دوہرا معیار

شہر کی ہنگامہ خیز اور یکسانیت آمیز زندگی سے اُکتاکر دور بھاگنے کا ارادہ کیا تو پہلی ترجیح غلام مصطفی خان میرانی کا تونسہ شریف کے قریب واقع زرعی فارم تھا جہاں کوہ سلیمان کے زیر سایہ سر سبز‘ لہلہاتے کھیت‘ ثمربار باغات‘ دریائے سندھ کی پرسکون لہریں اور صحبتِ ہم نفساں ذہنی و جسمانی تھکاوٹ دور کرنے کا تیر بہرف نسخہ اور ڈاکٹر سلیم مظہر کی ہم سفری نعمت غیر مترقبہ۔ مگر برادرم شیراز پراچہ کا اصرار اور دوِستان عزیز رئوف طاہر‘ عامر ہاشم خاکوانی‘ افتخار مجاز‘ فرخ سہیل گوئندی اور آفتاب احمد خان کی ہم رکابی کا شوق لاہور سے مردان لے گیا۔ خیبر پختونخوا کا ایک تاریخی شہر جسے بدھ مت کے روحانی زاویوں اور علمی جامعات کی وجہ سے گندھارا تہذیب میں صدیوں مرکزیت حاصل رہی اور تخت بھائی کی بدھ خانقاہ سے بدھ بھکشو شعور و آگہی کے ادراک اور روحانی و وجدانی علوم کی پیاس بجھا کر چین‘ جاپان اور کوریا کا رخ کرتے تھے ۔
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شیراز پراچہ نے میڈیا کے کردار پر قومی مباحثے کا اہتمام کیا تھا اور لاہور‘اسلام‘ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور سے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے روشن چاند ستارے شعبہ ابلاغیات کے کانفرنس ہال میں اُتر آئے تھے ۔ یوں میڈیا کے افق پر جگمانے والے ان چاند ستاروں کی اپنی آنکھیں دو دن تک عبدالولی خان یونیورسٹی کے علمی کارناموں اور وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی خان اور اُن کے قابل فخر ساتھیوں بالخصوص شیراز پراچہ کی تخلیقی صلاحیتوں ‘ شبانہ روز کاوشوں کی چمک دمک سے خیرہ ہوتی رہیں۔
قومی مباحثے کے دوران شریک گفتگو نامور مہمانوں بالخصوص طلعت حسین‘سلیم صافی‘ رحیم اللہ یوسفزئی ‘ خورشید ندیم‘ ڈاکٹر جبار خٹک‘ نذیر لغاری اور حیدر جاوید سید سے اساتذہ و طلبہ نے کس قدر فیض پایا یہ تو وہی بتا سکتے ہیں مگر ہر نشست میں گوش برآواز میزبانوں کے سوالات سے مہمان صحافیوں ‘ دانشوروں اور ٹی وی میزبانوں نے خوب لطف اٹھایا اور جانا کہ بڑے شہروں سے دور تعلیمی اداروں میں صلہ و ستائش سے بے نیاز لوگ کس قدر جذبہ و جنون سے علمی سرگرمیوں میں مگن ہیں۔ یہی مردان کار مستقبل کی امید اور قوم و ملک کا اثاثہ ہیں ؎
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
مردان پہنچنے سے قبل ہم ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی درگت بنتے دیکھ چکے تھے۔ ایاز خان بطور خاص دلگرفتہ تھے کہ میچ دیکھنے کے لیے موصوف رات بھر جاگا کیے مگر تقریب میں سوگ کی کیفیت نظر آئی نہ غصہ اور اشتعال۔ پتہ چلا کہ پختون جذباتی مشہور ہیں مگر وہ کھیل کو کھیل سمجھتے ہیں اور توقعات کھلاڑیوں کے بجائے سیاسی قیادت‘ حکمرانوں اور ذہن سازی کے علمبردار دانشوروں سے وابستہ کرتے ہیں جن کے فیصلوں اور آراء سے ان کا مستقبل سنورتا بگڑتا ہے۔ مباحثے میں ایک بار کرکٹ ٹیم کا ذکر آیا نہ اس کھیل کے دیگر مکروہ کرداروں کا‘ جن کے خلاف قومی سطح پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
قومی مباحثے میں میڈیا کا کردار‘ ذمہ داریاں اور مستقبل کے تقاضے زیر بحث رہے ایک سوال شدو مّد سے ہوا کہ میڈیا سیاستدانوں اور حکمرانوں کے تو‘ پیچھے پڑا رہتا ہے مگر معاشی و سماجی مسائل کو نظر انداز کرتا ہے۔ میراجواب یہ تھا کہ سیاستدان اور حکمران کروڑوں انسانوں کے رول ماڈل اور وسائل و اختیارات پر قابض ہوتے ہیں‘ قوم انہیں اپنے ووٹوں سے نوازتی اور سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اس لیے ان کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے نہ ان کی بدعنوانی ‘ بدانتظامی اور ناقص طرز حکمرانی کو معاف‘یہ اگر سدھر جائیں تو قوم کو سدھار نا مشکل ہے نہ قومی اداروں کو راہ راست پر گامزن رکھنا محال۔ حاضرین کے حوصلہ افزا ردعمل سے لگا کہ ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
میں مسلسل سوچتا رہا کہ ہم کس قدر غیر متوازن لوگ ہیں پاکستانی ٹیم ایک دو میچ ہار جائے تو ملک کی عزت خاک میں مل جاتی ہے‘ ہم مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں‘ قومی غیرت جاگ اٹھتی ہے‘ ٹیم کے کھلاڑی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ نامور کھلاڑی ٹیم سے نکال دیئے جاتے ہیں شعیب ملک‘ کامران اکمل‘ محمد یوسف اسی بنا پر ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ نہیں اور یونس خان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے معین کسینو چلے گئے تو قیامت برپا ہو گئی۔ مگر سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بارے میں ہمارا رویہ قطعی مختلف بلکہ مشفقانہ ہے۔
ہار جیت کھیل کا حصہ ہے مگر ہم سپورٹس میں شکست اور ناقص کارگزاری ہرگز برداشت نہیں کرتے ۔ یونس خان اور کسی دوسرے بڑے کھلاڑی کے بارے میں ہرگز یہ نہیں کہتے کہ کوئی بات نہیں کھیلنے دو‘بار بار موقع ملتا رہا تو پرفارمنس خود بخود بہتر ہو جائے گی۔ کوئی اچھا کھیلے یا برا سلیکشن کے بعد اسے کھیلتے چلے جانے کا حق ہے اور باز پرس کی ضرورت نہیں ‘ عمران خان‘ ایان بوتھم‘ بریڈ مین ‘ جاوید میاں داد‘ ظہیر عباس‘ انضمام الحق ‘ سچن ٹنڈولکر اور برائن لارا شاندار کارگزاری اور حیران کن ریکارڈ بنانے کے بعد بالآخر ریٹائر ہو گئے کہ یہی سپورٹس مین سپرٹ تھی اور اس کھیل کی عمدہ روایات کا اعادہ۔
دنیا بھر میں ہر شعبہ اسی اُصول پر کاربند ہے اور بہترین نتائج کا حامل۔ مگر پاکستان میں سیاستدانوں اور ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے سے اقتدار پر قابض ہونے والے حکمرانوں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ امور مملکت کی انجام دہی کے لیے کوئی ہوم ورک کریں نہ ٹیم کی تیاری پر توجہ‘ نہ سیاسی کھیل کے آداب سیکھیں۔ نہ ٹیم ورک پر یقین رکھیں اور نہ کھلے مقابلے پر آمادہ ہوں۔ قومی وسائل لوٹیں‘ عوام کے خون پسینے کی کمائی بیرون ملک‘ منتقل کریں اور ان کے برخوردار جو ئے خانوں کو ‘ رونق بخشیں مگر کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا۔ ان کی مرضی جب تک چاہیں ملکی اقتدار ‘ قومی وسائل اور سیاسی قیادت پر قابض رہیں۔ کوئی چوں چرا کرے نہ بُرے انداز سیاست اور طرز حکمرانی پر انگلی اٹھائے ۔ عوام حرف شکایت زبان پر لائیں تو بے اختیاری کا رونا اور مخالفین کی سازشوں کا تذکرہ۔ کسی کی کہاں محال کہ پوچھے حضور! اگر آپ بے اختیار‘ مجبور ہیں تو عزت نفس اور غیرت کا مظاہرہ کریں استعفیٰ دے کر گھر بیٹھیں ‘ چاپلوسی اور نیاز مندی سے کام چلانے کی کیا ضرورت ہے؟
ان دنوں سینٹ کے انتخابات میں وفاداریوں اور ضمیروں کی خریداری کا کاروبار عروج پر ہے۔ سینٹ کے انتخابات ون مین ون ووٹ کی بنیادپر نہیں ہوتے‘ ترجیحی ووٹ کا متناسب نمائندگی پر مبنی نظام رائج ہے مگر تیسری بار حکومت سنبھالنے والے دانا حکمرانوں نے شو آف ہینڈ کے ذریعے رائے شماری کا فیصلہ کیا ہے اور عمران خان نے بھی جھٹ شاباش دے دی ہے۔ آئین میں من مانی ترمیم پر بھی سب رضا مند ہیں گویا ملک کا آئین نہ ہوا ردی کا ٹکڑا ہے جسے حکمران طبقہ مرضی سے توڑ مروڑ سکتا ہے۔ ٹکٹ دیتے وقت پارٹی فنڈ اور انتخابی مہم کے نام پر کروڑں روپے وصول کرنا جائز ہے‘ کروڑ پتیوں کو ٹکٹ جاری کر کے دوسری پارٹیوں کے متذبذب اور مفاد پرست ارکان کے علاوہ آزاد ارکان کی وفاداریاں خریدنا روا ہے تو بے اصول اور لوٹا صفت ارکان کے لین دین پر قدغن کیوں؟
قصور سارا سیاسی قیادت اور حکمرانوں کا نہیں‘ ہم سب بھی برابر کے مجرم ہیں‘ ووٹ دیتے اور کسی سیاستدان و حکمران کی ہمنوائی و حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہرگز نہیں سوچتے کہ دھن‘ دولت‘ دھونس‘ دھاندلی‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور حیلہ سازی کے سوا ٹکٹ ہولڈر کا سرمایہ حیات کیا ہے؟ اور دفتر عمل میں خدمت خلق کا اثاثہ‘ سیاست و قیادت کی اہلیت‘ قومی عزت و وقار کی پاسداری ‘ ذاتی حمیّت کی رمق‘ خدا کا خوف‘ آنکھ کی شرم کس قدر؟ نتیجہ سامنے ہے کہ جو دہشت گردوں کا ہدف نہیں وہ اُجرتی قاتلوں‘ اوباش و بدمعاش لٹیروں‘ ذخیرہ اندوزوں گراں فروشوں‘ قبضہ گروپوں اور بھتہ خوروں کا ستم رسیدہ ہے اور پولیس و عوامی نمائندوں کا زخم خوردہ کہ یہ ہر حکومت کے چہیتے داماد ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس کا تجزیہ ہے کہ کمزور‘ کرپٹ اور ناکارہ حکومت کی وجہ سے پاکستان کی پشتون بیلٹ چند برسوں میں علیحدگی کی راہ پر گامزن ہو گی مگر اقتدار کے ایوانوں میں براجماں قمار باز‘ سیاست گری میں مشغول ہیں اور عوام ان کا احتساب و مواخذہ کرنے کے بجائے کرکٹ کے سیاپے میں مگن۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں مگر ماحول مختلف نظر آیا یہاں میڈیا کٹہرے میں تھا یا اسلام آباد کے فیصلہ ساز۔ 2008ء میں 734طلبہ سے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کرنے والی عبدالولی خان یونیورسٹی میں اس وقت طلبہ کی تعداد آٹھ ہزار ہے جو اختتام سال تک بارہ ہزار ہو جائیگی اور وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی کا دعویٰ ہے کہ اگر انہیں شیراز پراچہ جیسے رفقا کار کا تعاون حاصل رہا تو وہ اگلے دو سال میں اسے ملک کی نمبر ون یونیورسٹی بنا کر نیا ریکارڈ قائم کریں گے ؎
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں