اک اور دریا کا سامنا

سعودی عرب اور یمن میں کشیدگی اور یمن کے باغیوں پر سعودی فضائیہ کی بمباری نے پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کو آزمائش میں ڈال دیا ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے
کعبتہ اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی بنا پر ہر کلمہ گو کا سعودی عرب سے محبت اور حرمین شریفین سے عقیدت کا رشتہ ہے مگر حضرت اویس قرنی ؓ کی وجہ سے یمن بھی ہر عاشق رسول ﷺ کے دل میں بستا ہے۔ یمن کی تاریخ‘ حدود اربعہ ، سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ کا کسی کو علم ہو نہ ہو اویس قرنی ؓ سے ہر مرد و زن واقف ہے۔
اویس قرنی ؓ اسلامی تاریخ کا وہ خوش نصیب کردار ہے جو رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شرف تو حاصل نہ کرسکا مگر جنت میں ملنے کی بشارت گھر بیٹھے مل گئی۔ فرمایا '' اویس قرنی جب ہزاروں فرشتوں کے جلو میں جنت میں داخل ہوں گے تو میری دروازے پر ملاقات ہوگی‘‘۔ حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ ''میرے بعد میرے محب اویس قرنی سے ملنا اور دعا کرانا‘ وہ جو بھی دعا کرے گا، قبول ہوگی ‘‘۔
اویس قرنیؓ یمن کے ایک قصبے قرن کے باشندے تھے اور پیغمبر ﷺ کے محب صادق۔ حضور اکرمﷺ فرمایا کرتے انی لا جل نفس الرحمن من قبل الیمن (مجھے یمن کی طرف سے اللہ عزوجل کی خوشبو آتی ہے۔) یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ حضور اکرمﷺ کا ایک دیوانہ یمن میں رہتا ہے۔ صبح ، دوپہر ، شام مدینہ منورہ حاضری اور زیارت رسول ؐ کے منصوبے بناتا ہے مگر ضعیف اور لاغر ماں کو اکیلا چھوڑا کر دیار رسول ؐ جانے کے بجائے اس کی خدمت و مدارات کو حج اکبر جانتا ہے ؎
دل بدست آور کہ حج اکبر است
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عمل اس قدر مقبول اور رسول اللہ ﷺ کو اتنا پسند کہ اصحاب رسول ﷺ کو قرن کے اس شتربان کے مستجاب الدعوات ہونے کی بشارت دی اور اپنا کرتہ بطور تحفہ بھیجا۔
اس خوش نصیب انسان کا وطن یمن تھا، اسی نسبت سے عرب و عجم کے ہر مسلمان کو یمن سے لگائو ہے اور عاشق رسول ﷺ اویس قرنیؓ کے ذکر سے ان کی یاد یں معطر رہتی ہیں ؎
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
کسی زمانے میں عازمین حج عدن کے راستے حرمین کا رخ کرتے تاکہ راستے میں عاشق رسول ﷺ کے مولد کی خاک بوسی کرتے جائیں مگر پھر جدید سہولتوں کے طفیل راستے ''دشوار‘‘ ہوتے گئے اور گزشتہ سال دہشت گردوں نے اویس قرنی ؓ کی آخری آرام گاہ کو بھی شہید کردیا۔ معلوم نہیں اپنے عاشق صادق کی یادگار کو مسمارکرنے والوں کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کے جذبات کیا ہوں گے؟
رہا سعودی عرب تو بقول استاد امام دین گجراتی ؎
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمین کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
ہر صاحبِ ایمان کے لیے عقیدت و محبت کا مرکز کہ اس مقدس سرزمین پر اللہ کا گھر بھی ہے اور اس کے محبوب ﷺ کا در بھی ؎
ادب گاہیست زیر آسماں ازعرش نازک تر
نَفَس گم کردہ می آید جنیدؒ و با یزیدؒ اینجا
رہے اس کے حکمران تو وہ بھی پاکستان کے آزمودہ اور پیکر مہر و وفا دوست ہیں جو مشکل وقت میں ساتھ دیتے ہوئے روایتی عرب بھائی چارے کی تاریخ دہراتے ہیں۔
عربوں کے ہاں دوستی محض زبانی جمع خرچ اور صاحب سلامت نہیں‘ اس تعلق کو نبھانے کے لیے آگ و خون کے دریا سے بے جھجک گزر جانے کا استعارہ ہے۔ عرب قبائل کی کئی تاریخی جنگوں کا سبب رشتۂ دوستی کو ہر حال میں نبھانے کا عہد بنا اور یہ جنگیں برسوں چلتی رہیں۔ مگر کسی نے پیمان الفت کو داغدار کیا نہ دوست کے دشمن کے سامنے ہار مانی۔ عرب ویسے بھی سخت جان ہیں اور اپنی آن ، بان ، شان کو قائم رکھنے کے لیے ہر مشکل کو برداشت کرتے ہیں۔
آل سعود کے سربراہ اور موجودہ مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز ایک بار قبائل سے گفتگو کررہے تھے ، حاضرین نے دیکھا کہ شاہ کا چہرہ بار بار متغیر ہوتا ہے اور وہ دوران گفتگو رک جاتے ہیں۔ مجلس برخاست ہوئی تو شاہ تیزی سے اپنے کمرے میں گئے اور طبیب کو بلوایا۔ پتا چلا کہ ایک بچھو شاہ کے جسم کو بار بار کاٹ رہا تھا مگر آداب محفل برقرار رکھتے ہوئے شاہ نے کسی کرب کا اظہار کیا نہ مجلس برخاست کرنے پر آمادہ ہوتے‘ البتہ کئی روز تک زیر علاج رہے۔
شاہ فیصل نے جب 1973ء میں ہنری کسنجر کے ذریعے امریکی حکومت کو یہ پیغام دیا تھا کہ تیل کی دولت سے محروم ہونے کے بعد میں تو اپنے اونٹ کے ساتھ صحرائی زندگی گزار لوں گا مگر تعیش پسند امریکیوں کا کیا ہوگا؟ تو یہ محض تعلّی نہ تھی‘ فیصل ایسی بدویانہ زندگی بسر کرنے پر آمادہ بھی تھے۔ بدو محلات میں پہنچ کر بھی سخت جان رہتا ہے۔
سعودی عرب یمن تنازع پاکستان کے لیے صدی کا امتحان ہے۔ سعودی عرب کے بے پایاں احسانات اور تقاضۂ دوستی غیر مشروط امداد و حمایت کا تقاضا کرتا ہے۔ شاہی خاندان اورسعودی عوام نے پاکستان سے رشتۂ مودت نبھاتے ہوئے کبھی بھارت، اسرائیل کی پروا کی نہ امریکہ و یورپ کے دبائو کو درخوراعتنا سمجھا جو 1998ء میں ہمیں ایٹمی تجربات کی بنا پر اقتصادی و معاشی پابندیوں کے ذریعے نشان عبرت بنانا چاہتا تھا۔
بجا کہ سعودی خاندان کے شریف خاندان سے تعلقات ہیں اور نوازشریف کے سیاسی مخالفین کو یہ تعلق بُری طرح کھٹکتا ہے۔ پاکستان میں سعودی سفارت خانے کی بے عملی اور ناکامی؟ عیاں را چہ بیاں کہ اس نے کبھی سیاسی اور صحافتی حلقوں میں رابطوں اور رسوخ کی ضرورت محسوس نہیں کی ورنہ جس وقت شہزادہ مقرن اور سعود الفیصل وزیراعظم سے سلسلہ جنبانی کررہے تھے‘ اس سے پہلے یا اس وقت پاکستانی سفارت خانے کو بھی آصف علی زرداری، عمران خان اور دیگر سربرآوردہ سیاستدانوں ، مدیران جرائد ، نامور اینکرز ، کالم نگاروں کواعتماد میں لینا چاہیے تھا تاکہ حکومت کو سعودی عرب سے تعاون کا فیصلہ کرتے وقت کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس مرحلہ پر احسان فراموشی کی نئی تاریخ رقم کریں۔
عقلمندی اور قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سعودی عرب کو یمن کے خلاف جارحیت میں ساتھ دینے کے بجائے اپنے دوست ملک کے دفاع و سلامتی کے لیے دامے ، درمے ، سخنے امداد کی یقین دہانی کرائیں۔ جس حد تک ممکن ہو بری، بحری اور فضائی فوج کے دستے بھیج کر تبوک، دمام، نجران ، خمس المشید اور دہران جیسے اہم مقامات پر تعینات کرنے کی درخواست کریں جہاں سے اسرائیل، یمن یا کسی دوسرے ملک کی طرف سے جارحیت کا ارتکاب ہو سکتا ہے تاکہ سعودی عرب سے دوستی کا تقاضا بھی پورا ہو اور ہمیں دو عرب ممالک کی جنگ میں فریق بھی نہ بننا پڑے۔
اسلام اور مسلمانوں کے دیرینہ ''مہربانوں‘‘ کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ ایران اور سعودی عرب براہ راست جنگ میں الجھیں۔ شیعہ ، سنی تنازع عالم اسلام کے رہے سہے اتحاد کا شیرازہ بکھیردے اور شام، لبنان، عراق، مصر کی طرح سعودی عرب خانہ جنگی، افراتفری، دہشت گردی کا شکار ہو اور قبضے کی جنگ میں حرمین شریفین کا تقدس پامال ہو۔ پاکستان کو تماش بین بننے کے مشورے اسی نقطہ نظر سے دیے جارہے ہیں مگر کیا عالم اسلام کی واحد نیوکلیئر پاور کا یہ کردار ہونا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔
عراق ایران جنگ میں ہم غیر جانبدار رہے مگر پاکستان پراکسی وار سے پھر بھی محفوظ نہ رہا۔ عراق پر کویت کے حملہ کے وقت جنرل اسلم بیگ اور حکومت کے مابین اختلاف رائے نے سعودی عرب کو ہم سے بدظن کیا مگر سعودی حکومت نے کبھی اس پر ناک بھوں چڑھائی نہ طعنہ دیا۔ اب بھی ہم اگر او آئی سی کے ذریعے دو مسلم ممالک میں صلح و صفائی کرا سکیں تو یہ اپنے اور اپنے دوستوں پر احسان ہوگا مگر بظاہر یہ ممکن نہیں؛ تاہم ہمارا اس جنگ میں کود پڑنا دانشمندی نہیں کہ ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور اندرون ملک اس کے حامی و ہمدرد بہرحال برہم ہوں گے اور ہم دہشت گردی کے ساتھ فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آسکتے ہیں‘ منقسم قوم مزید تقسیم و تفریق کی متحمل نہیں ۔ لہٰذا مزید تاخیر کے بغیر پارلیمنٹ کا مشترکہ خفیہ اجلاس یا اے پی سی بلاکر کوئی دانشمندانہ فیصلہ کیا جائے اور یہ مقامات مقدسہ کے دفاع اور سعودی عرب کی سلامتی کے حوالے سے قومی جذبات احساسات کا مظہر ہونا چاہیے مگر ایران جیسے کسی ہمسائے ماں جائے کو بدگماں کرنے کا سبب ہرگز نہیں۔
نہ ایسی غیر جانبداری روا‘ جو ہمیں طوطا چشمی اور بے وفائی کی علامت بناکر رکھ د ے اور نہ اس قدر جانبداری مناسب کہ فرقہ واریت اور پراکسی وار کی نئی آگ بھڑک اٹھے۔ یہ ہماری قومی دانش اور ہمارے فیصلہ سازوں کی بصیرت کا امتحان ہے۔ اپنی جنگ سے چھٹکارا ہم نے ابھی پایا نہیں مگر اب دوستوں کی جنگ بھی ہماری راہ دیکھنے لگی ہے۔ بعض دوستوں کو اس میں امکانات کا جہاں آباد نظر آتا ہے مگر مجھے ہولناک تباہی کا اندیشہ ہے ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں