ارکان اسمبلی کی منڈی

سینٹ کے الیکشن نے ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو آزمائش سے دوچار کر دیا ہے ۔ اسلام آباد‘کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ میں ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت کا کاروبار عروج پر ہے اور دو کروڑ روپے سے شروع ہونے والی بولی دس کروڑ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔
پیپلز پارٹی چونکہ سندھ تک محدود ہے اور یہاں ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت مخصوص حالات کی بناء پر آسان بھی نہیں اس لیے وہ کسی بڑے خطرے سے دوچار نہیں،خوفزدہ بہت ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔اس بنا پر عمران خان خوب گرج برس رہے ہیں جبکہ میاں نواز شریف نے مینڈکوں کی پنسیری تولنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت سینٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے نہیں ہو گا بلکہ یونین کونسلوں کی طرح ارکان صوبائی و قومی اسمبلی ہاتھ اٹھا کر اپنی رائے ظاہر کریں گے۔ یہ ہے موجودہ جمہوری نظام اور ارکان اسمبلی پر اعتماد کا اظہار اور اپنے ساتھی ارکان کی وفاداری جانچنے کا درست طریقہ ؎ 
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یا د آیا
جمہوریت کے نام پر ملک میں دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کا جو نظام پروان چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وفاداریوں کی خریدوفروخت اس کا لازمی حصہ اور تقاضا ہے۔ حلقے‘ برادری‘ زبان‘ نسل اور فرقے کی سیاست کرنے والے جو لوگ کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچے وہ جلداز جلد مع سود اپنی سرمایہ کاری وصول کرنا چاہتے ہیں۔1970ء کے عشرے میں یہ پیپلز ورکس پروگرام کے کمشن پر اکتفا کر لیتے تھے، جنرل ضیاء الحق نے انہیں براہ راست ترقیاتی فنڈز خوری کی عادت ڈالی۔ اب پیٹ تین کروڑ کے ترقیاتی فنڈز سے نہیں بھرتا ،خاص طور پر ان صوبوں میں جہاں جماعتوں کے مقابلے میں سردار‘ وڈیرے ‘ مشران اورخوانین سیاسی جماعتوں اور قائدین پر حاوی اور اپنے ووٹ اور وفاداری کی بھاری قیمت وصول کرنے کے عادی ہیں۔
جماعتی مناصب اور انتخابی ٹکٹ دیتے وقت سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اپنے مخلص ‘ وفادار اور قید و بند کی صعوبتیں بھگتنے والے شریف اور بے وسیلہ کارکنوں کو نظر انداز کر کے جب موقع پرست‘ خود پسند ‘ بے ضمیر ‘ عہدہ و منصب کے حریص اور جمہوری اقدار و روایات پر یقین نہ رکھنے والے جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں اور وڈیروں کو ترجیح دیتے ہیں تو کسی نہ کسی موقع پر انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم‘محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے بار بار بھگتا اور عمران خان و آصف علی زرداری کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
میاں نوازشریف نے سینیٹ میں سرائیکی وسیب کو بالکل نظر انداز کرکے جوا کھیلا ہے۔ سندھ کے چار افراد کو پنجاب سے الیکشن لڑانا اور جنوبی پنجاب کو نظر انداز کرنا ؟ اِک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔
جس سیاستدان سے بات کرو‘ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر یہ محض بول بچن ہی ہوتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ فوجی آمر اپنے دور اقتدار میں جو بھی اچھے کام کرتے اور قوانین بناتے ہیں انہیں منتخب حکمران برسر اقتدار آتے ہی ملیا میٹ کر دیتے ہیں البتہ ان کی بری روایات اور نقصان دہ پالیسیوں کو ڈھٹائی سے جاری رکھتے ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق نے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں یہ ترمیم کی کہ عام انتخابات ہارنے والا کوئی امیدوار سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں۔ فوجی آمر کی نیت جو بھی ہو مگر سیاسی اخلاقیات اور جمہوری روایات کی رو سے یہ ایک بہترین اقدام تھا ۔جس شخص کو اپنے حلقے کے عوام نے مسترد کر دیا اُسے ایوان بالا میںلا بٹھانا ان ووٹروں کے سینے پر مونگ دلنے اور ان کے حق رائے دہی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے مگر ارکان پارلیمینٹ نے اپنے بھائیوں‘ بھتیجوں ‘ دوست احباب اور کاسہ لیسوں کے علاوہ انتخابی مہم پر پیسہ خرچ کرنے والوں کو نوازنے کے لیے اس قانون کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور محمد خان جونیجو مرحوم نے ہتھیار ڈال دیئے۔ تب سے اب تک‘ اگر کوئی شخص عام انتخابات میں بری طرح شکست کھانے کے باوجود‘ سیاسی قیادت کی مہربانی یا دھن دولت کے زور پر ایوان بالا میں پہنچ جاتا ہے تو اسے شکست سے دوچار کرنے والے ووٹر شرمسار پھرتے ہیں۔
سینٹ کے 5مارچ کو ہونے والے انتخابات میں بھی ایسے کئی چہرے حصہ لے رہے ہیں،2013ء کے انتخابات میں شکست جن کا مقدر بنی ، ارکان اسمبلی کے لیے بی اے تک تعلیم کی شرط بھی ہمارے سیاستدانوں نے ختم کی تاکہ معاشرے کا رول ماڈل بدستور'' دیہہ جماعت پاس یا فیل ڈائریکٹ حوالدار ‘‘رہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ریاستی اہلکاروں پر اپنی جہالت اور کم علمی کا رعب جماسکیں۔ کسی کو یہ احساس نہیں کہ زیور تعلیم سے آراستہ فوج اور بیورو کریسی اپنے سے کم تعلیمافتہ عوامی نمائندوں کا دل سے احترام کر سکتی ہے نہ ان کے غیر قانونی اور خلاف ضابطہ احکامات کی تعمیل اور نہ ان کی بالادستی تسلیم۔ جبکہ اُسے یہ بھی معلوم ہو کہ بیشتر کوغریب عوام کے ووٹ قومی و عوامی خدمات ‘دیانت‘ شرافت اور انسان دوستی کے سبب نہیں مخصوص ذرائع استعمال کرکے ملے ہیں۔ اسی باعث چھوٹے صوبوں کے بعض ارکان اسمبلی شتر بے مہار ہیں اور وہ اپنے ووٹ کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کے لیے بے تاب۔ انہیں دھرنا ختم ہونے کے باوجود یہ خوف لاحق ہے کہ معلوم نہیں کب موجودہ جمہوری نظام اپنے بوجھ تلے دب کر انہیں داغ مفارقت دے جائے اور وہ ایک بار پھر ووٹروں کے رحم و کرم پر ہوں۔ تحریک انصاف کے کچھ ارکان اسمبلی نے ہم خیال گروپ بنا کر باضابطہ علم بغاوت بلند کیا اور بیانات بھی دیئے جس سے حوصلہ پا کر پیپلز پارٹی کے ایک سابق سینیٹر اور لاہور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے میزبان نے اپنے دو صاحبزادگان کو امیدوار بنا دیا۔ آفتاب احمد خان شیر پائو نے جھٹ سے ان میں سے ایک کو ٹکٹ تھما دیا کہ یہ لو ہمارے نو دس ووٹ اور باقی چھ سات خود اکٹھے کر لو۔ ان کے دوسرے صاحبزادے کی نظر تحریک انصاف کے علاوہ اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی پر ہے کیونکہ مسلم لیگ نے ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنے صوبائی صدر پیر صابر شاہ کو نظر انداز کر کے جماعت میں مایوسی‘ بے چینی اور بغاوت کے جو بیج بوئے ہیں اس نے ووٹ خریدنے کے خواہش مندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
عمران خان نے خیبر پختونخوا سے سینٹ کے ٹکٹ ‘ مقامی امیدواروں کو دیئے ہیںاور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کی شہرت اچھی ہے مگر اچھی شہرت کے مقامی امیدوار‘ بوریوں کے منہ کھلے دیکھ کر آزاد امیدواروں کی حمایت پر آمادہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو بولی میں حصہ لینے سے روک پائیں گے؟ یہی اصل سوال ہے اور عمران خان کے علاوہ پرویز خٹک اور اسد قیصر کی قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان۔ دھرنا کے دوران جب کارکن پرجوش اور فعال تھے تحریک انصاف کے تین چار ارکان نے دھڑلے سے وفاداریاں تبدیل کیں۔ جماعت اور قیادت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو اصل آزمائش کا سامنا بلوچستان میں ہے جہاں صوبائی صدر ثناء اللہ زہری نے اپنے بھائی اورایک دوسرے رشتہ دار کو سینٹ کا ٹکٹ دلانے کے بعدمسلم لیگ کے ٹکٹ یافتہ یعقوب خان ناصر اور میر افضل مندو خیل کو خواجہ سعد رفیق کے بقول ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ قیادت نے مسلم لیگ اقلیتی ونگ کے صدر ایس ایم پیٹرک کو نظر انداز کر کے ایک کروڑ پتی دنیش کمار کو ٹکٹ تھما دیاہے۔ جبکہ آزاد امیدواروں محمد حسین ‘ ساجد دستی اور یوسف بادینی کی دولت‘ طاقت اور اثرورسوخ سے خائف یعقوب خان ناصر اور میر افضل مندوخیل برملا کہتے پھرتے ہیں کہ اس ٹکٹ کو ہم چومیں یا چاٹیں جو چوب مسجد کی طرح سوختنی نہ فروختنی ‘ چنگیز خان مری‘ عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری کو مسلم لیگ (ن) میں منت سماجت سے شامل کرنے والے سیدال خان ناصر اور متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی صغریٰ بٹ الگ غمگین و مایوس ہیں کہ قیادت نے ان کی قربانیوں کا صلہ کیا دیا۔ پرویز مشرف کے ساتھی اور بار بار پارٹیاں بدلنے والے مزے میں رہے جو کل بھی منتخب ایوانوں کی زینت تھے اب بھی میاں صاحب کی مہربانی سے براجمان ہوں گے۔ 
ہم جب عرض کرتے ہیں تو شکایت ہوتی ہے اور احباب گلہ کرتے ہیں مگر جب تک سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر پروان نہیں چڑھتا یہ خاندان اور موروثی اثرات سے پاک نہیں ہوتیں‘ خوشامد‘ چاپلوسی اور کاسہ لیسی کے علاوہ دھن ‘ دھونس ‘دھاندلی کے موجودہ کلچر کا قلع قمع نہیں ہوتا اور انتخابی عمل میں سرمایہ غالب و موثر فیکٹر کی حیثیت سے موجود ہے جمہوریت کا مستقبل تاریک اور پاکستان کا استحکام مخدوش ہے ۔ البتہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ٹکٹیں دلوانے والے عہدیدار و وزیر مزے میں ہیں، ان کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ آئین میں ترمیم ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں