کانٹوں کی سیج

میاں نواز شریف کی حس مزاح کا تو ایک زمانہ معترف ہے‘ دوستوں اور مداحوں کی محفل میں لطیفے سنتے ہیں اور سناتے بھی ہیں۔ بسا اوقات دوران تقریر بھی چٹکلے چھوڑتے ہیں۔ سردار صاحبان سے منسوب کئی لطیفے وہ مختلف مواقع پر سنا کر داد سمیٹ چکے ہیں مگر مخدوم یوسف رضا گیلانی چٹکلے بازی اور لطیفہ گوئی کے شوقین نہیں اور نجی محفلوں میں بھی بہت کم اس طرف آتے ہیں ۔
گزشتہ روز مگر مخدوم صاحب میاں نواز شریف سے ملے تو ان کی طبیعت رواں تھی یا شاید میاں صاحب کو لبھانے کے لیے ایک لطیفہ اُن سے سرزد ہو گیا جو میاں صاحب نے سونے‘ چاندی اور لوہے کے ذخائر ملنے کی خوشی میں منعقدہ تقریب میں سنایا۔مخدوم یوسف رضا گیلانی نے میاں صاحب سے کہا''یہ آپ کہاں جان پھنسا بیٹھے۔ وزیر اعظم کا عہدہ پھولوں کا ہار نہیں کانٹوں کی سیج ہے‘‘ میاں صاحب نے جواب دیا ''میں اس منصب پر دو بار فائز رہ چکا ہوں‘ مجھے معلوم ہے کہ یہاں کوئی عیش و عشرت نہیں اور حالات کیا ہوتے ہیں مگر میں نے چیلنج سمجھ کر یہ منصب سنبھالا ہے‘‘۔ 
اب یہ لطیفہ نہیں تو کیا ہے کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کانٹوں کی سیج لگی جس سے موصوف عزت سادات دائو پر لگا کر ساڑھے تین سال تک چمٹے رہے اور انہیں کانٹوں کی سیج سے عدالت عظمیٰ نے ساڑھے تین سال بعد زبردستی اٹھایا ۔جسٹس افتخار محمد چوہدری کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کے ہر خوردو کلاں اور سابق وزیر اعظم کے عزیز و اقارب‘ دوست احباب اور کارکنوں نے اسے ناانصافی سے تعبیر کیا اور ان کے خوب لتّے لیے۔
اس طرح کے بیانات پڑھ کر موجودہ اور سابق وزیر اعظم کے بیرون ملک دوروں اور دارالحکومت سے بار بار غیر حاضر رہنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ شائد اقتدار کی سیج پر اُگے کانٹوں کی چبھن سے گھبرا اور اُکتا کر ہی ادھر اُدھر کا رخ کرتے ہیں مگر مٹی کی محبت میں یہ آشفتہ سر پھر اس سیج پر لیٹ جاتے ہیں اور کسی دوسرے کو قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔
گیلانی صاحب کانٹوں کی اس سیج پر بیٹھے تو ایک فوجی آمر کے قیدی کی شہرت اُن کے ماتھے کا جھومر تھی اور اپنی پارٹی سے وفاداری طرۂ امتیاز۔ '' چاہ یوسف سے صدا‘‘ منظر عام پر آ چکی تھی جس میں گیلانی صاحب نے دوران قید اپنی معاشی مفلوک الحالی کی نقشہ کشی موثر انداز میں کی تھی‘ حتیٰ کہ گھریلو اخراجات کے لیے انہیں اپنی کلائی سے گھڑی اتار کر بیچنی پڑی اور بیگم صاحبہ نے جیسے تیسے گھر چلایا۔ فوجی آمر نے ان کے بینک اکائونٹس منجمد کر دیئے تھے اس لیے یہ غربت اور مفلسی کا دور تھا اور مالدار دوست کنّی کتراتے کہ کہیں حکومت کے عتاب کا نشانہ نہ بن جائیں۔ ہمارے دوست غلام مصطفی خان میرانی کئی واقعات کے عینی شاہد اور رازہائے درون خانہ سے واقف ہیں مگر لائق صد مبارک ہیں گیلانی صاحب کہ انہوں نے اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد پھولوں کے ہار اتار پھینکے۔ یہ چمن کی رنگ و بو کادھوکہ تھا یا گل بوسی کا اندھا شوق کہ اس جہاندیدہ اور دور اندیش سیاستدان نے کانٹوں پہ زباں رکھ دی اور اڈیالہ جیل سے وزیر اعظم ہائوس کے سفر میں انہیں کچھ یاد نہ رہا۔
مخدوم صاحب کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے اور ان کا ساڑھے تین سالہ دور اقتدار عوام کو لگتا بھی کانٹوں کی سیج تھا جس پر لیٹے وہ اپنے ماضی کے شب و روز کا حساب کر رہے ہیں۔ کلفت اور بے چینی میں وزیر اعظم کو اپنے صاحبزادوں کے اندرون و بیرون ملک مشاغل کی خبر ہوئی نہ مجّو سائیں کی سرگرمیوں کا پتہ چلا اور نہ اپنے دائیں بائیں ہونے والی چھینا جھپٹی دیکھ پائے۔ مصروفیت اتنی زیادہ کہ ادّی فریال اور سائیں آصف کی فرمائشیں بھی پوری نہ کرتے کیونکہ اول خویش بعد درویش کا مقولہ حرزجاں تھا۔فوزیہ وہاب مرحومہ کے سامنے گورنر ہائوس لاہور میں ایک بار یہ ذکر ہوا کہ گیلانی صاحب اپنے دیرینہ دوستوں کو بھول چکے ہیں تو حیرت سے مرحومہ نے انگلیاں منہ میں داب لیں اور بولیں: ڈاکٹر جاوید صدیقی ‘ خرم رسول ‘ شاہنوازنون‘ عاطف کیانی‘ طارق خاکوانی اور اللہ بادشاہ کے علاوہ بھی گیلانی صاحب کا کوئی دوست ہے جسے وہ نوازنا بھول گئے ہوں ۔یہ شکایت تو پارٹی سربراہ اور ان کے ساتھیوں کو ہے کہ وزیر اعظم انہیں لفٹ نہیں کراتے اور اپنے جیل کے ساتھیوں کو نوازنے سے فرصت ملے تو ملتان چل پڑتے ہیں۔ گیلانی صاحب کے برینڈڈ سوٹ‘ ٹائیاں‘ ملتان ‘ لاہور کے گھر اور شبانہ روز مشاغل کا قومی اور عالمی پریس میں چرچا ہوا اور یار لوگ مرچ مصالحہ لگا کر انہیں بیان کرتے۔ پورے ساڑھے تین سال کسی کو علم نہ ہو سکا کہ جنوبی پنجاب کا یہ مظلوم سیاستدان کانٹوں کی سیج پر بیٹھا چھٹکارے کی دعائیں مانگ رہا ہے ؎
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
محترم میاں صاحب کا حال بھی مخدوم صاحب سے مختلف نہیں‘ تبھی انہوں نے اپنے پیشرو کو بتایا کہ مجھے سب معلوم ہے یہاں کوئی عیش و عشرت نہیں۔ اگر اسلام آباد کا وزیر اعظم ہائوس عشرت کدہ ہوتا تو وزیر اعظم ہر جمعہ کی شام لاہور کی طرف کیوں بھاگتے؟ بار بار برطانیہ‘ ترکی‘ سعودی عرب اور دبئی سمیت مختلف ممالک کا رخ کیوں کرتے؟ ایوان اقتدار کو کانٹوں کی سیج سمجھ کر انہوں نے صرف اپنے قریبی عزیز و اقارب کو شریک اقتدار کیا ہے‘ ابتلا میں ڈالا ہے۔ جو لوگ پرویز مشرف دور میں جیلوں میں بیٹھ کر ''عیش و عشرت‘‘ کی زندگی بسر کرتے رہے ان میں سے اکثر میاں صاحب سے دورہیں۔ لیکن لوگ حیران اس بات پر ہیں کہ کانٹوں کی اس سیج کو انہوں نے انعام کیسے سمجھ لیا‘ امتحان کیوں نہیں سمجھا‘ اب اقتدار اُن کے لیے آزمائش بن گیا ہے اور ایک امتحان سے گزر کرسکھ کا سانس نہیں لے پاتے کہ دوسرا امتحان درپیش ہوتا ہے۔
میاں صاحب ہوں یا گیلانی صاحب‘ پھولوں کے ہار اور کانٹوں کی سیج کا محاورہ انہوں نے سن ضرور رکھا ہے‘ دہرا بھی دیتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ جن حکمرانوں نے اقتدار کو کانٹوں کی سیج سمجھا‘ ان کا چال چلن‘ رہن سہن‘ انداز فکر اور طرز حکمرانی کچھ اور ہی طرح کا تھا۔ عمر بن عبدالعزیزؓ کی مثال مناسب نہیں کہ ؎ 
چہ نسبت خاک را باعالم پاک
عمر بن عبدالعزیز ؓ جب مدینے میں تھے تو ذاتی سامان تیس اونٹوں پر لادا گیا۔ خلیفہ وقت بنے تو تن کے کپڑوں کے علاوہ صندوق میں کچھ نہ رہا انہی کپڑوں میں فوت ہوئے اور یہی کفن کے طور پر استعمال ہوئے ۔شاہی محل کو اپنے لیے جہنم قرار دیا جس میں عمر بھر جلنے پر تیار نہ ہوئے۔ شیر شاہ سوری کو بھی بھول جائیں کہ صرف ساڑھے چار سال حکمرانی کی اور آج تک لوگ ان کی انتظامی صلاحیتوں کے علاوہ جی ٹی روڈ کو یاد کرتے ہیں۔ ڈیگال ‘ چرچل‘ مائوزے تنگ ‘ لینن اور خمینی گزشتہ صدی کے حکمران ہیں جنہیں دنیا برینڈڈ سوٹوں ‘ کروڑوں روپے کی گھڑیوں‘ درآمدی جوتوں اور اندرون و بیرون اثاثوں کے علاوہ خوش خوراکی کی بنا پر نہیں‘ خدمت خلق اور کارناموں کی بناء پر جانتی اور ان جیسے حکمرانوں کی تمنا کرتی ہے۔
قائد اعظم بھی اس ملک کے بانی اور حکمران تھے اور ان کے جانشین لیاقت علی خان بھی۔ ایک نے زندگی بھر کی کمائی ہوئی دولت وجائیداد، قوم کے لیے وقف کر دی اور دوسرے نے پھٹی قمیض اور جرابوں کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے تقاضے پورے کئے۔ یہ کردار کی قوت تھی کہ مُکّا لہرایا تو بھارت چوکڑی بھول گیا اور سرحدوں پر جمع فوج واپس بلا لی۔ ہاں مگر قائد ؒاور لیاقت ؒنے کبھی یہ کہا نہیں کہ اقتدار کانٹوں کی سیج ہے ، سمجھا اور پھر کانٹوں کی اس سیج پر بیٹھ کرقوم کے لیے پھولوں کے ہار پروتے رہے ۔
جملے بازی آسان ہے اور چٹکلے چھوڑنا ہمارے حکمرانوں کا من پسند مشغلہ مگر اقتدار ان کے لیے ہمیشہ عیش و عشرت‘ دولت و ثروت‘ اقربا پروری اور دولت نوازی کا ذریعہ بنا ورنہ ملک کی حالت یہ نہ ہوتی کہ گیس ہے تو بجلی نہیں‘ اور سونے ‘ تانبے ‘ چاندی‘ لوہے کے ذخائر موجود مگر غربت و افلاس‘ بے روزگاری‘ مہنگائی اور بدامنی ہے کہ قابو میں نہیں آ رہی اور عوام برسوں بلکہ عشروں سے وعدۂ فردا پر گزارا کر رہے ہیں ۔ ہر سہولت اور آسانی حکمرانوں کے لیے نقد اور عوام کے لیے اُدھار۔ یہ تقاضا بھی کہ ادھار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں