بچپن سے علماء کرام ہی نہیں‘ ہمارے دانشوروں اور سیاستدانوں نے بھی ہمیں یہ باور کرایا کہ لا اکراہ فی الدین (دین میں کوئی جبر نہیں)۔ روشن خیال اور مغرب سے مرعوب حکمران‘ سیاستدان اور دانشور آیت کا ورد عموماً اس وقت کرتے ہیں جب ان سے ارکانِ اسلام کی پابندی اور طرز عمل میں تبدیلی کا تقاضا کیا جائے مگر میاں نواز شریف کے روشن خیال عہد میں یہ آیت کریمہ وزارت مذہبی امور کو یاد رہی نہ اتحاد امت کے پرچارک علماء کرام کو اور نہ فرد کی آزادی کے علمبردار دانشوروں کو۔
قرآن مجید‘ احادیث رسولؐ اور عہد نبویؐ میں کسی شہر‘ قصبہ اور گائوں کے مسلمانوں کو عید‘ جمعہ یا پنجوقتہ نماز ایک ہی وقت میں پڑھنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ اوقات نماز میں بھی عامتہ الناس کی سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے مگر وزارت مذہبی امور نے فیصلہ کیا ہے کہ فوری طور پر وفاقی دارالحکومت میں اور پھر بتدریج پورے ملک میں ایک ہی وقت میں اذان اور نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے‘ تاکہ وحدت امت اور قومی اتفاق رائے کا تاثر ابھرے اور نظام صلوٰۃ کے قیام کی دینی ضرورت پوری ہو۔ یہ فیصلہ اس حکومت نے کیا ہے جو ابھی تک تاجروں سے مقررہ وقت پر دکانیں اور کاروباری مراکز کھلوانے اور بند کرانے میں ناکام نظر آتی ہے اور اس کی منت سماجت کو کمزوری سمجھ کر تاجر تنظیمیں احتجاج اور ہڑتالوں پر اتر آئی ہیں۔
پاکستان میں قیام پاکستان سے اب تک کئے جانے والے سیاسی‘ اقتصادی‘ سماجی اور مذہبی تجربات چیستان سے کم نہیں۔ ہر حکمران اور اس کے چیلے چانٹوں نے نت نیا تجربہ کر کے قوم کا وقت اور بسا اوقات کثیر سرمایہ ضائع کیا۔ پورے ملک میں ایک دن نماز عید اور اب ایک ہی وقت میں نماز کی ادائیگی انہی تجربات میں سے ایک ہے جس کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ قومی اتحاد کا تاثر ابھرے گا اور اتفاق و یکجہتی کا جذبہ پروان چڑھے گا۔
بلا شبہ بعض مسلم ممالک میں یہ اہتمام کیا گیا ہے لیکن ایک تو ایسے ممالک میں شہروں کی آبادی کم ہے‘ بڑے سے بڑے شہر کی آبادی چھ سات لاکھ‘ دوسرے وہاں عوام سے پوچھ کر اور ان کی سہولت کے پیش نظر کوئی فیصلہ کرنے کا رواج نہیں‘ تیسرے اوقات نماز میں کاروبار بند ہوتا ہے اور ٹریفک ساکت اور چوتھے وہاں اتحاد و یکجہتی کی فضا صرف شعائر اسلام کی بیک وقت ادائیگی سے پیدا نہیں کی جاتی بلکہ ان ممالک میں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں اور فقہی مکاتب فکر کا وجود بھی عنقا ہے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا رواج ہے۔ یہ تو بدگمانی ہو گی کہ ان ممالک میں رائج طریقہ کار کو سیاست کا شاخسانہ قرار دیا جائے لیکن ان ممالک کے تجربے کو پاکستان جیسے ملک میں دہرانا شاید اتحاد کے بجائے مسائل میں اضافے کا سبب بنے۔
کسی شہر اور ملک کے عوام کا ایک ہی وقت میں نماز ادا کرنا شرعی و فقہی تقاضہ ہے‘ نہ اس سے اتحاد و یکجہتی کو فروغ مل سکتا ہے۔ جب مختلف مساجد میں مختلف مسالک کے علماء اور واعظین اپنے اپنے مسلک اور فرقے کو برحق اور دوسرے کو باطل‘ کہیں بدعتی‘ کہیں مشرک اور کہیں گستاخ رسولؐ و گستاخ اہل بیت قرار دینے میں مصروف ہوں تو ان سب کا ایک وقت میں نماز پڑھ لینا اتحاد و یکجہتی کی کونسی علامت قرار پائے گا۔ یہ وزیر مذہبی امور سردار یوسف خان اور وزیر مملکت پیر امین الحسنات شاہ کے سوچنے کی بات ہے۔ ذہنوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے اور دلوں کو جوڑنے کے بجائے محض ایک وقت میں نماز کی ادائیگی پر اصرار؟
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی‘ تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا‘ تجھے کیا ملے گا نماز میں
کیا فرماتے ہیں فرقے اور مسلک کا بُت بغل میںدبا کر اتحاد و یکجہتی کی تلقین فرمانے والے آئمہ و خطبا بیچ اس مسئلہ کے۔
پاکستان میں فرقہ واریت اور مسلکی اختلافات نے قوم کو انتشار اور افتراق میں مبتلا کیا جس کا تدارک ضروری ہے لیکن یہ قوم صرف فرقوں اور مسالک میں ہی تقسیم نہیں‘ یہاں زبان‘ نسل ‘ علاقے ‘ صوبے اور ذات برادری کے تعصبات کی بنا پر تقسیم اور تفریق کہیں زیادہ گہری ہے اور یہ کارنامہ علماء و خطباء نے نہیں‘ ہمارے سیاستدانوں‘ دانشوروں اور سول و فوجی حکمرانوں نے انجام دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی کثرت ‘ نظام و نصاب تعلیم میں تفریق‘ سماجی و معاشی اونچ نیچ اور لوٹنے و لٹنے والوں کے حقوق و مراعات میں بے جا تفاوت سے قومی اتحاد و یکجہتی پارہ پارہ ہے اور ہندوانہ طرز کے برہمن‘ شودر پر مبنی طبقاتی نظام سے اتفاق و یگانگت مفقود۔ صرف ایک ہی وقت میں اذان دینے اور نماز پڑھنے سے یہ قوم بنیان مرصوص کیسے بنے گی؟ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاسی جماعتوں کے خلاف اسی طرح کے دلائل تراشے گئے اور عوام کو ایک ہی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی ترغیب دی گئی۔ اب بھی اگر قومی اتحاد و یکجہتی اس قدر عزیز ہے تو کیوں نہ مسالک اور فرقوں کے ساتھ سیاسی پیری مریدی یعنی نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی و دیگر کا دھندا بند کر کے ایک جماعت کی لڑی میں سب کو پرو دیا جائے جس کی سربراہی کے لیے ایک موزوں نام میرے ذہن میں ہے جس پر سب متفق ہو سکتے ہیں اور وہی ان دنوں قومی اتحاد و اتفاق کی علامت نظر آتے ہیں ۔ ان کے سامنے محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور بندہ و بندہ نواز میں فرق نظر نہیںآتامگر یہ پھر سہی۔
معاشرے میں فکری انتشار ‘ ذہنی خلفشار اور تنازعہ و اختلاف جتنا فرقہ پرست مولوی نے پیدا کیا اس سے کہیں بڑھ کر مفاد پرست سیاستدانوں کی مہربانی ہے جو صبح‘ دوپہر‘ شام عوام میں تفرقہ پیدا کرتے اور اقتدار، اختیار، وسائل سے محظوظ ہوتے ہیں۔
مختلف علماء کرام نے بیک وقت نماز کی ادائیگی پر آمادگی میں کن مصالح کو مد نظر رکھا اور اسے کس طرح اتحاد امت کا پیمانہ سمجھ لیا؟ معلوم نہیں۔ ''دین آسان ہے‘‘ اور اپنے ماننے والوں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ مختلف اوقات میں نماز کی ادائیگی کا فائدہ یہ ہے کہ کوئی شخص اگر عذر شرعی اور ناگزیر ضرورت کی بناء پر ایک مسجد میں با جماعت نماز ادا نہ کر سکے تو وہ دوسری مسجد میں پڑھ لے۔ نماز جمعہ انفرادی طور پر ادا ہی نہیں ہو سکتا اور تمام مساجد میں بیک وقت ادائیگی سے کثیر تعداد محروم ہو سکتی ہے۔ اگر ایک ہی وقت میں نماز کی ادائیگی دین کا تقاضہ اور شارع علیہ السلام کا منشا ہوتا تو قرآن مجید نہ سہی‘ کسی حدیث میں جمعہ‘ ظہر‘ عصر اور عشاء کے اوقات واضح طور پر درج ہوتے اور کلمہ گو چاردانگ عالم میں پابندی کرتے۔
مساجد میں بیک وقت نمازوں کے قیام سے ٹریفک اور سکیورٹی کے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ کراچی، لاہور، ملتان جیسے بڑے شہروں میں نماز سے قبل ٹریفک جام کے سبب لوگ ادائے فرض سے محروم ہو سکتے ہیںکیونکہ ایک ہی وقت میں لوگ گھروں‘ دکانوں‘ دفتروں سے نکل کر مساجد کا رخ کریں گے تاکہ با جماعت نماز ادا کر سکیں۔ یوں اس رش کو سنبھالنا سہل پسند پولیس کے لئے مشکل ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حق مہر پر پابندی لگانا چاہی تو ایک خاتون نے ان کی بات سننے اور ماننے سے انکار کر دیا اور کہا میں ایک ایسے شخص کی بات کیوں سنوں جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے عطا کردہ حق سے خواتین کو محروم کر دیا ہے۔
مسلمانوں کو نماز جمعہ و پنجگانہ‘ سہولت اور آسانی سے ادا کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے جسے پاکستان کی وزارت مذہبی امور قومی اتحاد کے بہانے تنگی اور مشکل میں بدلنے کے در پے ہے۔ صرف نمازوں کی بیک وقت ادائیگی پر اصرار کیوں؟ اور بھی تو بہت کچھ ہو سکتا ہے مثلاً فرقہ واریت کا خاتمہ‘ قوم کو سیاست‘ نسل‘ زبان اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی ممانعت اور قوم کو صبح جلد جاگنے اور رات کو جلد سونے کا پابند بنانا جو ذہن کا منشا‘ طبّی تقاضہ اور سماجی ضرورت ہے۔ مگر یہ کرنے کے لیے جو عزم‘ حوصلہ اور دور اندیشی چاہیے وہ کہاں سے لائیں۔ تاجر رات آٹھ بجے دکانیں بند کرنے پر آمادہ نہیں‘ شاید ''اسلام میں جبر نہیں‘‘ کا قرآنی حکم تاجروں کے لئے مناسب اور دین صرف حکمران اشرافیہ کے لئے آسان ہے۔ اجتہاد‘ جدّت اور اختراع ہمارے بس میں نہیں تو کیوں نہ نقل سے کام چلایا جائے ۔ نماز صلوٰۃ قائم ‘ تاجرمطمئن اور وہ ممالک خوش جہاں یہ سلسلہ جاری ہے۔ اللہ کرے یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ ناکام تجربے تو ہم بہت کر چکے۔