برمی مسلمانوں کی نسل کشی

کھلے سمندر میں کشتیوں پر سوار برما اور بنگلہ دیش کے غریب الدیار‘ بھوکے‘ پیاسے‘ خوفزدہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر افریقہ کے ایک مسلم اکثریتی ملک گیمبیا کو ترس آیا جو خود غربت و افلاس‘ بے روزگاری اور قحط سالی کا شکار ہے۔ گیمبیا کی حکومت نے کشتیوں میں محصور ان پچیس ہزار مرد و زن‘ بچوں اور بوڑھوں کو اپنے ہاں بسنے کی دعوت دی ہے جن پر فانی بدایونی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
فانی ہم تو جیتے جی وہ میّت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خط لکھا اور روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی تو پاکستانی عوام کا دھیان ایک بار پھر روہنگیا مسلمانوں کی طرف گیا‘ ورنہ ہمارا دفتر خارجہ چند ہفتے قبل ایک بیان دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا تھا۔ بانکی مون روہنگیا کو کرہ ارض کا سب سے زیادہ ستم رسیدہ گروہ قرار دیتے ہیں مگر برما اور بنگلہ دیش انہیں اپنا باشندہ تسلیم نہیں کرتے جو سنگدلی کی انتہا ہے۔
پچیس ہزار روہنگیا وہ ہیں جو کشتیوں پر سوار کبھی ایک ملک کے ساحل پر اترنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی دوسرے پر مگر کوئی انہیں لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ روٹی کے ایک لقمے اور پانی کی ایک بوند کو ترستے ہیں مگر انہیں میسر نہیں۔ جب ہیلی کاپٹروں سے خوراک کے تھیلے اور پانی کی بوتلیں کشتیوں میں پھینکی جاتی ہیں تو یہ آپس میں لڑتے جھگڑتے اور بسا اوقات ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوتے ہیں کیونکہ مفلسی اور بھوک نے ان کی حس لطافت مٹا دی ہے اور وہ اپنی بقا کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں حتیٰ کہ اپنے مظلوم ساتھیوں کا قتل بھی۔
مگر یہ روہنگیا مسلمان ہیں کون؟ اور یہ منزل سے ناآشنا کشتیوں پر سوار کیوں ہوئے؟
رنگون کے نام سے پاکستان و ہندوستان کا ہر مسلمان واقف ہے۔ انگریز نے ہندوستان میں مسلم سلطنت کا خاتمہ کرنے کے بعد آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر کو رنگون میں قید رکھا۔ جہاں 1862ء میں وفات سے قبل اس نے لافانی اشعار کہے:؎
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
اس بحر میں یہ شعر بھی رنگون کے قیدی سے منسوب ہے:
کتنا ہے بدنصیب ظفر‘ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
بہادر شاہ ظفر اس عالم ناپائیدار کو چھوڑ گئے مگر رنگون کے اردگرد بسنے والے برما کی کل آبادی کا چار فیصد مسلمان آج تک رنج و الم اور جور و ستم کا شکار ہیں۔ برما کے سرکاری اعداد و شمار میں برمی مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا چار فیصد ہے مگر مسلم تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں مسلمانوں کی تعداد بیس فیصد سے کم نہیں‘ البتہ اکثریت ان کی ''رکھینی‘‘ (اراکان) کے صوبہ میں ہے جہاں 1430ء سے لے کر 1784ء تک مسلمانوں کی آزاد ریاست قائم تھی۔ شاہجہان کے صاحبزادے شاہ شجاع نے اپنے بھائی اورنگزیب کے ساتھ جانشینی کی جنگ کے دوران اراکان میں پناہ لی تھی۔ برما کے دوسرے علاقوں میں البتہ مسلمانوں سے امتیازی سلوک ہر دور میں ہوا‘ پندرہویں سے اٹھارہویں صدی تک مسلمان تاجروں کے اثرورسوخ اور مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں سے خوفزدہ حکمرانوں نے اپنی اس موثر اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ‘ مسلم ذبیحہ پر پابندی اور خنزیر کھانے کا دبائو اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں ایک صوفی بزرگ کو خنزیر کھانے پر مجبور کیا گیا اور انکار پر شہید کر دیا گیا۔ برمی مسلمانوں میں سینہ بسینہ ایک روایت مشہور ہے کہ اس واقعہ کے بعد ایک ہفتہ تک برما اندھیرے کی زد میں رہا اور حکمران کی طرف سے معافی کے بعد برما نے سورج کا منہ دیکھا۔ انگریزعلاقے پر قابض ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں اور بدھوں کے مابین اختلاف اور تفرقے کو ہوا دی جس کے نتیجے میں 1930ء میں مشہور زمانہ مسلم کش فسادات ہوئے اور ہزاروں مسلمانوں کے علاوہ 113 مساجد کو شہید کر دیا گیا۔ سائمن کمیشن رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ سخت زیادتی ہوئی۔
جدوجہد آزادی میں مسلم عوام اور مسلمانوں کی چار موثر تنظیموں نے اینٹی فاشسٹ پیپلز فریڈم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا‘ مگر 1984ء میں آزادی کے بعد جنرل آنگ سان اوریونو(NNU) نے برما مسلم کانگریس کو اپنی صفوں سے نکال دیا اور 1955ء میں اس پر پابندی لگا کر برما کو بدھ سٹیٹ ڈیکلیئر کر دیا۔ برما کی آزادی کے ہیروز کی اس تنگ نظری‘ تعصب اور مسلم دشمنی کا فائدہ جنرل نی ون(Ni Vin) نے اٹھایا اور 1962ء میں مارشل لاء نافذ کر کے مسلمانوں کو برما اور فوج سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔ یہ ''برما برمیوں کا‘‘ کے نعرے کی صدائے بازگشت تھی جسے بدھ آبادی بالخصوص بدھ بھکشوئوں میں خوب پذیرائی ملی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کالا‘ غیر ملکی اور گائو کش قرار دے کر اچھوت بنا دیا گیا۔
مسلمانوں پر ذبیحہ کی پابندی ہے۔ عیدالاضحی پر انہیں بھاری فیس کے عوض قربانی کا پرمٹ لینا پڑتا ہے۔ عید کے اجتماعات کی ممانعت ہے‘ اب رمضان کے روزوں‘ مساجد میں اذان‘ سحر و افطار کے اعلان اور نکاح و جنازہ کی تقاریب پر انہیں فوجی تشدد اور بدھ انتہا پسندوں کی طرف سے تعذیب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ پچاس سال کے دوران دو لاکھ مسلمان شہید ہو چکے ہیں اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات مبالغہ آمیز حد تک ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یو این انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ برما کی فوجی حکومت کا طریقہ واردات یہ رہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم چلتی ہے‘ مسلم کش فسادات ہوتے ہیں‘ ہزاروں لوگ گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور ڈرا دھمکا کر مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔1991ء میں ایک لاکھ مسلمانوں کو زبردستی بنگلہ دیش میں داخلے پر مجبور کیا گیا جس پر دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی اور 1992ء میں ایک معاہدے کے بعد صورتحال نارمل ہوئی۔ جب اس معاہدے کے تحت اراکان مسلمان واپس آئے تو انہیں بنگالی ڈیکلیئر کر کے کیمپوں میں پناہ گزین کے طور پر رہنے پر مجبور کیا گیا اور یہ عمل تسلسل سے جاری ہے۔ صوبوں سے برما کے باسیوں کو ملک بدر کیا اور واپسی پر غیر ملکی قرار دے کر نسل کشی کا آغاز کر دیا۔
انسانی حقوق کی چیمپئن نوبل انعام یافتہ اور برما میں جمہوریت کی علامت آنگ سان سوچی محض فوجی حکمرانوں کی خوشنودی اور بدھ اکثریت کے خوف سے اس صورتحال پر خاموش ہے کیونکہ اس سال کے پارلیمانی انتخابات میں وہ بدھ اکثریت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتی۔ مسلم ممالک بھی منقار زیر پر ہیں۔ مسلم عوام کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اپنے‘ بے حمیت امریکہ نواز حکمرانوں‘ مغرب سے مرعوب ذہنوں اور اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مصروف سیاسی قیادتوں کے برعکس اراکان کے مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ہر جگہ ان کے حق میں آواز بلند ہو رہی ہے۔ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کی ترجیحات مختلف ہیں۔ اسے سیاسی جوکروں کی آئو بھگت سے فرصت ہے نہ ایان علی‘ اور ذوالفقار مرزا کے سوا کچھ نظر آتا ہے مگر پرنٹ میڈیا اورسوشل میڈیا پر برما کے مظلوم‘ بے بس اور بے آسرا مسلمانوں کا ذکر ہونے لگا ہے جو اخوت اسلامی کا تقاضا ہے ؎
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے
اراکانی مسلمانوں کی ملک بدری اور نسل کشی پر خاموشی سنگدلی اور انسانیت دشمنی ہے اور یہ جرم ''نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر‘‘ کی علمبردار پاکستانی قوم سے سرزد نہیں ہونا چاہیے۔ بعض حلقے بنگلہ دیش کو خاموش تماشائی ظاہر کر رہے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت کے برعکس عوام اپنے مسلمان بھائیوں کو گلے لگانے کے لیے تیار ہیں جبکہ برما کی فوجی جنتا کی چال یہ ہے کہ اراکانی مسلمانوں کو بنگالی ثابت کر کے انہیں مقامی شہریت سے محروم کر دیا جائے مگر وقت بدلتے دیر نہیں لگتی‘ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں 17 ممالک کی کانفرنس میں کشتیوں میں محصور روہنگیا مسلمانوں کا درد محسوس کیا گیا‘ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی شور مچایا ہے اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف نے بھی انگڑائی لی ہے۔ خدا نے چاہا تو خون شہیداں رنگ لائے گا اور صرف انسانی حقوق ہی نہیں آزادی بھی اراکان مسلمانوں کا مقدر بنے گی‘ انشاء اللہ۔ جو سینکڑوں بے گناہ اراکانی مرد و زن کھلے آسمان تلے کشتیوں میں بے کسی کی موت مرے وہ تو اپنے خدا کے حضور سرخرو ہیں۔
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بے کسی کی شرم
مگر وہ لوگ روز قیامت رب کعبہ کو کیا منہ دکھائیں گے جو خدایان واشنگٹن سے ناتا جوڑ کر انہیں بھول گئے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں