معمولی بات پر جھگڑا بڑھا‘ہاتھا پائی کے بعد پہلے ڈانگ سوٹا چلا‘ پھر پستول نکل آئے اور ایک گولی لگنے سے سردار جی کا دیہانت ہو گیا۔ میت گھر آئی تو رشتہ داروں اور اڑوس پڑوس کے بیلیوں سجنوں کا ہجوم آمڈ آیا‘ پُرسہ دینے والے سردار جی کے بیٹے سے دو حرف تسلّی کے کہتے تو چھوٹے سردار‘ واہ گورو کا شکر ادا کرتے کہ گولی ماتھے پر لگی‘ باپو کی آنکھ بچ گئی‘ موت تو انہیں ایک نہ ایک دن آنی ہی تھی غنیمت ہے آنکھ کا زیاں نہ ہوا۔
لاہور کے انتخابی حلقہ این اے 125کا الیکشن ٹربیونل نے کالعدم قرار دیدیا ۔ خواجہ سعد رفیق کی نشست چلی گئی اور وہ وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر حکومتی ترجمان اور بعض تجزیہ نگار اس بات پر خدا کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ دھاندلی کا الزام خواجہ سعد رفیق یا میاں نصیر پر نہیں لگا۔ بے ضابطگی کا مجرم بھی انتخابی عملے اور ریٹرننگ افسر کو گردانا گیا اور خواجہ صاحب کی انتخابی عملے سے ملی بھگت کی کوئی شہادت بھی سامنے نہیں آئی۔ وہی سردار جی کے صاحبزادے والی منطق کہ دیہانت ہو گیا کوئی بات نہیں‘ واہگورو کی کرپا سے باپو کی آنکھ بچ گئی۔
کل کلاں کو اگر حلقہ122اور کسی دوسرے حلقے میں بھی اسی قسم کا فیصلہ آیا تو مسلم لیگ کے یہ ہمدرد میاں نواز شریف سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے امیدواروں کو الیکشن ٹربیونل سے کلین چٹ ملنے کی خوشی میں یوم تشکر منانے کا اعلان و اہتمام کیا جائے۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ قومی اسمبلی کی نشست چلی گئی ‘ انتخاب2013ء کی شفافیت اور منصفانہ ‘ دیانتدارانہ انعقاد‘ مشکوک ٹھہرا اور وسیع پیمانے پر دھاندلی و بے ضابطگی پر عدالتی مہر تصدیق ثبت ہو گئی مگر مسلم لیگی امیدوار کو دھاندلی کا مرتکب قرار نہیں دیا گیا‘ یہ کامیابی کم نہیں‘ سو اظہار تشکر بنتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن میں اب تک جن لوگوں نے بیانات دیے اور پاکستان کے مختلف صوبوں میں جو انتخابی حلقے کھولے گئے وہ دلچسپ صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں مثلاً سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب رائو افتخار اور الیکشن کمشنر پنجاب انور محبوب نے اعتراف کیا کہ لاہور سے دو سو افراد پولنگ ڈے سے دو تین روز قبل بھرتی کر کے راولپنڈی بھیجے گئے۔ بعض ریٹرننگ افسروں کی درخواست پر لاکھوں کی تعدادمیں اضافی بیلٹ پیپر چھاپے گئے۔ پاکستان پرنٹنگ پریس نے چھاپنے سے انکارکیا تو لاہور کے نجی چھاپہ خانوں کی مدد حاصل کی گئی اور انہیں ریٹرننگ افسروں کی مرضی کے مطابق تقسیم کیا گیا۔ حیرت انگیز طورپر یہ سارا کام صرف پنجاب میں ہوا۔ ماہر دفتری بھی الیکشن کمیشن کو صرف لاہور سے ملے۔
ہمیں ذاتی طور پر تو لاہور کے دفتریوں پر کوئی اعتراض ہے نہ اضافی بیلٹ پیپرز کی چھپائی پر اور نہ ان کی عین انتخاب کے روز تقسیم پر مگر بعض بدگمان اور ہر معاملے میں مین میخ نکالنے کے عادی افراد جب یہ سوال کرتے ہیں کہ اضافی بیلٹ پیپر لاہور میں کیوں چھپتے ہیں۔ لاہور کے دفتری ہی راولپنڈی کیوں بھیجے جاتے ہیں اور ان اضافی بیلٹ پیپرز کو صرف مخصوص حلقوں کے ریٹرننگ افسروں میں ہی کیوں بانٹا جاتا ہے تو کسی سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ آئیں بائیں شائیں کرنے کو ہر ایک تیار ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کبھی ٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد سے نہیں بڑھا۔ یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ بعض محتاط قسم کے ریٹرننگ افسر‘ پریذائیڈنگ افسر اور اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر ووٹروں کو اضافی بیلٹ پیپر جاری کر سکتے ہیں تاکہ کسی کا ووٹ ضائع نہ ہو۔ مگر اس مقصد کے لیے تو ان کے پاس کم از کم تیس فیصد بیلٹ پیپرز موجود ہوتے ہیں(کاسٹ نہ ہونے والے) پھر انہیں کسی پولنگ سٹیشن یا انتخابی حلقہ کے کل ووٹروں سے زیادہ بیلٹ پیپرز کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ سات مئی کو کیوں کیا جب پولنگ ڈے کو صرف چار دن رہ گئے تھے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی ووٹر بیلٹ پیپر پر غلط مہر لگا دے‘ کوئی دوسرا نشان ثبت کر دے تو اضافی بیلٹ پیپر کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ یہ امتحانی پرچہ نہیں جس میں اضافی شیٹ کی ضرورت پڑتی ہے اور طلب کرنا امیدوار کا حق ہے۔ مہر غلط لگ گئی تو ووٹ مسترد ہو جائیگا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ پورے ملک کے صرف چند ریٹرننگ افسروں کو اضافی بیلٹ پیپرز کی ضرورت کیوں پڑی۔ کیا ان کے کانوں میں غیبی آواز آئی تھی کہ سرکاری پرنٹنگ پریس سے چھپے بیلٹ پیپرز کم پڑ سکتے ہیں اس لیے نجی پریس کے طبع شدہ بیلٹ پیپرز احتیاطاً رکھ لو تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ ریٹرننگ افسروں کی یہ فرمائش الیکشن کمیشن پنجاب ماننے پر کیوں مجبور ہوا اورچیف سیکرٹری صاحب اور نگران وزیر اعلیٰ صاحب نے اس فرمائش کو رد کرنے کی بجائے فوراً کیوں مان لیا؟ پاکستان میں الیکشن پہلی بار ہورہے تھے؟ یا اوپر سے نیچے تک سب کو کسی نے ہیپناٹائز اور مسمرائز کر دیا تھا۔ سوچ سمجھ سے عاری اور حکم کا غلام۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پریذائیڈنگ افسروں اور ان کے عملے پر بھی کسی نے ایسا جادو کیا کہ کسی بے چارے کو نہ فارم14اور 15یاد رہا‘ نہ اس پر دستخط کرنے کا ہوش اور نہ تھیلوں میں ووٹوں کے بجائے ردی بھرنے والوں کو روکنے کی توفیق۔ 11مئی کو شاید پنجاب میں پولنگ سٹیشنوں پر جن بھوت کا سایہ تھا۔کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پایا اور چیف سیکرٹری ‘ایڈیشنل چیف سیکرٹری سطح کے افسر جو مکھی بھی ماریں تو اس کارنامے کو ریکارڈ پر لاتے ہیں اورفائل کے وزن میں اضافے کو کار ثواب سمجھتے ہیں سارے عمل میں روبوٹ بن گئے۔ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے منظوری بھی زبانی لی گئی۔ فائل کا پیٹ بھرنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہ کی ؎
کسی کے آنے سے ساقی کے ایسے ہوش اڑے
شراب سیخ پہ ڈالی، کباب شیشے میں
جوڈیشل کمیشن کی کارروائی جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے عوام کی معلومات اورحیرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1990ء میں انتخابات ہوئے تو بہت دیر بعد لوگوں کو پتہ چلا کہ کسی کو ہرانے‘ جتوانے کے لیے خوب پیسہ چلا اور قومی خزانے کے علاوہ ایک نجی بنک لٹتا رہا۔ 2013ء کے الیکشن ایک عبوری حکومت اور فخرو بھائی کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نے کرائے مگر اب پتہ چل رہا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ سوال یہ نہیں کہ دھاندلی منظم تھی؟ یا غیر منظم اور اس میں مسلم لیگ شریک تھی یا نہیں؟ سوال صرف یہ ہے کہ اگر واقعی وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور آئین کے آرٹیکل 218کے تحت الیکشن کمیشن پاکستان میں آزادانہ ‘ دیانتدارانہ ‘ منصفانہ اورقانون کے مطابق شفاف انتخابات نہیں کرا سکا تو ایسا کیوں ہوا ؟ اور ریٹرننگ افسران یا دوسرا انتخابی عملہ آخر بے ضابطگی اوردھاندلی پر کیوں تُل گیا۔ انہیں بائولے کتے نے کاٹ لیا تھا یا کسی ہامون جادوگر کے زیر اثر وہ سب کے سب ہوش و خرد کھو بیٹھے کہ ان میں سے کسی کو قاعدہ‘ قانون یاد رہا‘ نہ فرض کی ادائیگی اور نہ احتیاط کے تقاضے؟ ناقص سیاہی کا استعمال‘ ناقابل شناخت نشان انگوٹھا‘ ایک شناختی کارڈ پر چھ چھ ووٹ اور سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں غیرمصدقہ بیلٹ پیپرز؟ یہ کسی حلقے کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا جواز تو ہیں اور اسی بنا پر این اے 125 کا الیکشن کالعدم ہو گیا۔ دھاندلی ثابت نہیں ہوئی‘ کیا استدلال ہے؟ واہگورو کی کرپا سے باپو کی ناک سلامت ہے۔ دیہانت ہو گیا تو پریشانی والی کون سی بات ہے ؎
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہِ یار سلامت‘ ہزار میخانے