فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟

یمن میں ایک قبائلی نوعیت کی جنگ اقتدارنے اُمہ کو تاریخ کے نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔سعودی عرب نے ایران کی طرف سے حوثیوں کی درپردہ مالی و اسلحی اطلاعات کی بنا پر براہ راست فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا اور یمن کی اندرونی لڑائی پہلے خطے اور اب پورے عالم اسلام کی بنتی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان چونکہ سعودی عرب کا حلیف اور احسان مند ہے‘ ہر سنگین بحران اور ناقابل برداشت صورتحال میں برادر اسلامی ملک نے پاکستان اور اس کے حکمرانوں کی مدد کی اس لیے اب بجا طور پر ہم سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ہم بھی احسان شناسی کا ثبوت دیں اور یمن میں صدر ہادی کی حکومت بحال کرانے کے لیے سعودی عرب کی بری‘بحری ‘ فضائی فوج کے ساتھ مل کر صنعا‘ عدن اور دیگر شہروں کو حوثی قبائل سے واگزارکرائیں جو کم ہمت اور مستعفی صدر ہادی کے فرار کی وجہ سے مخالفوں کے پاس ہیں۔
اس بحث کا اب وقت ہے نہ فائدہ کہ ہادی اور ان کے ساتھی اپنے اقتدار کا دفاع خود نہ کر سکے۔ اپنے ساتھیوں اور عوام کو حوثیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھاگ گئے اور جدہ کے کسی سرور محل میں‘ بیٹھے اپنے میزبانوں اور ان کے حلیفوں کی فوجی مداخلت کے بل بوتے پر بحفاظت وطن واپسی اور اقتدار کے ایوانوں میں فاتحانہ داخلے کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر پاکستان میں بعض عناصر ان کے غم میں دبلے ہو رہے ہیں اور سعودی عرب کے احسانات یاد دلا کر ایک نیو کلیئر اسلامی ریاست کو اس جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں جو پاکستان اور سعودی عرب کے تو خیر کیا مفاد میں ہو گی عالم اسلام کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ سپین کے آخری حکمران شاہ عبداللہ دارالحکومت سے نکلے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، ماں نے ڈانٹا''مردوں کی طرح اپنے ملک کا دفاع نہ کرنے والے کو عورتوں کی طرح آنسو بہانے کا حق نہیں‘‘۔
دس گیارہ سال قبل امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے تجزیہ نگار تھامس فرائیڈ مین نے 9/11کے بعد افغانستان اور عراق میں جاری صلیبی جنگوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ
We Don`t Want A War with Islam, We Want A War Within Islam
(ہم اسلام کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ ہم اسلام کے اندر جنگ چاہتے ہیں)
تھامس فرائیڈ مین نے جب یہ بات کہی تو اسلام کے اندر جنگ کو شروع ہوئے کئی برس گزر چکے تھے عرب و عجم کی کشمکش‘ شیعہ سنی کا تنازع اور افغانستان‘ لبنان‘ مصر‘ شام‘ عراق اور دیگر ممالک میں مظلوم مسلمانوں کی اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے ہاتھوں کبھی بحیلۂ مذہب‘ کبھی بنام وطن لگنے والے زخم، اسلام کے اندر جنگ نہیں تو اور کیا ہیں؟
ایران میں شہنشاہیت کے خلاف عوامی انقلاب آیا‘ عالمی استعمار کے سب سے بڑے ایجنٹ کا بوریا بستر گول ہوا اور ایران بھر میں لاشرقیہ‘ لاغربیہ‘ اسلامیہ جمہوریہ کے گونجنے لگے تو امریکہ و سوویت یونین کے ساتھ عالم اسلام کے آمروں اور جابروں نے بھی آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس عوامی انقلاب کے خلاف عالم عرب کو غیر مستحکم کرنے اور شیعہ انقلاب برآمد کرنے کی دہائی دی گئی۔ بات نہ بنی تو صدام حسین کو فوجی جارحیت پر آمادہ کیا گیا اور اس وقت تک یہ عناصر مطمئن نہ ہوئے جب تک ایران اور عراق کی مشترکہ فوجی قوت ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر کمزوری میں نہ بدل گئی۔ اسی صدام نے جب کویت پر چڑھائی کی تو جارح ٹھہرا مگر ایران کے مدمقابل وہ امریکہ و یورپ اور عالم عرب کا ہیرو تھا۔ایران تو آج بھی اپنے پائوں کھڑا ہے مگر صدام حسین اور عراق کا جو حشر ہوا وہ عبرت کی جاہے تماشہ نہیں ہے۔ عبرت کسی نے نہیں پکڑی۔ پھر وہی عرب، عجم کا جھگڑا اور شیعہ سنی کی رٹ۔
ایران عراق جنگ میں بھی ہم پر دبائو تھا کہ ہم عرب،عجم اور شیعہ سنّی کی بنیاد پر عراق کا ساتھ دیں ۔ایرانی قیادت پاکستان کی فوجی حکومت کو امریکی پٹھو سمجھتی تھی مگر ہم غیر جانبدار رہے۔ عراق کویت تنازع میں بھی ہمارا کردار مصالحانہ رہا۔ اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہم عراق کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ نہ بن پائے ۔ آج ہمیں ان فیصلوں پر فخر کرتے ہیں ورنہ ہمارے مہربان اس وقت بھی غیر جانبداری ترک کر کے تنازع کا حصہ بنانے پر تُلے تھے۔
ہم بھول جاتے ہیں ' ہمارے دشمن کبھی نہیں بھولتے کہ سوویت یونین کی شکست کے بعد مغربی تہذیب اپنے آپ کو ہر طرح سے محفوظ اور مستحکم کبھی نہیں سمجھ سکی۔ نکسن‘ ہنٹگٹن اور یوکوفامانے اسلامی تہذیب کو کمیونزم سے بڑا خطرہ قرار دے کر امریکہ و یورپ کو اس کے مکمل سدباب پر آمادہ کیا۔ ظاہر ہے کہ بادشاہت ‘ آمریت، ملوکیت اورکٹھ ملاّئیت کی علمبردار تہذیب اسلامی ہو سکتی ہے نہ کسی دوسری تہذیب کے لیے خطرہ ۔البتہ عوامی انقلاب اور اس کے بطن سے وجود میں آنے والے، اسلام کے جمہوری فلاحی نظام کا تجربہ اگر کسی ایک ملک میں بھی کامیاب ہو گیا تو وہ سرمایہ داری و استعماری نظام کے لیے خطرہ ہو گا ۔اس بنا پر 9/11کے بعد سے اسلام کے اندر جنگ برپا کرنے کی خواہش مزید بڑھ گئی ہے۔
مسلمان اگر مسلک ‘ علاقے‘ رنگ‘ نسل ‘ اور زبان کی بنیاد پر منقسم اور برسر پیکار ہوں تو اسلامی ممالک میں تیل و گیس کے ذخائر ‘ سونے چاندی کے پہاڑ اور جدید اسلحے سے لیس افواج کسی دوسرے کے لئے خطرہ، نہ او آئی سی اور عرب لیگ کسی کی سیاسی مدمقابل۔ صفر جمع صفر مساوی صفر۔ یہی حالت باہم جنگوں میں مصروف مسلمان ممالک کی ہے۔ کھجور کی گٹھلی کے برابر اسرائیل کے سامنے امریکی اسلحے اور تیل و گیس‘ سونے چاندی کے ذخائر سے لیس عرب ممالک روئی کا گالا ہیں جو اسرائیل سے آنکھ ملاتے شرماتے ہیں مگر ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ اور دنیا بھر کی مدد لینے کے لیے تیار۔
یمن کے تنازع میں پاکستان کو الجھانے کا مطلب مسلمانوں کی واحد نیو کلیئر پاور کو ایک بار پھر نئی پراکسی وار کی دلدل میں دھکیلنے اور پاکستان میں شیعہ سنی آگ بھڑکانے کے مترادف ہے۔ اغیار کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں شیعہ سنی اختلافات نے خانہ جنگی کی صورت اختیار نہیں کی۔ دونوں فرقوں کے عسکریت پسند گروہوں کی لڑائی کو کسی مسلک نے بھی اپنی لڑائی سمجھا نہ اس کا حصہ بنے یہی وجہ ہے کہ لاہور کے موچی دروازہ‘ اسلام پورہ‘ کبیر والا اور جھنگ میں دونوں فرقے امن و آشتی سے رہتے اور دہشت گردی کے واقعات میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہمارے کسی غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان یمن کی جنگ کا فریق بنا تو یہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں کے لیے خطرناک صورتحال ہو گی۔ شاید اسلام کے اندر جنگ کا تباہ کن نقطہ آغاز۔ ہماری قومی دانش و بصیرت دوراہے پر کھڑی ہے اور اسلام کے اندر جنگ کو روکنے کا دارو مدار ہماری قومی سیاسی و فوجی قیادت کے فیصلے پر ہے ہم جنگ اور تنازع کا حصہ ہیں یا مصالحت و ثالثی کا؟؎
دل کی آزادی شہنشاہی ‘شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یاشکم؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں