کیچوے

سیاسی کارکنوں پر تشدد سے انکار کرنے والے برطرف ایس ایس پی اسلام آباد محمد علی نیکوکارا کے حوالے سے میرے کالم پر ردعمل ظاہر کرنے والوں میں سابق ایس پی گوجرانوالہ اطہر وحید بھی شامل تھے جو ان دنوں ایک امریکی یونیورسٹی میں فیلوشپ اور ہالینڈ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انہیں محمد علی نیکوکارا سے ہمدردی ہے۔
اطہر وحید نے اپنی ای میل میں مختلف حکومتوں کے طرزعمل پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح انہیں دس سالہ ملازمت میں چھ بار سیاسی انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ 2009ء کے لانگ مارچ اور گورنر راج کے اختتام پر اطہر وحید کو وزیراعلیٰ ہائوس بلایا گیا تاکہ جمہوریت کے لیے اپنی ملازمت کو دائو پر لگانے والے پولیس افسر کو تھپکی دی جائے مگر ایس پی نے دو ٹوک الفاظ میں بتلایا کہ میں نے یہ کام کسی حکومت سے شاباش لینے کے لیے نہیں کیا۔ راولپنڈی سے اس افسر کا تبادلہ مسلم لیگ کے نیک نام وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے دبائو پر ہوا جو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے دو قاتلوں اور ایک پٹواری کی گرفتاری پر سخت ناراض تھے۔
ہمارے صحافی بھائی کریم اللہ گوندل پٹواری کی گرفتاری کے واقعہ کا ذکر خوب مرچ مصالحہ لگا کر کرتے ہیں۔ گوندل صاحب کے بقول پٹواری نے گرفتاری کے بعد پولیس افسر کو نثار علی خان کا نام لے کر مرعوب کیا اور عبرت ناک انجام کی دھمکی دی جس پر اطہر وحید نے زمانہ طالب علمی میں یاد کرایا جانے والا سبق دہرایا۔ ''ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘۔ صرف اسی پر بس نہ کیا ٹیلی فون پر چودھری صاحب کو پٹواری مذکور کی زبان سے ڈنڈا پیر کی کرامات کا پکے راگ میں اعتراف کرتے بھی سنایا۔
اطہر وحید کی شہرت ذوالفقار چیمہ کے شاگرد کی ہے۔ جس دور میں ذوالفقار چیمہ نے گوجرانوالہ میں ڈاکوئوں‘ اغواکاروں اور بھتہ خوروں کا ناک میں دم کر رکھا تھا، ننھو گورایہ کو ملائیشیا سے لا کر گوجرانوالہ کے عوام کو تحفظ کا احساس دلایا‘ علی محسن اور اطہر وحید جیسے نوجوان پولیس افسران اس کے دائیں بائیں نظر آتے تھے۔ اطہر وحید کا تو مجھے علم نہیں، ذوالفقار چیمہ کا گوجرانوالہ سے تبادلہ اس بنا پر ہوا کہ ضمنی انتخاب کے موقع پر یہ ضدی اور ہٹ دھرم افسر سرکاری امیدوار کے غنڈہ صفت سپورٹرز سے کسی قسم کی رو رعایت کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ فیصل آباد کے آر پی پی او کے طور پر تقرر ہوا تو مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی اور وزراء ڈٹ گئے کہ مر جائیں گے مگر ڈاکوئوں‘ اغواکاروں‘ بھتہ خوروں اور قاتلوں کے لیے خوف کی علامت اس افسر کو یہاں ایک دن نہیں رہنے دیں گے ۔
ذوالفقار چیمہ کا پورا خاندان پشتینی مسلم لیگی ہے۔ بڑے بھائی جسٹس (ر) افتخار چیمہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایم این اے ہیں‘ مگر مسلم لیگ کے دور حکمرانی میں میرٹ اور گڈگورننس کے رسیا میاں شہبازشریف نے انہیں آئی جی پنجاب کے طور پر قبول کیا‘ نہ چودھری نثار علی خان نے انہیں ایف آئی اے یا اسی طرز کے کسی متحرک و مؤثر ادارے کا سربراہ لگنے دیا اور نہ آئی جی سندھ کے طور پر زرداری صاحب اور ان کے حلیفوں نے ہضم کیا۔ بالآخر موٹروے پر قانون نافذ کرتے کرتے ریٹائر ہو گئے۔
عبدالرحمن میاں نے ڈاکٹر حسن عباس کا ذکر کیا ہے جو ان دنوں امریکہ کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں اور اس بات پر شکر ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے چند ماہ بعد سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ دیا ۔عبدالرحمن میاں نے محمد علی نیکوکارا کا حوصلہ بڑھایا ہے کہ وہ امریکہ اور دوسرے ممالک کی جامعات سے رجوع کریں جو ایسے اصول پسند اور اپنے ذہن سے سوچنے والے افسروں اور افراد کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مجھ سے نیکوکارا کا رابطہ نمبر مانگا مگر شاید انہیں معلوم نہیں کہ میں آج تک اس نام کے کسی پولیس افسر سے ملا‘ نہ فون پر رابطہ ہوا اور نہ ذاتی تعلقات کی بنا پر کسی کے حق میں یا خلاف لکھنے کی عادت ہے ؎
کہتا ہوں وہی بات‘ سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلۂ مسجد ہوں‘ نہ تہذیب کا فرزند
پاکستان کی بیوروکریسی کے خلاف پروپیگنڈا بہت ہوا۔ بعض مالشیے سرکاری افسروں نے حکمرانوں کی مدح سرائی‘ خدمت گزاری اور اطاعت شعاری میں صرف قاعدے قانون کی مٹی پلید نہیں کی بلکہ شرف انسانیت کی توہین کے مرتکب بھی ہوئے۔ یہ بحث آج تک جاری ہے کہ کرپشن کی لت بیوروکریسی نے حکمرانوں کو لگائی یا حکمرانوں نے بیوروکریسی کو؛تاہم قائداعظمؒ اور لیاقت علی خان کو قیام پاکستان کے وقت برطانوی سول سروس کے تربیت یافتہ جو بیوروکریٹس ورثے میں ملے انہوں نے محنت‘ دیانت‘ اصول پسندی اور خدمت خلق کے ریکارڈ قائم کیے۔
قائداعظمؒ دو بیوروکریٹس ملک غلام محمد اور چودھری محمد علی پر اسی سبب اعتماد کرتے تھے۔ 1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے سردار عبدالرب نشتر اور راجہ غضنفر علی خان کی موجودگی میں ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کا منصب پیش کیا جو ایک بیوروکریٹ کی اہلیت و صلاحیت اور اپنی کم مائیگی و عاقبت نااندیشی کا برملا اعتراف تھا۔ سیاسی حوالوں سے ملک غلام محمد اور چودھری محمد علی پر تنقید ہو سکتی ہے ،بار بار ہوئی ہے مگر ان کی دیانت و امانت اور قاعدے قانون پر ڈٹ جانے کی خوبی سے انکار ممکن نہیں۔
الطاف گوہر ہماری تاریخ کا ایک متنازع کردار ہے مگر اس نے کراچی میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے طور پر مسلم لیگ کو جلسہ کرنے کی اجازت دے دی اور بعد میں درخواست آنے پر وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے جلسہ کے لیے درخواست منظور نہ کی۔ سہروردی نے انا کا مسئلہ بنایا نہ الطاف گوہر نے وزیراعظم کی خوشنودیٔ طبع کے لیے اپنے احکامات منسوح کیے۔ وزیراعظم یوم پاکستان کے موقع پر ڈھاکہ چلے گئے تاکہ کوئی یہ سوال نہ اٹھائے کہ دارالحکومت میں موجودگی کے باوجود وزیراعظم نے یوم پاکستان کی کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ اب اہم قومی دنوں پر اعلیٰ ریاستی عہدیدار اور ان کے ساتھی بالعموم سیر و تفریح میں مصروف ہوتے ہیں یا کھابوں میں مگن ۔
مغربی پاکستان کے ایک چیف سیکرٹری حافظ عبدالمجید گلبرگ سے سول سیکرٹریٹ بائیسکل پر آتے جس کے ہینڈل پر کھانے کا ٹفن لٹک رہا ہوتا۔ ایم ایچ صوفی نام کے ایک اعلیٰ افسر کی اصول پسندی اور جرأت رندانہ کا یہ عالم تھا کہ میں نے ان گناہگار آنکھوں سے مولانا عبدالستار خان نیازی ؒایسے دبنگ و دلیر انسان کو فون پر بات کرتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار دیکھا جو ایوب خان‘ نواب آف کالاباغ اور ضیاء الحق کو کبھی خاطر میں نہیں لائے۔
بیوروکریسی پر زوال کی درجنوں وجوہ ہوں گی مگر آغاز اس وقت ہوا جب ایوب خان کے دور میں سول بیوروکریسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی سوچ پروان چڑھی‘ محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابی شکست سے دوچار کرنے اور کنونشن مسلم لیگ کو ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے گراس روٹ لیول پر متعارف کرانے کی ذمہ داری انتظامیہ و پولیس کو سونپی گئی۔ فیلڈ مارشل کے ایک لاڈلے نے ہر ڈپٹی کمشنر کو کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی سیکرٹری جنرل نامزد کرنے کی تجویز پیش کی۔ یوں اعلیٰ سروس سیاست زدہ ہوتی گئی اور دیانتدار‘ جرأت مند‘ با اصول اور قاعدے قانون کے پابند افسر ایک ایک کر کے بیوروکریسی سے کنارہ کش ہونے لگے۔ بھٹو دور میں ایک ضلع کے افسر کو ہتھکڑیاں لگیں۔ لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل نے انتخابی دھاندلی کے ذریعے وزیراعظم کی خوشنودی حاصل کرنی چاہی جس کا ذکر رائو رشید نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
ضیاء الحق کے دور میں خوشامدی بیوروکریٹس وضو کے بغیر نماز پڑھ کر حکمران کو خوش کرتے جبکہ میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں تو ہر افسر کے ماتھے پر لکھا ہوتا کہ یہ کس کا حامی اور کس کا مخالف ہے۔ یہ اور بات کہ حکومت بدلتے ہی ان میں سے اکثر کا قبلہ تبدیل ہو جاتا اور نئے حکمران خوش دلی سے ان فصلی بٹیروں اور مرغ بادنما افسروں کی پذیرائی کرتے۔ پولیس اور انتظامیہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ سورج مکھی نسل کے یہ بے اصول‘ بے ضمیر اور چاپلوس سرکاری افسران ریاست کی چولیں ہلا دیں گے جبکہ دیانتدار‘ فرض شناس‘ دلیر اور ریڑھ کی ہڈی کے مالک افسران ملک و قوم کا اثاثہ اور ہمارے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہیں جنہیں حیلوں بہانوں سے تنگ کرنے کا مطلب پاکستان کو کیچوئوں کے سپرد کرنے کے مترادف ہے۔ رینگنے والے کیڑے۔
مگر جن حکمرانوں کا مقصد ہی کیچوئوں کی نسل اور سورج مکھی کی پنیری تیار کرنا ہو ان سے گلہ کیسا؟ ڈاکٹر صفدر محمود گھر بیٹھے بیٹھے ریٹائر ہو گئے‘ ذوالفقار چیمہ کسی صوبے کے آئی جی نہ لگ سکے‘ شاہد حیات نے کراچی میں دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کا ناطقہ بند کیا تو راتوں رات تبدیل ہو گئے۔ کئی دوسرے اچھی پوسٹوں سے محروم ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کا خواب کیسے پورا ہو! قائداعظم کے پاکستان کو معلوم نہیں کس کی نظر لگ گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں