ڈگری سکینڈل

ایف آئی اے کی پھرتیاں دیکھ کر نیویارک ٹائمز کا ایڈیٹر اپنے دفتر اور رپورٹر ڈیکلن والش اپنے اپارٹمنٹ یا کسی بار میں بیٹھ کر قہقہے لگا رہا ہو گا۔ پہلی بار پاکستان میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ڈیکلن والش کی سٹوری کو سنجیدگی سے لیا گیا اور ایف آئی اے نے کارروائی کر ڈالی ورنہ عموماً تردید اور تنقیص ہی ان کا مقدر بنتی رہی۔
نیویارک ٹائمز نے 2004ء میں عراق وار کے حوالے سے اپنی ایک سٹوری پر معذرت کی تو دنیا کے اس معتبر اخبار کی تحقیقی رپورٹنگ کے معیار اور ادارے کی ساکھ پر شک کیا جانے لگا۔ سابق صدر آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، سابق آئی ایس آئی چیف شجاع پاشا، آئی ایس آئی، ایم کیو ایم اور پاکستان کے حوالے سے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹوں اور ڈیکلن والش کی تحقیق کو ہمیشہ مشکوک، بے بنیاد، یک طرفہ اور حقائق کے منافی قرار دے کر رد کیا گیا۔ بلوچستان میں مشکوک سرگرمیوں کی بنا پر 2013ء میں ڈیکلن والش کے اقامتی ویزا میں توسیع نہ کی گئی اور اسے وزارت داخلہ کی طرف سے 72 گھنٹے میں نکل جانے کا نوٹس دیا گیا۔ جبکہ آئی ایس آئی کے بارے میں یہ سٹوری نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی تھی کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ اور وسائل فراہم کرتی ہے۔
جعلی ڈگریاں یورپی دنیا میں بیچنے والی پاکستانی کمپنی کا انکشاف اب ہوا ہے جس کا کریڈٹ نیویارک ٹائمز اور ڈیکلن والش دھڑا دھڑ سمیٹ رہے ہیں مگر یہاں جعلی ڈگریاں دینے، پیسے بٹورنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کا کاروبار کئی عشروں سے جاری ہے۔ 1980ء کی دہائی میں انویسٹمنٹ کمپنیوں نے عوام کو لوٹا، پھر کوآپریٹو کمپنیوں نے بچی کھچی بچتوں پر ڈاکہ ڈالا اور بعد ازاں ڈبل شاہ جیسے کردار سامنے آئے مگر مجال ہے کہ ایف آئی اے یا کسی دوسری سرکاری ایجنسی نے ان سے ابتدا میں تعرض کیا ہو۔ مہران بینک، رینٹل پاور اور ایل این جی سکینڈلز کا علم بھی عوام کو میڈیا کے ذریعے ہوا۔ سرکاری اداروں نے جن کا فرض ایسے معاملات پر نظر رکھنا اور قانون کی عملدرآمدی کو یقینی بنانا ہے‘ کبھی سنجیدگی سے نوٹس لیا نہ عدالتی احکامات کی روشنی میں بھرپور کارروائی کی۔
جعلی ڈگریوں کا جو سکینڈل نیویارک ٹائمز نے طشت ازبام کیا وہ ایک دن کا قصہ ہے نہ کسی زیر زمین کام کرنے والی گوریلا تنظیم کی کارروائی مگر ایف آئی اے کو ہوش نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پڑھ کر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے احکامات موصول ہونے پر آئی۔ لٹنے والوں میں امریکی، برطانوی، عرب اور بھارتی سب شامل ہیں مگر ایف بی آئی سے لے کر سکاٹ لینڈ یارڈ تک کسی نے اب تک اس سٹوری کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اگر میاں نواز شریف سے اپنی ناراضگی اور کان میں تکلیف کی وجہ سے چودھری صاحب سنی ان سنی کر دیتے تو شائد نیویارک ٹائمز کی کدوکاوش اور پاکستانی میڈیا کی چیخ و پکار رائگاں جاتی اور ہمارے دوست رئوف کلاسرا کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوتا جنہیں حکومتی اداروں سے بجا طور پر شکوہ رہتا ہے کہ پاکستانی صحافیوں کی تحقیقی رپورٹیں پڑھ کر پاکستانی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی مگر اس سے کم تر سطح کی معلومات کوئی غیر ملکی جریدہ فراہم کر دے تو ایوان اقتدار میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور حوالہ یوں دیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی الہامی اور آسمانی بات ہو۔
جہاں تک جعلی اور غیر معیاری ڈگریوں کے کاروبار کا تعلق ہے تو یہ پاکستان سے زیادہ امریکہ و یورپ میں عروج پر ہے۔ امریکہ میں تو برگر شاپس اور گیس سٹیشنز پر بھی پرکشش ناموں والے تعلیمی اداروں کی ڈگریاں سستے داموں دستیاب ہیں۔ جس طرح Who is Who نامی کتابچے میں اپنے کوائف درج کرانے کے لیے کسی شعبے میں مہارت کے بجائے ڈالر درکار ہیں اسی طرح جعلی ڈگریوں کے لیے بھی علم، معلومات یا مطالعہ و تدریس نہیں ڈالروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر شعیب شیخ نے برادرم ہارون الرشید کے بقول شداد کی جنت تخلیق کی تو یہ ان کے ذہن رساسے زیادہ امریکہ و مغرب میں پھلتے پھولتے منافع بخش کاروبار سے اپنا حصہ وصول کرنے کی کاوش ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ و یورپ میں کام کرنے والے اپنے کاروبار کو زیادہ پھیلاتے ہیں نہ میڈیا ہائوس تعمیر کر کے کسی کو دعوت مبارزت دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو کسی خاص شعبے اور علاقے تک محدود رکھتے ہیں اور میڈیا کی عقابی نظروں سے دور رہتے ہیں مگر شعیب شیخ کو کثرت کی خواہش نے ع ''اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے ہم‘‘ کی کیفیت سے دوچار کر دیا۔
نیویارک ٹائمز میں سٹوری شائع ہونے کے بعد یہ سوال اٹھا کہ معمولی کاروبار سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والے ایک نوجوان کو آخر بل گیٹس اور وارن بفٹ کو چیلنج کرنے کی کیوں سوجھی؟ مگر کیا پاکستان میں یہ کوئی انوکھی بات ہے؟ ذہانت، ریاضت اور لگاتار جدوجہد کے ذریعے عروج حاصل کرنے کا رواج امریکہ و یورپ میں ہو گا یا پھر چین اور اس طرح کے دیگر معاشروں میں، ہمارے ہاں راتوں رات امیر بننے کا خبط کسی کے دماغ میں سما جائے تو ریاست اور معاشرہ رکاوٹ نہیں بنتے، اچھے برے کی تمیز نہیں سکھاتے بلکہ قدم قدم پر اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور راہیں سُجھاتے ہیں۔ صرف پچھلے دس سال میں کتنے ککھ پتی پہلے لکھ پتی اور پھر ارب پتی بنے اور آج تک کسی کو ان کے اصلی ذرائع آمدن کا علم نہیں۔ سرکاری اداروں کی ملی بھگت اور طاقتوروں کی سرپرستی کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے؟
1985ء میں ایک رکن اسمبلی نے مجھے اپنی داستانِ غربت سنائی تو میں اس کی ہمت، جدوجہد اور عزم و استقلال پر عش عش کر اٹھا۔ موصوف اس وقت ارکان اسمبلی کے ہاسٹل کا کمرہ لینے کا روادار نہ تھے کہ یہاں کرائے کے علاوہ مہمانوں کے چائے پانی کا خرچہ برداشت کرنا پڑتا مگر ایک ڈیڑھ سال بعد وہ پجیرو سوار تھے اور پھر اربوں روپے میں کھیلنے لگے۔ چند برس پہلے تک جو اپنے بچوں کی دوائی خریدنے کی سکت نہ رکھتے تھے اب دس بیس ارب روپے کو ہاتھ کی میل سمجھتے اور دھڑلے سے لٹاتے ہیں۔
فارسی میں کہتے ہیں گربہ کشتن روز اول۔ ہر مرض کا تدارک ابتدائی دنوں میں ہو تو مریض کو تکلیف ہوتی ہے نہ اس کے لواحقین کو مگر ہم ہر درد کے لادوا ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سکینڈل میں کتنی صداقت ہے اگر شعیب شیخ کی کمپنی یہ کاروبار برسوں سے کر رہی تھی تو سرکاری ادارے اس دن کا انتظار کیوں کرتے رہے جب یہ ملک کی بدنامی کا باعث بنا اور نیویارک ٹائمز کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ''یہ کہنا مشکل ہے حکومت پاکستان اس سکینڈل سے لاعلم تھی‘‘ نیویارک ٹائمز کی تازہ سٹوری کا ہدف ایگزیکٹ نہیں حکومت پاکستان ہے اور وہ کارروائی کو حکومت کی مجبوری سے تعبیر کر رہا ہے۔
نیویارک ٹائمز کی اس سٹوری پر ایف آئی اے نے فوری کارروائی کی، بہت اچھا کیا اب لگے ہاتھوں اس جریدے میںشائع شدہ باقی داستانوں کی جانچ پڑتال اور تحقیق و تفتیش کر لی جائے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ میاں نواز شریف کی حکومت نے کسی کی فرمائش یا دبائو پر پھرتی دکھائی۔ جو کام سلیقہ مندی سے ہو سکتا تھا اسے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا ذریعہ بنا ڈالا۔ جس کسی نے نیویارک ٹائمز کی سٹوری نہیں پڑھی تھی اب وہ بھی پاکستان کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہاں صرف ملازمتیں، انتخابی ٹکٹ اور ارکان اسمبلی نہیں بکتے، تعلیمی اسناد بھی برائے فروخت ہیں۔
کثرت کی خواہش، دھن دولت کی ہوس‘ ہوشربا کرپشن اور ہمارے انتظامی ڈھانچے میں پائی جانے والی خامیوں، کمزوریوں، نقائص کے سبب پاکستان‘ غریب کی جورو ہے جسے سب کی بھابھی کہا جاتا ہے۔ ہمارا انتظامی ڈھانچہ اس قدر کمزور پڑ گیا ہے کہ یہ رٹ آف گورنمنٹ برقرار رکھنے کی پوزیشن میں ہے نہ دہشت گردی اور جرائم کی سرکوبی کے لیے عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق‘ اور نہ سائبر کرائم کے حوالے سے موثر قانون سازی کے قابل۔ جس کا فائدہ جرائم پیشہ عناصر بھرپور انداز میں اٹھا رہے ہیں اور پاکستانی اداروں کو علم صرف اس وقت ہوتا ہے جب غیر ملکی اخبار کوئی خبر یا رپورٹ شائع کر دے ورنہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور گلشن کا کاروبار خوش اسلوبی سے چلتا رہتا ہے۔ اس کارروائی کے بعد ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اب یہاں جعلی ڈگریوں کا کاربار ہو گا نہ کسی کو قومی وسائل لوٹنے کی اجازت اور نہ کرپشن کے میگا سکینڈلز کی رپورٹیں اور فائلیں دبانے کی جرأت۔ ہر ایک سے سب کھایا پیا اگلوایا جائے گا ؎ تیرے وعدے پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار نہ ہوتا۔ آخر میں کسی ستم ظریف کا یہ تبصرہ ''ایف آئی اے پاکستان میں ڈالر لانے والوں کو پکڑتی ہے ملک سے باہر لے جانے والوں کو نہیں‘‘ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں