مطالبہ معقولیت پر مبنی تھا جس کی تائید ہر موافق و مخالف کو کرنی چاہیے تھی مگر ابتداء میں ہوش پرجوش غالب آیا اور بات بڑھنے لگی۔
الطاف بھائی نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا، معذرت میں پہل کی ، تحریک انصاف کو مظاہروں کی کال واپس لینے پر مجبور کردیا۔ یہ ایک سیاستدان کی ماہرانہ سیاسی چال تھی کہ جب حالات کونا موافق پائو تو پیش قدمی روک دو مگر یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے جسے خوش آئند قرار دیاجائیگا ۔قومی سطح پر ہلچل الطاف حسین اور عمران خان کے مابین تلخ کلامی اور الزام تراشی کا نتیجہ نہیں تھی ۔ دونوں کے مداحوں اور پیروکاروں کے سوا کسی کو اس بات سے سروکار نہیں کہ یہ ایک دوسرے کے بارے میں کیاسوچتے اور کیا کہتے ہیں اوران میں سے کون درست ہے کون غلط؟
قو م سانحہ بلدیہ ٹائون اور سانحہ بارہ مئی میں ملوث وحشی درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی خواہش رکھتی ہے۔ آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والوں کی طرح انہیں بھی نشان عبرت بنانے کے حق میں ہے؛ تاکہ آئندہ کسی کو خون کی ہولی کھیلنے کی جرأت ہو نہ ریاستی اداروں کوغفلت اور چشم پوشی کا موجودہ رویہ برقرار رکھنے کی مجبوری لاحق رہے اور کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر کہلا سکے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سیاسی حریف ہیں ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے مقابلے میں کراچی کی نوجوان نسل عمران خان اور تحریک انصاف سے زیادہ متاثر ہے اور اس نے ایم کیو ایم کو سیاسی میدان میں چیلنج کیا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دونوں لڑائی جھگڑے کو شعار بنالیں یا الطاف حسین کی فراخدلانہ معذرت اور عمران خان و شیریں مزاری کی جوابی خیر سگالی‘ سانحہ بلدیہ ٹائون کے خون ناحق پر پردہ ڈال دے اور مظلوموں کو انصاف ملنے کی جو امید بندھی تھی وہ پھر ناامیدی میں بدل جائے۔
16دسمبرکے سانحہ نے پاکستانی قوم کو دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنایا ہے ۔ ارض وطن کو صرف دہشت گردی نہیں‘ ایسی تمام قباحتوں سے پاک کرنے کا عزم پختہ ہوا ہے جو اس کی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ اور امن و سکون برباد کرنے کا سبب ہیں ۔ فوجی عدالتوں کے حوالہ سے انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلاء برادری کے تحفظات اپنی جگہ مگر عوام اس بناء پر ان کے حق میں ہیں کہ ان سے دلیرانہ اور فوری فیصلوں کی توقع ہے۔ کسی سویلین حکومت بالخصوص سندھ حکومت اور موجودہ پیچیدہ سست رفتار عدالتی نظام سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ہر نوع اور نسل کے دہشت گردوں ، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی ۔سزائے موت کے مجرم اس مصلحت کوش طرز عمل اور مفاد پرستانہ انداز فکر کی بنا پر چار چار، چھ چھ سال سے جیلوں میں موج کر رہے تھے اور اکیسویں ترمیم منظور ہوتے ہی اپنے انجام کو پہنچے۔
سانحہ کار ساز 2007ء میں ہوا‘ پانچ سال تک پیپلزپارٹی سندھ اور وفاق میں برسراقتدار رہی مگر اس کے مجرموں کو تختہ دار تک پہنچانے کی خواہش محترمہ کے وارثوں میں اب بیدار ہوئی اور اخباری اطلاع کے مطابق حکومت سندھ یہ مقدمہ بھی فوجی عدالت میں بھیج رہی ہے ۔ سانحہ بلدیہ ٹائون اور بارہ مئی سانحہ کارساز سے زیادہ سنگین اور ہوشربا تھا ۔ قائد حزب اختلاف اسے فوجی عدالت میں بھیجنے کا مطالبہ کر چکے ہیں تو پھر سندھ حکومت تذبذب کاشکار کیوں ہے؟ جبکہ ایم کیو ایم اس حوالہ سے جوڈیشل کمشن کے قیام کا معقول مطالبہ کر رہی ہے جو وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
عمران خان اور الطاف حسین یا تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے مابین سیز فائراس لحاظ سے تو نیک شگون ہے کہ پاکستان کا معاشی دارالحکومت مزید کسی اتھل پتھل کاشکار نہیں ہوا اور سیاسی محاذ آرائی میں اضافے سے دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کو نقصان پہنچنے کا جو خدشہ تھا وہ دور ہو گیا ہے مگر یہ اس حوالہ سے بھی نیک فال ہے کہ عمران خان کی طرح الطاف حسین نے بھی سانحہ بلدیہ ٹائون کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور اس میں ملوث ملزموں سے اظہار برات ہوا ہے ۔ یوں خون خاک نشیناںکے رزق خاک ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہا مگر مظلوموں کو انصاف فوجی عدالتوں سے ہی ملے گا اور ملک بھر میں احتساب اب نہ ہوا تو کبھی نہ ہو پائے گا۔ ہر مجرم ، لٹیرے ، ملک دشمن اور قوم فروش کا کڑا احتساب ۔ یہ اکیسویں ترمیم، آرمی ایکٹ کا منطقی تقاضا اور فوجی عدالتوں اور سیاسی و فوجی قیادت کیلئے آزمائش ہے۔
یہ قومی فرض‘ اگر موجودہ حکمران خواہ ان کا تعلق مرکز اور صوبے سے ہو یا مسلم لیگ ، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی سے‘ ادا کر سکیں تو چشم ما روشن دل ماشاد۔ انصاف، امن اور خوشحالی سڑسٹھ سال سے محرومیوں، مایوسیوں ، ظلم وبربریت اور ذلت ورسوائی کا سامنا کرنے والے عوام کا حق ہے اور اس کی فراہمی جمہوری نظام وحکومت کا اولین فرض۔ غفلت اور سہل پسندی کی گنجائش ہے نہ تاخیری حربوں کا کوئی جواز۔ سانحہ بلدیہ ٹائون اور سانحہ ماڈل ٹائون ، سانحہ پشاور کی طرح سول حکومتوں کیلئے ٹیسٹ کیس ہیں اوران میں ملوث مجرم طاقتور ہوں، بارسوخ یا باوسیلہ‘ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے تو نیا پاکستان جنم لے گا وگرنہ یہ کام کسی نہ کسی کو تو کرنا ہے۔ قومی حکومت اور ٹیکنوکریٹس گورنمنٹ کے شوشے سول اور منتخب حکومتوں کی بے عملی ، بزدلی اور مصلحت کوشی دیکھ کر چھوڑے جاتے ہیں ۔یہاں تکّے کو تیر بنتے دیر ہی کتنی لگتی ہے ۔ خون ناحق تو ویسے بھی رائگاں نہیں جاتا ؎
تیری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے
دامن یار‘ خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں