پاکستان بمقابلہ بھارتی دہشت گردی

بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نریندر مودی سرکار اور اس کے کروڑوں ''ہندوتوا وادی‘‘ پیروکاروں کے من میں سمائی خواہش کو زبان پر لے آئے مگر پاکستانی قوم کو خبر ہوئی نہ سیاسی قیادت کو اور نہ امریکی صحافی ڈیکلن والش کے مضامین کے مطالعہ و تجزیہ میں مصروف قومی میڈیا کو۔ ورنہ کوئی تو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتا۔ ابھی تک صرف پرویز رشید بولے ہیں۔ 
منوہر پاریکر نے کہا '' نریندر مودی سرکار ماضی کی حکومتوں سے قطعی مختلف ہے۔ اگر پاکستان یا کوئی دوسرا ملک ہمارے خلاف کوئی منصوبہ بنا رہا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم لازماً فعال اور جارحانہ اقدامات کریں گے۔ دہشت گردی کو دہشت گردی سے بے اثر کیا جا سکتا ہے۔ ہندی زبان میں اسے کانٹے سے کانٹا نکالنا کہتے ہیں۔ آخر ہمارا فوجی جوان دہشت گردوں کے سامنے کھڑا کیوں ہو‘‘۔ 
9/11کے بعد جب ہمارے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کی طرح بھارت کو بھی طاقتور اور ناقابل تسخیر تصور کرتے ہوئے معذرت خواہانہ پالیسی اختیار کی تو لالہ جی حسب عادت اکڑ گیا اور پاکستان کو نیپال‘ بنگلہ دیش اور بھوٹان کی سطح پر لانے کے جتن کرنے لگا۔ خالصتان تحریک سے چھٹکارا پانے کے لیے راجیو گاندھی کی مدد ہماری ایک جمہوری حکومت نے کی تھی جس کا اعتراف بعدازاں کئی بھارتی سیاستدانوں اور فوجی کمانڈروں نے اپنی یادداشتوں میں کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی عسکریت پسندی کا خاتمہ ہمارے ہی فوجی حکمران کی مہربانی سے ہوا۔ ورنہ چھ لاکھ فوج کو تو مجاہدین آزادی نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔بھارت اب کشمیر میں لہراتے پاکستانی پرچم سے خائف ہے۔ 
مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسند کمزور پڑے اور پاکستان نے امریکہ کے مشورے بلکہ زیادہ درست الفاظ میں دبائو پر مزاحمتی تحریک ہی نہیں حریت کانفرنس کے سر سے دست شفقت اٹھایا تو ہمارے مرعوب ذہنوں اور ''رل مل روٹی کھائیے‘‘ ٹائپ بھارتی شردھا لوئوں کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور وہ بڑھ چڑھ کر واہگہ کی لکیر مٹانے کی باتیں کرنے لگے۔ برہمن کے مزاج شناس سادہ لوح پاکستانیوں کا اس وقت بھی خیال تھا کہ بھارت پرامن بقائے باہم پر آمادہ ہے نہ ہمسایوں سے برابری کی سطح پر تعلقات بڑھانے کا عادی ۔ وہ روایتی بنیے کی طرح طاقتور کے سامنے پرنام بجا لاتا اور کمزور کو پائوں تلے روندتا ہے۔
پاکستان نے امریکی دبائو پر کشمیر اور افغانستان میں اپنے ''اثاثوں‘‘ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اچھا بچہ بننے کی کوشش کی تو بھارت نے کبھی پارلیمنٹ اور کبھی ممبئی ڈرامہ رچا کر مذاکرات سے انکار کیا اور پاکستان میں نئے طرز کی مکتی باہنیوں کے ذریعے مشرقی پاکستان والا کھیل شروع کر دیا۔ فوجی قیادت اور دفتر خارجہ کی طرف سے حال ہی میں''را‘‘ کا نام لیا گیا ہے مگر چھوت چھات‘ ذات پات اور تعصبات کے اسیر بھارت کی تاریخ‘ تہذیب و ثقافت اور فکر و روایت سے آشنا ہر شخص کی عرصہ دراز سے یہ رائے تھی کہ وزیرستان ہو‘ کراچی یا بلوچستان ہر جگہ ''را‘‘ سرگرم عمل ہے اور ہر بڑی واردات کا کھرا ''را‘‘ کو ذہن میں رکھ کر تلاش کیا جائے۔ اب بھارتی وزیر دفاع منوہر پارکر نے لگی لپٹی رکھے بغیر نریندر مودی سرکار کی Proactive Policyکا اعلان کر دیا ہے۔''کانٹے سے کانٹا نکالنا۔We have to Neutralize Terrorism Through Terrorism only.''۔ دہشت گردی کے ذریعے پراکسی وار کی سٹریٹجی عرصہ دراز سے جاری ہے‘ وزیر دفاع نے اعتراف اب کیا ہے۔
جو خوش فہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کو امن‘ دوستی ‘ ترقی ‘ خوشحالی کے نام پر دوست بنایا جا سکتا ہے‘ میاں نواز شریف کے الفاظ میں''ہم ایک جیسا کھاتے ‘ ایک جیسا پہنتے اور ایک زبان بولتے ہیں‘‘ کی بولی بول کر بنیے کا دل موہ سکتے ہیں وزیر دفاع کے اس بیان کے بعد انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ بھارت کا لب و لہجہ 1971ء کے بعد صرف ایک بار تبدیل ہوا جب 1988ء میں پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی تجربے کر کے Tit for Tat کا ٹھوس پیغام دیا۔ یا پھر1987ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی سے سرگوشی کی۔
فروری1987ء میں بھارت نے اچانک چھ لاکھ مسلح افواج کو پاکستان کی راجستھان سرحد کے قریب لاکر فوجی مشقیں شروع کر دیں۔ بھارتی فوج کے کمانڈر پی این ہون نے اپنی یادداشتوں میں لکھا:"Brasstacks Was Not A Milatary Exercise. It Was A Plan to Build up A Situation for A Forth War With Pakistan".
یہ فوجی مشقیں نیٹو کی مشقوں سے بڑی تھیں اور اصلی ہتھیار و گولہ بارود استعمال کئے جا رہے تھے پاکستانی دفاعی ماہرین کا اندازہ تھا کہ بھارت پاکستان کے شمالی اور جنوبی حصوں کو کاٹنے کے لیے مشرقی پاکستان طرز کاآپریشن کرنا چاہتا ہے۔ کشیدگی حد سے بڑھ گئی تو پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے چنائی میں ہونے والے پاک بھارت کرکٹ میچ کو دیکھنے کا ارادہ ظاہر کیا جسے عالمی میڈیا نے کرکٹ ڈپلومیسی کا نام دیا۔انڈیا ٹو ڈے نے ضیاء الحق کے دورۂ ہندوستان کے حوالے سے راجیوگاندھی کے خصوصی مشیر ''بہرامنام ‘‘ کے تاثرات یوں لکھے۔ 
''جنرل ضیاء الحق بغیر کسی دعوت کے کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے دہلی پہنچے۔ اس وقت راجیو گاندھی ان کو ایئر پورٹ پر ریسیو کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ بھارتی افواج راجستھان سیکٹر سے پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے صرف اپنے وزیر اعظم کی حکم کی منتظر تھیں۔ ان حالات میں ضیاء الحق سے ملنا ہرگز مناسب نہیں تھا‘ لیکن کابینہ کے اراکین اور اپوزیشن لیڈروں کا خیال تھا کہ کسی دعوت نامے کے بغیر بھی ضیاء الحق کی دہلی آمد(وہاں سے انہوں نے میچ دیکھنے چنائی جانا تھا) پر اس کا استقبال نہ کرنا سفارتی آداب کے خلاف ہو گا اور ان حالات میں پوری دنیا میں انڈین لیڈرز کے بارے میں غلط فہمی پھیلے گی۔ ہمارے مطالبے پر راجیو گاندھی ضیاء الحق سے ملنے ایئر پورٹ پہنچا اور اس نے نہایت سرد مہری سے آنکھوں میں دیکھے بغیر ضیاء سے ہاتھ ملایا۔ راجیو نے مجھے کہا کہ ''جنرل نے چنائی میچ دیکھنے جانا ہے آپ اس کے ساتھ جائیں اور ان کا خیال رکھیں‘‘۔ بھگوان جانتا ہے کہ وہ شخص آہنی اعصاب کا مالک تھا اور راجیو کے ہتک آمیز رویے پر بھی اس کے چہرے پر بدستور مسکراہٹ قائم رہی۔ چنائی کے لیے روانگی کے وقت ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو خدا حافظ کہنے سے پہلے کہا۔ ''مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں؟ بے شک کریں۔ لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ اس کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی ۔ یہ ایک روایتی جنگ نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہو گی۔ ممکنہ طور پر اس میں پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں موجود رہیں گے تاہم انڈیا کی تباہی کے بعد ہندومت کا پوری دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘
راجیو گاندھی کے پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے۔ جبکہ مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ صرف کچھ لمحات کے لیے ضیاء الحق ہمیں ایک نہایت خطرناک شخص نظر آیا۔ اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر لازماً عمل کرے گا اور پورے برصغیر کو ایٹمی جنگ کی مدد سے راکھ میں تبدیل کر دے گا۔میں دہل کر رہ گیا تھا۔ پلک جھپکتے ہی ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اس نے کھڑے دیگر لوگوں سے نہایت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ میرے اور راجیو کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بظاہر ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ضیاء الحق نے انڈین وزیر اعظم کے لیے شدید پریشانی پیدا کر دی ہے‘‘
بھارتی وزیر دفاع ہی نہیں وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ پاکستان کے خلاف زبان درازی کرتا اور دھمکیاں دیتا ہے مگر ہم آمادۂ فساد بھارتی قیادت کو کشمیری شالوں اور تملّق آمیز مسکراہٹ سے رام کرنا چاہتے ہیں جو برہمن مزاج کے منافی ہے۔ وہ غوریوں‘ لودھیوں‘مغلوں اور غزنویوں کے علاوہ انگریزوں کے سامنے اس وقت سرنگوں ہوا اورچاپلوسی کی جب اس کے سوا چارہ کار نہ تھا ورنہ اس نے ہر قوم‘ مذہب اور تہذیب کو ہڑپ کیا اور چین کو‘ جب تک طاقتور نہ ہو گیا آنکھیں دکھاتا رہا۔ ہمیں جب سے اس نے اپنے گھڑے کی مچھلی سمجھنا شروع کیا ہے پاکستان میں دہشت گردی‘ تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی ہے اور وہ آمادۂ مذاکرات بھی نہیں۔
جس دن ہم نے قائد اعظم کی طرح بھارتی قیادت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی‘ الگ نظریے‘ الگ تہذیب و ثقافت‘ الگ انداز فکر‘ الگ رہن سہن‘ الگ طرز خورو نوش اور الگ وطن پر اصرار کیا‘ لالہ جی کے کشمیر کے بدلے کراچی کے جواب میں ''جنگ پاکستان کے اندر نہیں بھارت کے اندر‘‘ کی ڈاکٹرائن پیش کی اس دن راجیو گاندھی کی طرح نریندر مودی اور منوہر پاریکرکے چہرے پر بھی ٹھنڈے پسینے کے قطرے نمودار ہوں گے اور وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھا مسئلہ کشمیر پر بات کر رہا ہو گا‘ آزمائش شرط ہے وگرنہ وزیرستان سے کراچی تک اس کی شرارتیں ختم ہوں گی نہ منوہر پاریکر جیسوں کی زبان بند۔
(پس تحریر: کراچی میں صحافیوں کی وحشیانہ پٹائی نے 1977ء میں مسلم مسجد اور چیئرنگ کراس کے واقعات یاد دلا دیئے۔ صحافیوں کو اس وقت بھی عوامی حکومت کی پولیس نے اسی انداز میں پیٹا تھا۔ پاگلوں اور درندوں کی طرح۔)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں