مُعلّق

سابق وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کا اللہ بھلا کرے۔ سینتیس سال بعد سچ اگل ہی دیا کہ 1977ء کے غیر شفاف انتخابات کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ملک پر مارشل لاء کے اندھیرے دس گیارہ سال تک چھائے رہے۔ ملک گوناگوں مسائل کا شکار ہوا۔
جوڈیشل کمشن کی تشکیل جن حالات میں ہوئی سب جانتے ہیں۔ حکومت نے دھرنا ختم ہونے کے بعد بھی دو اڑھائی ماہ تک ''میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگائے رکھی۔ کبھی بہانہ کہ ہم کمشن بنانا چاہتے ہیں سپریم کورٹ تیار نہیں۔ کبھی یہ عذر کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ کمشن کی سربراہی فرمائیں یہ تو عدالتی اختیارات میں مداخلت اور نِری توہین عدالت ہے اور کبھی یہ تکرار کہ پینتالیس دنوں میں کام مکمل کرنے کی استدعا آئین کے منافی ہے۔
مگر جب بالآخر عدالت عظمیٰ کو درخواست کی گئی تو ایک دن میں جوڈیشل کمشن بن گیا۔ چیف جسٹس نے سربراہی قبول کی اور پینتالیس دن میں رپورٹ پیش کرنے پر آمادگی بھی۔ جوڈیشل کمشن کے سامنے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں کیا شواہد اور دستاویزی ثبوت پیش کرتی ہیں‘ اگلے چند دنوں میں پتا چلے گا۔ یہ ان کی قانونی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ہے مگر کمشن کے قیام سے پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔ تماشہ ہو نہ ہو خبر یہی گرم ہے کہ الیکشن 2013ء کے پرزے خوب اڑیں گے۔
2013ء کے انتخابی نتائج قبول کرنے والی کم و بیش ہر اہم جماعت کمشن میں استدعا لے کر گئی ہے کہ ''می لارڈ! خوب دھاندلی ہوئی‘‘ کسی کو ریٹرننگ افسروں سے گلہ ہے، کوئی پولیس اور انتظامیہ کی کسی نہ کسی جماعت یا امیدوار سے ملی بھگت کا رونا رو رہا ہے اور کسی کو براہ راست الیکشن کمشن سے شکایت ہے۔ ایک بات پر سب کا اجماع ہے جدید سیاسی لغت میں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے کہ دھاندلی ہوئی اور مینڈیٹ چرایا گیا۔ 1977ء میں بھی پیپلز پارٹی کے سوا سب کا یہی موقف تھا۔ حفیظ پیرزادہ 1977ء میں وفاقی وزیر تھے۔
یہ فرق البتہ ضرور رہا کہ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے روز اول انتخابی نتائج کو قبول کرنے اور جعلی اسمبلی میں بیٹھنے سے انکار کیا۔ صوبائی انتخاب کا بائیکاٹ اس قدر موثر تھا کہ پولنگ سٹیشنوں پر اُلّو بولتے نظر آئے‘ جبکہ عمران خان اپنی علالت اور ان کے قریبی ساتھی ذاتی و سیاسی مصلحتوں کے علاوہ ناتجربہ کاری کے سبب بروقت دھاندلی کا شور مچا سکے‘ نہ اسمبلیوں کا بائیکاٹ اور نہ جوڈیشل کمشن کا مطالبہ کر سکے۔ جب شور مچایا تو مخالفین نے 'کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ کی پھبتی کسی۔
1977ء اور 2013ء کے انتخابات میں فرق صرف پی این اے اور تحریک انصاف کے طرز عمل کا نہیں‘ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور میاں نواز شریف کے علاوہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل راحیل شریف کے مزاج کا بھی ہے۔ میاں نواز شریف نے دبائو پر‘ خاطر سے یا لحاظ سے یہ مان لیا کہ انتخابی دھاندلی کی تفتیش کرائی جائے اور رپورٹ آنے تک میں وزیر اعظم رہوں گا۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری اگست میں یہ بات مان لیتے تو اب تک پنجابی محاورے کے مطابق '' کٹی‘ کٹا‘‘ نکل آتا اور ہم نئے انتخابات یا موجودہ حکومت کے استحکام کا مرحلہ طے کر رہے ہوتے مگر دیر آید درست آید۔ اگلے ایک ہفتے میں سیاسی جماعتوں کے پیش کردہ شواہد سے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔
پاکستان میں انتخابی عمل ہمیشہ شکوک و شبہات کا شکار رہا۔ مگر1977ء کی طرح 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی نہیں ''دھاندلا‘‘ ہوا۔ پچاس کے عشرے میں مسلم لیگ کی حکومت نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے علاوہ ریاست بہاولپور میں انتخابات کرائے تو کہا گیا کہ ''جھرلو‘‘ پھیرا گیا۔ اپنی انہی حرکتوں کی وجہ سے مسلم لیگ کمزور اور جمہوریت غیر مستحکم ہوئی‘ جس کا فائدہ غیر جمہوری غیر سیاسی قوتوں نے اٹھایا۔ اب بھی اگر ملک میں مضبوط، مستحکم اور پائیدار جمہوریت و فعال حکومت درکار ہے تو شفاف انتخابی عمل کے بغیر ممکن نہیں کہ اخلاقی ساکھ سے محروم کوئی حکومت ریاست کے سنگین مسائل حل کر سکتی ہے نہ عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی کارنامہ انجام دینے کے قابل۔
کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں کے حالات تو خیر عرصہ دراز سے ابتر تھے‘ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال اب بگڑنا شروع ہوئی ہے اور یہ سارا کیا دھرا اس طرز حکمرانی کا ہے جس میں ریاست سے زیادہ سیاست اور سیاست سے زیادہ خاندان عزیز ہے۔ میاں شہباز شریف کی حکمرانی پر دوسرے صوبے رشک کرتے تھے مگر اب وہ وفاقی دارالحکومت اور غیر ملکی دوروں کو زیادہ وقت دیتے ہیں حتیٰ کہ خارجہ امور بھی نمٹانے لگے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز اور وزیر خارجہ سعودالفیصل سے ملاقات اور تلافی ٔ مافات ان کی ذمہ داری ہے۔ کیا یہ اعزاز اب تک کسی دوسرے وزیر اعلیٰ کو حاصل ہوا یا کبھی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو مل سکتا ہے؟ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہفت زبان، متحرک اور پُرجوش شہباز شریف کو وزیر خارجہ کا قلمدان سونپ دیا جاتا مگر امور مملکت خویش خسرواں دانند۔
ناقص طرز حکمرانی اور سُست الوجود انداز فیصلہ سازی کے سبب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کا معاملہ پارلیمنٹ میں اچھلا اور ایک ایسی شتر گُربہ قرارداد منظور ہوئی جس کا کوئی سر پیر نہیں۔ حکومت اسے اون کرتی ہے تو قریبی دوست سے تعلقات بگڑتے ہیں۔ کوڑے دان میں پھینکتی ہے تو آصف علی زرداری سے لے کر عمران خان تک جھگڑتے ہیں‘ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ شہباز شریف برادر بزرگ کی ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنے کے لیے حجاز مقدس سدھارے؛ تاہم لگتا یوں ہے کہ بالآخر میاں صاحب کو خود آرمی چیف کے ہمراہ ریاض کا رخ کرنا پڑے گا اور شاید سجدہ سہو کی نوبت آئے جو ایک نیوکلیئر ریاست کے شایان شان تو نہیں مگر حکمران اشرافیہ نے ایک نیوکلیئر ریاست کو اس قابل چھوڑا ہی کب ہے کہ وہ کوئی نخرہ دکھا سکے۔
بات جوڈیشل کمشن سے چلی تھی‘ خارجہ پالیسی تک پہنچ گئی۔ پچھلے سال کے آخری چار مہینے دھرنا کی نذر ہوئے اب اگلے چالیس پینتالیس روز تک کمشن چلے گا اور وفاقی سیکرٹریٹ سے لے کر نچلی سطح کے سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں کمشن کی کارروائی اور حکومت کا مستقبل زیر بحث رہے گا۔ کرکٹ کا میچ ہو تو ہم کام نہیں کرتے کہ ہار جیت کا فیصلہ ہونے دیں‘ یہ تو حکومت اور پارلیمنٹ کے مستبقل کا سوال ہے۔ کام چوروں کو اچھا بہانہ مل گیا ہے اور سیکرٹریوں کو فائلیں لٹکانے کا معقول جواز۔ جب یہ معلوم نہیں کہ کمشن کا فیصلہ کیا ہو گا؟ یہ حکومت جائز بھی قرار پائے گی یا نہیں تو کوئی سرکاری افسر مُعلّق حکومت کے احکامات پر عملدرآمد کی غلطی کیوں کرے گا۔ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔
پیر علی محمد راشدی نے روداد چمن میں گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایوب حکومت کے استحکام میں ان کا کردار نمایاں تھا۔ نواب صاحب فخریہ بتاتے کہ میں نے مغربی پاکستان کی نوکر شاہی کو نتھ ڈال دی ہے انہیں اپنے کام سے کام رکھنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ حکمران کے خلاف سازش کرنے کے قابل ہے نہ عوامی مسائل کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں۔ بیوروکریسی کو کھلی چھوٹ ملے تو پھر وہ حکمرانوں کو خوشامد، غلط مشوروں اور تباہ کن اقدامات کے ذریعے ناکامی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے اس وقت پاکستان میں صورتحال ایوب خان کے آخری دنوں سے زیادہ خراب ہے۔
وزیر داخلہ‘ اماراتی وزیر ڈاکٹر انور قرقاش کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے حکمرانوں سے مذاکرات وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذمہ داری ہے اور پارلیمنٹ میں دفاع اور خارجہ امور سے متعلقہ قرارداد وزیر خزانہ پیش کرتے اور منظور کراتے ہیں‘ مشیر خارجہ محض ''سٹپنی‘‘ ہیں‘ بہ وقت ضرورت استعمال کے لیے موجود۔ یہ سب کچھ اس ریاست میں ہو رہا ہے جو اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے قتل و غارت گری کا شکار اور جہاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بااختیار کمشن مینڈیٹ چوری کا مقدمہ سن رہا ہے۔ جوڈیشل کمشن کی رپورٹ اور اس پر حتمی فیصلہ تو چند ہفتوں بعد آئے گا‘ فی الحال یار لوگوں کو بحث مباحثے اور توتکار کا بہترین موضوع مل گیا ہے۔ خبروں کی بہتات ہے کراچی، لندن، اسلام آباد میں ہر جگہ گرما گرم خبریں اور خوب تھکا فضیحتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں