کرپشن اور دہشت گردی میں ملاپ

ہماری قسمت میں شائد اب رونا پیٹنا اور جنازے اٹھانا ہی رہ گیا ہے۔ کبھی پشاور اورکراچی میں اور کبھی لاہور اور کوئٹہ و بلوچستان میں۔ نوعیت ہر سانحے کی الگ ہوتی ہے مگر ریاستی اداروں کی نااہلی‘ غفلت شعاری اور سہل پسندی ہر جگہ قدر مشترک۔ واہگہ بارڈر‘ آرمی پبلک ہائی سکول‘ صفورہ گوٹھ اور لاہور کے شادباغ سانحہ میں کم کوش ریاستی اداروں کا دفاع کون کر سکتا ہے؟
بجا کہ شادباغ کے گھر میں آگ شارٹ سرکٹ سے لگی۔ یہ اتفاق ہے کہ گھر میں کوئی مرد موجود نہیں تھا اور بچوں کی ماں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ کرتی رہی‘ محلے دار بھی اکٹھے ہوئے مگر تیز آگ کو بجھانا ان کے بس کی بات نہ تھی جبکہ فائر بریگیڈ تاخیر سے پہنچا‘ اس وقت جب تین بچے اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور تین اس قدر قریب المرگ کہ ہسپتال پہنچنے سے قبل خالق حقیقی کو جا ملے۔
10 منٹ کے فاصلے پر واقع فائر بریگیڈ سٹیشن سے گاڑی تاخیر سے کیوں پہنچی؟ ریسکیو 1122 کی ایمبولینس آنے میں کیوں تاخیر ہوئی اور فائر بریگیڈ کی گاڑی آ کر بھی اپنا کام شروع کیوں نہ کر سکی؟ یہ بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں جن کے جوابات ریاستی اداروں کی بے نیازی‘ کم مائیگی اور متعلقہ اہلکاروں کی سنگدلانہ بے حسی کی صورت میں ملتے ہیں۔
پنجاب میں ریاستی ادارے دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ فعال ہیں اور لاہور کو تخت لاہور کا طعنہ اس لئے سننا پڑتا ہے کہ صوبے بھر کے وسائل اس ایک شہر کے لئے مختص ہیں۔ چند جہازی سائز سگنل فری سڑکیں، ان کے اردگرد سبزہ و گل کی نمائش‘ بلند و بالا عمارتیں‘ انڈر پاسز اور چمکتی دمکتی سرکاری گاڑیاں دیکھ کر گمان یہی گزرتا ہے کہ پنجاب کا صوبائی دارالحکومت واقعی دوسرے علاقوں کے وسائل چاٹ گیا مگر شادباغ بھی اسی لاہور کا حصہ ہے اور ملتان روڈ کے مغرب میں واقع بستیاں بھی، جہاں انسان ڈھور ڈنگروں کی طرح جیتے نہیں جینے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔
شادباغ میں آگ بجھانے والی گاڑی دھکا سٹارٹ کیوں تھی؟ پانی پھینکنے والا سسٹم کام کرنے سے قاصر کیوں رہا ؟اور عملہ خواب خرگوش کے مزے کیوں لیتا رہا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے افلاطون کی عقل درکار نہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی ترجیحات سے واقف ہر شخص جانتا ہے مگر بولتا کوئی نہیں‘ وہ بھی نہیں جو بار بار سانحات کا نشانہ بنتے اور رو پیٹ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ریاست اور حکمرانوں کو اپنی ترجیحات بدلنے پر مجبور نہیں کرتے۔
حکومت پنجاب کے پاس اس وقت ستائیس بلٹ پروف گاڑیاں ہیں۔ چار مزید بلٹ پروف گاڑیاں منگوانے کی سمری منظور ہو چکی ہے جو کراچی سے خرید کر ٹیکسلا سے بلٹ پروف کرائی جائیں گی۔ 2 بلٹ پروف لینڈ کروزر گاڑیاں ان چاروں کے بعد منگوائی جائیں گی۔ لیکن اگر حکومت کے کسی ترجمان سے کہا جائے کہ فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122 کے لئے گاڑیاں درکار ہیں یا پہلے سے موجود دھکا سٹارٹ گاڑیوں کی مرمت کے لئے وسائل کی ضرورت‘ تو خزانہ خالی ہونے کی رام کہانی سننے کو ملے گی۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت اور اپ گریڈیشن کے لئے وسائل کی سخت کمی ہے مگر جہازی سائز سڑکوں‘ فلائی اوورز اور اس طرح کے دیگر منصوبوں کے لئے وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں اور شاہانہ انداز میں لٹائے جاتے ہیں۔ پنجاب کے عوام کم از کم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ یہاں سکول، صحت مراکز،فائر بریگیڈ اور ریسکیو 1122 پر نہ سہی سڑکوں‘ عمارتوں اور میٹرو بس پر سرکاری وسائل خرچ ہو رہے ہیں، سندھ میں تو یہ تکلف بھی کسی نے گوارا نہیں کیا۔ سارا ترقیاتی بجٹ خردبرد ہو جاتا ہے، حالانکہ گزشتہ چالیس سال سے عوام عوام کی تکرار سن کر سندھی بھائیوں کے کان پک گئے ہیں۔
یہ معاملے کا ایک پہلو ہے۔ اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن نے اس ریاست‘ معاشرے اور نظام کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں اور یہ کرپشن پھیلتے پھیلتے اب دہشت گردی سے بڑا ناسور بن چکی ہے۔ کرپشن دہشت گردی سے بڑا ناسور؟ یہ بات ہمارے سیاستدانوں اور ان کے ہمنوا دانشوروں کو ہضم نہیں ہوگی مگر ہے یہی حقیقت۔ یقین نہ آئے تو چند تلخ حقائق پر غور فرما لیجئے؟
سرکاری محکموں بالخصوص پولیس میں نااہل‘ بدعنوان‘ لٹیرے اور جرائم پیشہ افراد کی بھرتی کیوں ہوتی ہے؟ غیرملکی مجرم جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیسے بنوا لیتے ہیں؟ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کو بیرون ملک فرار ہونے میں آسانی کیوں ہوتی ہے؟ اغوا کار‘ قاتل‘ ڈکیت اور تخریب کار واردات کے بعد پولیس ناکوں کی موجودگی میں غائب کیسے ہو جاتے ہیں؟۔ مختلف سرکاری محکموں بالخصوص کراچی میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد بغیر کام کئے ملازم کے طور پر ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہیں کیونکر وصول کرتے ہیں؟ ہر محلے میں شراب‘ جوئے کے اڈے اور قحبہ خانے کس طرح چلتے ہیں؟ جو‘ اب دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ عام شہریوں کی سکیورٹی کے لئے مختص پولیس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ہی اکثر کیوں خراب رہتی ہیں؟ انہیں مرمت کیوں نہیں کرایا جاتا اور ذمہ داروں سے کوئی پوچھتا کیوں نہیں؟ کئی سال تک صولت مرزا کی سزا پر عملدرآمد نہ ہو سکا اور عزیر بلوچ آسانی سے فرار کیسے ہوگیا ؟وغیرہ وغیرہ
کیا تمام سوالات کا ''کرپشن‘‘ کے سوا کوئی جواب ہے۔ اسلام آباد کی سکیورٹی کے لئے چار ارب روپے مالیت کے سکینر کا معاملہ ہو یا کراچی میں پبلک مقامات پر نصب ہونے والے کیمروں کا۔ اگر یہ غیر معیاری اور ناقابل استعمال ہیں تو محض اس لئے کہ خریدنے والوں نے قومی خزانے سے اپنی جیبیں بھرنے پر توجہ دی اور عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ لوٹ مار اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کا کلچر وجود میں آیا جس سے ملکی اور غیرملکی دہشت گردوں ''را‘‘ اور دیگر ایجنسیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دھن دولت کے زور پر پورے معاشرے کو ہائی جیک کرلیا۔ کرپشن نے غربت اور بیروزگاری کو جنم دیا جس نے پسماندہ علاقوں کے بے وسیلہ نوجوانوں میں منفی جذبات پیدا کئے اور ناانصافی‘ محرومی اور مایوسی کے شکار یہ نوجوان علیحدگی پسندوں‘ تخریب کاروں‘ ملک دشمنوں کے ہاتھ لگ گئے۔ پیسے کو خدا ماننے والے یہ جان ہی نہ پائے کہ نتیجہ بدترین دہشت گردی کی صورت میں نکلے گا اور ریاست کی رٹ برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
گزشتہ روز کورکمانڈر کراچی جنرل نوید مختار نے مرض کی درست تشخیص کی‘ کرپشن اور منی لانڈرنگ کو دہشت گردی سے جوڑا اور منتخب حکمرانوں کے علاوہ ریاستی اداروں کو اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی تلقین کی مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے جمہوریت پسند حکمران جرم اورکرپشن کی افزائش کے بغیر سیاست اور جمہوریت پر راضی ہیں؟۔ کیا وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تیار ہیں؟ جو اُم الجرائم اور موجودہ سنگین حالات کی ذمہ دار ہے۔ ہمارے طاقتور‘ بااختیار اور باوسائل حکمرانوں نے بیرون ملک دولت اس لئے جمع کرائی اور کاروبار جمایا ہے کہ وہ اس ملک کو کرپشن سے پاک کریں؟ توبہ توبہ خدا خدا کیجیے۔
کراچی میں رینجرز کا آپریشن ''اب یا کبھی نہیں‘‘ کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ مفاہمت کی پالیسی اس آپریشن کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اسی باعث قائم علی شاہ کی حکومت رینجرز کے شانہ بشانہ چلنے پر تیار نہیں۔ نثار علی خان ماضی کے لٹیروں کا احتساب چاہتے ہیں۔ اس لئے انہیں فوج کا بندہ قرار دیکر پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور فوج سے بغض رکھنے‘ کرپشن کو جمہوریت کا حصہ قرار دینے والوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے جس کا فائدہ کراچی میں بدامنی کے ذمہ دار بھرپور طریقے سے اٹھا رہے ہیں۔ کرپٹ پولیس و انتظامیہ کی موجودگی میں ٹارگٹ کلرز‘ اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے مزے ہیں ۔
کرپشن‘ نااہلی‘ جرم اور سیاست کے ملاپ نے کراچی میں ریاست کی رٹ کم و بیش ختم کردی مگر ہمارے جمہوریت پسند سیاستدانوں اور حکمرانوں کا جی ابھی تک نہیں بھرا۔ وہ اب بھی سیاست کے بھیس میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی پشت پناہی میں پیش پیش ہیں۔ انہیں آپریشن کی ناکامی پسند ہے، وزیراعلیٰ کی تبدیلی یا گورنر راج کا نفاد نہیں۔ کراچی آپریشن کی ناکامی کے خواہشمند وں کی خواہش یہ نظر آتی ہے کہ رینجرز‘ ایف سی اور فوج شمالی وزیرستان‘ کراچی اور بلوچستان میں پھنسی رہے اور وہ مزے سے لوٹ مار کا بازار گرم رکھیں۔ کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ مگر تابکے؟
دہشت گردی کا خاتمہ کرپشن کے مکمل سدباب کے بغیر ممکن نہیں۔ کرپشن ہی دہشت گردوں کے لئے مواقع فراہم کرتی ہے اور کرپشن کے طفیل مافیاز جنم لیتے ہیں۔ کورکمانڈر کراچی نے تشخیص درست کی مگر علاج؟ کرپشن کے کوہ ہمالیہ برقرار ہیں تو ایک مافیا کا خاتمہ کوئی معنی نہیں رکھتا‘ ایک فصل کٹے گی تو دوسری تیار ہوگی۔ جرم اور سیاست کے ملاپ میں کرپشن کا کردار کلیدی ہے اور اس کے خاتمے پر ہمارے درخشاں مستقبل کا انحصار۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں