چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں‘ ہم نہ کہتے تھے

ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں تھانہ ماچکہ کی پولیس چوکی پر مسلح دھاوا اور سات پولیس اہلکاروں کا اغوا میڈیا کے لیے خبر ہے‘ سرائیکی عوام کے لیے روز مرہ کا معمول۔ رحیم یار خان‘ راجن پور‘ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے سرائیکی اضلاع میں ڈاکوئوں‘ اغوا کاروں اور بھتہ خوروں نے عرصۂ دراز سے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے اور روجھان کے علاقہ سے پولیس اہلکار پہلے بھی اغوا ہو چکے ہیں، جو ایک بااثر جاگیردار کے ذریعے مبینہ طور پر تاوان دے کر چھڑائے گئے تھے۔ پولیس انتظامیہ اور حکومت نے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا، مگر ڈاکوئوں کے خاتمے کے لیے حتمی آپریشن کبھی نہیں ہوا۔
ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان کے اضلاع تمنداروں‘ جاگیرداروں اور ڈاکوئوں نے آپس میں بانٹ رکھے ہیں۔ لغاری‘ مزاری‘ دریشک ‘ گورچانی‘ کھوسہ‘ مخدوم جاگیرداروں کے مقبوضہ علاقوں کی طرح علی بازگیر‘ چھوٹو مزاری‘ مرید انکانی اور سلطوشرگینگ کے ٹھکانوں کا بھی علاقے کے ہر خورد وکلاں کو علم ہے۔ علاقے کا ہر باسی جانتا ہے کہ روجھان اور صادق آباد کے علاوہ داجل‘ رکھنی‘ چان اور جھنگی میں کس قسم کا کاروبار ہوتا ہے۔ پچھلے سال ای ڈی او ہیلتھ مشتاق رسول (مظفرگڑھ) کتنے پیسے دے کر چھوٹا اور ہندو تاجر کمار پاش نے اغوا کاروں کو کتنی ادائیگی کی۔ وانا میں اپنی مسروقہ کار اور موٹر سائیکل واپس لینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور سخی سرور روڈ پر سفر کتنے میں پڑتا ہے۔ نئی گاڑی ‘ موٹر سائیکل خریدنے کا مطلب اغوا کاروں کو دعوت واردات دینا کیوں ہے۔ ضلع راجن پور کے جنگلات اور سرکاری زمینوں پر کس کا قبضہ ہے اور اغوا کاروں کے لیے چٹی دلال کا کردار کون ادا کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
چھوٹو مزاری ‘سلطوشر ‘ علی گل بازگیر‘ چوٹانی‘ جتانی ‘ مندوانی اور گوپانگ گینگ کو کسی نہ کسی قبائلی سردار اور وڈیرے کی سرپرستی حاصل ہے اور اس وڈیرے یا سردار کے گماشتے ان اشتہاریوں اور ڈاکوئوں کے لیے مخبری کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ کرکنٹروں‘ مندوانی‘ جھنگی‘ رکھنی اور وانا میں مسروقہ اشیاء کی منڈیاں لگتی ہیں جہاں مالکان اپنی ہی مسروقہ گاڑیاں اور موٹر سائیکل چند ہزار یا لاکھ ادا کر کے خریدتے ہیں۔ جدید اسلحہ ‘ منشیات اور مہنگی گاڑیوں کی سمگلنگ بھی زوروں پر ہے جبکہ ایران کا تیل بھی دستیاب ہے۔ ظاہر ہے کہ سمگلنگ بی ایم پی ‘ بلوچ لیوی پولیس اور بااثر سرداروں کے بغیر ممکن نہیں۔
روجھان سے ملتان تک سرگرم عمل مختلف گینگز کے کارندے شہروں اور قصبوں میں مالدار آسامیوں کا سراغ لگاتے‘ چوری اور اغوا کرتے اور گینگ سرغنہ کے پاس جا کر مغوی یا مال مسروقہ کا عوضانہ وصول کرتے ہیں جو چند ہزار سے دو چار پانچ لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔ اس کے بعد سرغنہ اسامی کی سیاسی‘ سماجی اور معاشی اہمیت کے مطابق تاوان کا مطالبہ کرتا ہے۔ بیس لاکھ سے دو چار کروڑ تک‘ ماچکہ سے اغوا شدہ پولیس اہلکاروں کے عوض اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ ہوا۔
گینگ کا سرغنہ طاقتور سرداروں کے بل بوتے پر اشتہاریوں‘ قاتلوں‘ اغوا کاروں کو پناہ دیتا‘ اپنے کارندوں کی گرفتاری پر رہائی کا بندوبست کرتا اور مغویوں کے ورثاء سے بھائو تائو کرتا ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور بھتے کی پرچیوں کا الزام بالعموم طالبان پر لگتا ہے اس لیے اغوا کاروں کو سہولت حاصل ہے اور پولیس و انتظامیہ بھی اعلیٰ حکام کو یہی کہانی سنا کر مطمئن کر دیتی ہے۔ وانا اور میران شاہ کی قربت کا ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژن کے مجرموں کو ایک فائدہ یہ بھی ہے ۔ پنجاب پولیس‘ بی ایم پی اور بلوچ لیوی کو علم ہے کہ اس کے پائوں میں مہندی لگی ہے ‘وہ ان ٹھکانوں کے قریب جانے اور کارروائی کرنے کے قابل نہیں ‘اسی بناء پر فضائی آپریشن شروع ہوا ہے۔ خدا کرے کامیاب ہو ۔
بے بس سرائیکی عوام یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں آخر کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ پہلے تو وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے مجرم تھے جس نے سرائیکی صوبہ تو نہ دیا مگر بے فیض سرائیکی حکمرانوں کی لوٹ مار‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کی کالک ان کے منہ پر مل دی۔ دنیا بھر میں پروپیگنڈا ہوا کہ کسی سرائیکی کو اعلیٰ ریاستی منصب مل جائے تو وہ ندیدوں کی طرح اپنوں میں ریوڑیاں بانٹتا اور نااہل قرار پاتا ہے مگر اب تو وہ ووٹر بھی مسلم لیگ (ن) کے ہیں جس نے دو صوبے ...جنوبی پنجاب اور بہاولپور بنانے اور ڈیرہ غازی خان میں ہائی کورٹ بنچ قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر ایک سال دس ماہ سے مسلم لیگی حکمران یوں خاموش ہیں جیسے انہوں نے کوئی وعدہ کیا تھا نہ امن و امان کا قیام ان کی ذمہ دای ہے۔ شاید سرائیکی وسیب کے عوام کی قسمت میںسفاک جاگیر دار لکھے گئے ہیں یا بے رحم ڈاکو اور اغوا کار۔ جان و مال محفوظ نہ سفر اور سواری۔
بدامنی ‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور ریاستی اداروں کی نااہلی صرف سرائیکی و سیب کا المیہ نہیں ‘پورا ملک اس آگ میں جل رہا ہے ۔ کراچی بدنام ہے جنوبی پنجاب کی طرح وسطی اورشمالی پنجاب بھی محفوظ نہیں۔ راولپنڈی کے لوگ چیخ پکار کر رہے ہیں مگر کوئی سنتا نہیں۔ نوبت اب پولیس اہلکاروں کے اغوا تک پہنچ گئی ہے جنہیں ایک سردار کے ذریعے رہا کرایا گیا ہے‘ معلوم نہیں بدلے میں کتنے مجرم چھوڑے جائیں گے اور کتنی نقد ادائیگی ہوگی‘ پولیس مگر مانے گی کبھی نہیں۔ یہ عدم مساوات پر مبنی اس نظام کا شاخسانہ ہے جس میں طاقتور اور کمزور‘ غریب اور امیر کے لیے قوانین مختلف ہیں‘ ذوالفقار مرزا اور فیصل آباد کا ایک ایم پی اے تھانے سے زبردستی اپنے ساتھی چھڑانے اور پولیس افسروںکو زد و کوب و بے عزت کرنے میں آزاد ہے اور غریب کا بچہ اگر کسی جلتے ہوئے بھوسے کے قریب سے بھی گزرے تو اسے آتش دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے کمہار کو دیکھا کہ گدھے قطار میں چل رہے ہیں‘ کوئی ادھر ادھر نہیں ہوتا اور وہ پیچھے لاٹھی گھماتا خراماں خراماں جا رہا ہے۔ بادشاہ نے سبب دریافت کیا تو اس نے جواب دیا جب کوئی گدھا ادھر ادھر ہوتا ہے تو میں اس کی خوب ٹھکائی کرتا ہوں‘ شام کو گھاس نہیں ڈالتا اور اس کی ڈھینچوں ‘ ڈھینچوں نہیں سنتا۔ بادشاہ نے اسے ریاست کا منصف مقرر کر دیا۔ چوری کا ایک مقدمہ پیش ہوا‘ کمہار نے چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ چور بادشاہ کے چہیتے وزیر کا خاص آدمی تھا۔ وزیر نے مداخلت کی اور کہا کہ یہ بادشاہ کا وفادار ہے ‘ذرا سزا کم کر دیجیے۔ کمہار نے جو منصف تھا حکم دیا: ''چور کے ہاتھ کاٹ دو‘ وزیر کی زبان ‘‘۔ میں بے زبان گدھوں سے مساوی سلوک کرتا ہوں ‘یہ انسانوں میں برابری کا روادار نہیں۔ اسی بناء پر تو سلطنت میں جرائم ہوتے ہیں۔
ہر ایک کے بس میں مسلح محافظوں کی فوج پالنا ہے نہ اغوا ہونے کی صورت میں تاوان کے طور پر لاکھوں روپے ادا کرنے کی سکت۔ اپنے مال مسروقہ کی واپسی کے لیے رہزنوں‘ ڈاکوئوں اور پولیس اہلکاروں کے مطالبات پورے کرنا بھی کہاں آسان ہے۔ وسطی پنجاب میں پراپرٹی کا کاروبار فروغ پذیر ہے اور عالیشان سڑکوں‘ انڈر پاسز‘ فلائی اوورز کی تعمیر سے لوگ خوب مال پانی بنا رہے ہیں مگر جنوبی پنجاب میں ایک ہی کاروبار نقد آور اور خوب پھل پھول رہا ہے... اغوا برائے تاوان اور بندوق کے زور پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو دن دیہاڑے چھیننے کا کاروبار، اب نوبت پولیس اہلکاروں کے اغوا تک پہنچ گئی ہے مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ کاروبار پولیس‘ انتظامیہ‘ پولیٹیکل انتظامیہ اور مقامی سرداروں کی سرپرستی کے بغیر کبھی ہو بھی نہیں سکتا‘ ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔
عوام کی زندگی اجیرن ہے۔ پولیس اور انتظامیہ واقف اور پولیٹکل حکام ملوث۔ اس لیے جرائم کا ایک جہاں آباد ہے اور محروم و بے بس عوام خوف و ہراس کا شکار۔ صرف ڈاکو‘ مجرم اور قاتل مطمئن ہیں یا ان کے کارندے۔ اور سردار‘ وڈیرے اور جاگیر دار بھی بے فکر ہیں کیونکہ ان کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ اگر بھولے سے کوئی پکڑا جائے تو بادشاہ سے وفاداری کے سبب جاگیردار اور وڈیرے اسے چھڑا لیتے ہیں۔ منصف بے چارے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ وہ زمانے تو لد گئے جب منصف چور کے ہاتھ‘ سفارشی وزیر اور وڈیرے کی زبان کاٹنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ اب تو اغوا کاروں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے سرپرست وڈیروں‘ جاگیرداروں اور سیاسی قائدین کو حکمران بھی خوش رکھتے ہیں اور پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار بھی ‘ تاکہ سب کا دال دلیا چلتا رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں