تاویل نہیں توبہ جناب والا!

بی بی سی کی رپورٹ پر متحدہ قومی موومنٹ کا ردعمل پڑھ کر مایوسی ہوئی۔ کہا گیا ''ایم کیو ایم ایک محب وطن سیاسی جماعت ہے اور وہ پاکستان کی یکجہتی اور استحکام پر کامل یقین رکھتی ہے‘ ایم کیو ایم کے خلاف لگائے جانے والے الزامات سچے نہیں۔ رپورٹ ایم کیو ایم کے خلاف کئی برسوں سے جاری میڈیا ٹرائل کا حصہ ہے‘ انشاء اللہ یہ میڈیا ٹرائل بھی ماضی کی طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں ایم کیو ایم 1988ء سے انتخابی عمل میں شریک ہے ۔ بطور جماعت اسے میاں نواز شریف‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے اپنا حلیف بنایا‘ شریک اقتدار کیا اور کراچی عملاً ایم کیو ایم کے حوالے کر دیا جو اس بات کا اعتراف تھا کہ یہ ایک محب وطن جماعت ہے مگر بدلے میں کراچی اور حیدر آباد کو کیا ملا؟ بدامنی ‘ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ اور نسلی و لسانی منافرت۔
بی بی سی کی ایم کیو ایم کے بارے میں یہ پہلی سٹوری نہیں۔ بی بی سی کے علاو بھی کئی عالمی نشریاتی و صحافتی ادارے ایم کیو ایم کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات کر چکے ہیں۔ پچھلے سال جب ایسی ہی ڈاکیومینٹری بی بی سی سے نشر ہوئی تھی تو ایم کیو ایم نے اس پر احتجاج کیا‘ اور نیوز نائٹ میں نشر ہونے والی سٹوری کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔ ایم کیو ایم نے اس دستاویزی فلم کے خلاف ایک احتجاجی مراسلہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے نام لکھا اور کراچی میں متعین برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر جان ٹک ناٹ کے حوالے کیا‘ تاہم اعلان کے مطابق ادارے کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی۔
ستمبر2013ء میں ڈیکلن والش نے نیو یارک ٹائمز میں ایم کیو ایم کے اندرونی بحران اور الطاف حسین کی پارٹی پر کمزور پڑتی گرفت کے حوالے سے تجزیاتی رپورٹ شائع کی جس میں 2008ء کی ایک امریکی سفارتی کیبل کا حوالہ دیا۔ اس سفارتی کیبل میں بتایا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کی متحرک و فعال ملیشیا دس ہزار مسلح افراد پر مشتمل ہے جبکہ ریزرو فورس میں 25000کارکن شامل ہیں۔
الطاف بھائی کے دورۂ ہندوستان میں جوشیلے خطاب کو نظر انداز بھی کر دیا جائے جس میں انہوں نے بھارتی قیادت سے 1947ء کی غلطی سدھارنے کی اپیل کی تو پھر بھی 2001ء میں اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو لکھے گئے خط کا کیا جواز ہے جس میں قائد تحریک نے آئی ایس آئی کو ختم کرنے کے لیے اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات پیش کیں اور کہا کہ اگر برطانوی حکومت اس حوالے سے حکومت پاکستان پر دبائو ڈالے تو ان کی پارٹی کے لاکھوں منظم کارکن‘ کراچی‘ سندھ اور پورے ملک میں احتجاجی ریلیاں اور اجتماعات کے ذریعے اس مطالبہ کی بھر پور حمایت کریں گی۔ اس خط میں الطاف بھائی نے برطانوی وزیر اعظم کو یہ بھی باور کرایا کہ اگر آئی ایس آئی ختم نہ ہو ئی تو اسامہ بن لادن اور طالبان جنم لیتے رہیں گے۔
ان خدمات کے عوض الطاف بھائی نے
''Equitable Participation in the Governance of the Province of Sindh and the Federation as Partners.
کی فرمائش کی۔ بعدازاں 10ڈائوننگ سٹریٹ نے یہ خط موصول ہونے کی تصدیق کی؛ البتہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات کی بنا پر خط کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔
ایم کیو ایم میں بیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر محمد علی سیف جیسے قانون دان شامل ہیں جن کی پیشہ ورانہ مہارت مسلمہ ہے اور یہ اعلیٰ بیرونی جامعات کے فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ امریکہ و برطانیہ کے قوانین‘ عدالتی نظام اور طریقہ کار سے بخوبی واقف ہیں۔ اگر ایم کیو ایم نے بی بی سی کی پہلی اور دوسری دستاویزی فلم اور نیو یارک ٹائمز میں ڈیکلن والش کی ''بے بنیاد‘‘ ''متعصبانہ‘‘ ''لغو‘‘ اور ''دلآزار‘‘ سٹوری پر قانونی چارہ جوئی کی ہوتی تو کم از کم اوئن بینیٹ جونز کو تازہ سٹوری فائل کرنے اور بی بی سی کو دستاویزی فلم نشر کرنے کی جرأت ہرگز نہ ہوتی۔ ایک بار بی بی سی غیر مصدقہ خبر نشر کرنے پر اپنی پوری ٹیم سے ہاتھ دھوچکی ہے۔
امیر تیمور نے‘ جسے تاریخ نے تیمور لنگ کے نام سے یاد رکھا‘ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا''طاقت اور کمزوری بذات خود کوئی شئے نہیں‘ میری کمزوری میرے دشمن کی طاقت ہے اور اس کی کمزوری میری قوت و طاقت کا منبع‘‘پاکستان میں اربوں‘کھربوں کی لوٹ کھسوٹ ‘ بھتہ خوری ‘ ٹارگٹ کلنگ‘ دہشت گردی حتیٰ کہ ملک دشمنی اور ''را‘‘ کی ایجنٹی کے حوالے سے بدنام افراد اور گروہ اتنے ڈھیٹ اور طاقتور ہیں کہ یہ اپنے کیے پر پچھتاتے نہ قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔ بلکہ ریاست اور ریاستی اداروں کی کمزوری‘ بے عملی‘ مصلحت اندیشی اور غفلت شعاری قیامت ڈھا رہی ہے اور صرف کراچی ہی نہیں پورا ملک جرائم پیشہ افراد اور تنظیموں کے لیے حلوائی کی دکان بن گیا ہے جس پر وہ نانا جی کی فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم پر ایم کیو ایم اور ان کے حامی دانشوروں کے اعتراضات بجا مگر ایک آدھ سوال کا جواب قوم کو بھی درکار ہے۔ بی بی سی کو آخر ایم کیو ایم سے پرخاش کیا ہے؟ کوئی نظریاتی اختلاف‘ مفادات کا ٹکرائو یا ذاتی عناد؟ الطاف بھائی ملکہ برطانیہ کے وفادار شہری ہیں اور بی بی سی ایک ایسا ریاستی ادارہ‘ جس نے برسوں نہیں عشروں میں اپنی ساکھ بنائی ہے ‘ ایم کیو ایم نے بی بی سی کو کبھی اس طرح تنگ نہیں کیا جس طرح پاکستانی میڈیا شاکی ہے ۔ بی بی سی کاکوئی نمائندہ کراچی میں اور ایم کیو ایم کا کوئی نمائندہ لندن یا کسی دوسری جگہ ایک دوسرے کے عتاب کا شکارنہیں ہوا۔
پچھلے سال دستاویزی فلم چلی تو ایم کیو ایم نے بی بی سی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے بجائے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو احتجاجی مراسلہ لکھا اس کے باوجود بی بی سی بار بار دستاویزی فلمیں کیوں نشر کر رہا ہے۔ ایک سوال یہ بھی کہ بی بی سی نے اس معاملے میں بھارت کو ملوث کیا ہے برطانیہ اور بھارت کے تعلقات خوشگوار اور دوستانہ ہیں۔ بھارت امریکہ و یورپ کی چہیتی ریاست ہے اور کوئی یورپی ملک یا ادارہ بھارت کی ناراضگی مول لینا پسند نہیں کرتا مگر بی بی سی نے کسی ناخوشگوار ردعمل کی پروا کئے بغیر بھارت کو ملوث کیا اور بھارت سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ ''ایم کیو ایم کی مالی مدد کا دعویٰ قطعی بے بنیاد ہے اور پاکستان کی گورننس کی خرابیوںکو پڑوسیوں پر الزام تراشی سے نہیں چھپایا جا سکتا‘‘ سوال یہ ہے کہ الزام بی بی سی لگا رہا ہے جواب میں پاکستان کی گورننس کی خرابیاں گنوائی جا رہی ہیں۔ کیا بی بی سی پاکستان کا ماتحت ادارہ ہے یا پروپیگنڈہ مشینری کا حصہ؟
ایم کیو ایم کے لیڈروں اور کارکنوں سے یہ پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ آخر وہ ہر الزام کو بے بنیاد‘ ثبوت کو ناکافی اور شہادت کو ناقابل اعتبار قرار دینے کے بجائے اپنی ادائوں پر غور کیوں نہیں کرتے کیونکہ سیاسی جماعتیں پیر خانے ہیں اور ان کے قائدین روحانی و مذہبی پیشوائوں سے زیادہ مقدس۔ ان سے کوئی سوال ہو سکتا ہے نہ یہ کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کا تکلف گوارا کرتے ہیں۔ تاہم گستاخی معاف کوئی یہ تو بتائے جب سے ایم کیو ایم وجود میں آئی اور سیاست میں سرگرم ہونے کے علاوہ ہر سول و فوجی حکومت میں شامل ہوئی کراچی کا امن رخصت کیوں ہو گیا؟ کیا ایم کیو ایم کے مخلص اور محب وطن کارکن اور سادہ لوح ووٹر کبھی اس حوالے سے سوچنے اور اپنی قیادت کے روبرو لب کھولنے کی زحمت گواراکریں گے۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم نے حکومت اور ریاست کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ الزام معمولی نہیں‘ دشمن ملک سے مالی امداد لینے اور مسلح تربیت حاصل کرنے کا ہے جس کی تحقیق و تفتیش سنجیدگی اور ذمہ داری سے ہونی چاہیے اور درست ثابت ہونے کی صورت میں آئین و قانون کے مطابق کارروائی ازبس ضروری ہے ورنہ رینجرز کے آپریشن اور آپریشن ضرب عضب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر ''را‘‘ کے تربیت یافتہ ایجنٹوں سے بھی محض سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ریاست اور حکومت تعرض نہیں کرتی تو پھر یہ کس مرض کی دوا ہے۔ اندرون و بیرون ملک حالات سازگار ہیں اب بھی یہ بروئے کار نہیں آتی تو معلوم نہیں کب آئے گی۔
عین اس روز جب بی بی سی نے دستاویزی فلم چلائی سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے ہونہار جانشین بلاول بھٹو زرداری بیرون ملک سدھار گئے۔ چند دن پہلے زرداری صاحب فوج اور رینجرز پر گرج برس رہے تھے۔ ملک اور فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے‘ فہرستیں افشا کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے مگر جواب کا انتظار کئے بغیر پہلے ''ادّی‘‘ کو باہر بھیجا پھر خود بھی کوچ کر گئے؎
یہ ایک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
تاویل اور حیلہ سازی نہیںشور و غوغا اور سینہ کوبی بھی نہیں‘ اعتراف اور تلافی مافات ہی بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے‘ جس کا اہتمام ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو خوش دلی اور جذبہ حب الوطنی سے کرنا چاہیے۔ اپنے آپ کو معصوم عن الخطا اور پوری دنیا کو اپنا دشمن سمجھنا دانش مندی نہیں‘ ایک مرض ہے جس کا علاج خود احتسابی اور توبہ ہے۔ کاش کوئی الطاف بھائی اور مردحُر کو یہ معمولی سی بات سمجھا سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں