’’شیطان بزرگ‘‘ سے معانقہ

ایران کے ''شیطان بزرگ‘‘ سے مصافحہ بلکہ معانقہ پر دنیا بھر میں مثبت اور منفی تبصرے جاری ہیں کسی کو ایران امریکہ کے سامنے سجدہ ریز نظر آتا ہے اور کوئی اسے سپر پاور کی پسپائی و رسوائی سے تعبیر کر رہا ہے۔ 
1979ء میں ایرانی انقلاب مسلمانوں کی تاریخ کا محیرالعقول واقعہ تھا۔ ایک ایسی قوم نے جس پر الزام تھا کہ وہ صدیوں سے سلاطین و ملوک کی باجگزار چلی آ رہی ہے اور جس کے مسلک میں قیام حکومت امام مہدیؓ کے ظہور سے مشروط تھا۔ عوام کی طاقت اور پرامن جمہوری جدوجہد سے پہلوی شہنشاہیت کا تختہ الٹ کر ون مین ون ووٹ کا اصول رائج کر دیا۔
اس وقت تک کسی دوسرے مسلم ملک میں عوام‘ سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں نے ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا تھا۔ جہاں جہاں بھی جمہوری اور عوامی تحریک چلی بالآخر فوجی راج کے قیام پر منتج ہوئی۔ پاکستان میں یہ تجربہ بار بار ہوا۔ ایرانی انقلاب کے کم و بیش تیس اکتیس سال بعد عرب بہار بھی اسی انجام سے دوچار ہوئی۔ اس انقلاب کی ایک انفرادیت یہ بھی تھی کہ ملک میں تو ہر نقطہ نظر کی جماعتوں اور گروہوں نے تبدیلی میں اپنا کردار ادا کیا دائیں‘ بائیں ' لبرل‘ مذہبی اور امریکہ نواز‘ روس نواز‘ وغیرہ وغیرہ مگر بیرون ملک اسے کسی مسلم یا غیر مسلم ریاست کی عملی سپورٹ حاصل نہ تھی۔
اس انقلاب کو ابتدا میں عالم اسلام نے سراہا اپنے اپنے سلاطین‘ بادشاہوں اور امریکہ نواز آمروں کے ستم رسیدہ مسلم عوام بالخصوص نوجوانوں نے اس انقلاب کو نوید سحر سمجھا اور انقلابی قیادت کی طرف سے بھی لاشرقیہ ‘ لاغربیہ اسلامیہ جمہوریہ کے نعرے لگے۔ مگر پھر ایران عراق جنگ میں امریکہ نواز عرب ریاستوں نے چالاکی سے ایرانی انقلاب پر شیعہ انقلاب کا لیبل لگا دیا اسے ایکسپورٹ کرنے کی ایرانی سازش کا ڈھنڈورا پیٹا اور اپنے عوام کو ڈرا دیا کہ یہ انقلاب نہیں بلکہ غیر شیعہ اور عرب ممالک کو تہس نہس کرنے کا منصوبہ ہے۔ بدقسمتی سے ایرانی مذہبی قیادت نے بھی خمینی تعلیمات کے برعکس اس الزام کو اعزازسمجھ کر اپنے مسلک میں پناہ لی یوں ایک عوامی انقلاب ایک مخصوص مسلک اور ملک کی تنگنائے میں محدود ہو گیا۔
ایرانی علماء نے آئین کی تشکیل اور سیاسی نظام کی تدوین میں عصر حاضر کے تقاضوں اور دوسرے مسلم ممالک و مسالک کے جذبات و احساسات کو قابل توجہ نہ سمجھا اور ایران کو جدید طرز کی مسلم ریاست بنانے کے لیے کوئی عملی اور شعوری کوشش نہیں کی۔ شاید ان کے مدنظر سعودی عرب کا تجربہ تھا جہاں شیخ محمد ابن عبدالوہابؒ کی تعلیمات کو بہ جبر نافذ کرکے آل سعود نے اسلامی دنیا کی توجہ حاصل کی اور اپنے اقتدار کو طوالت دی۔
ایران عراق جنگ کے بعد ایران ایک لحاظ سے امریکہ و یورپ کے علاوہ عالم عرب سے بھی کٹ گیا سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ کو جو عالمی بالادستی حاصل ہوئی اس نے ایران کی مشکلات میں اضافہ کیا ۔ افغانستان ‘ عراق‘ شام اور لبنان میں ایران کا موقف امریکہ سے کہیں متصادم اور کہیں مفاہمانہ رہا مگر اس نے امریکی بالادستی کو ہر جگہ چیلنج کیا۔9/11سے قبل ایران واحد شیعہ ریاست تھی اب عراق میں بھی اس کی ہمنوا حکومت قائم ہے اور شمالی اتحاد کے ذریعے وہ افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کر چکا ہے۔
امریکی اتحادیوں اور ایران کے مابین تنازع کی بنیاد ایٹمی پروگرام نہ تھا اصل جھگڑا رضا شاہ کی برطرفی کے بعد ایک ایسی مذہبی حکومت کے قیام سے شروع ہوا جو مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگاتی اور عالم اسلام میں امریکی اثرونفوذ کو چیلنج کرتی تھی۔ ایران کا طرز حکومت جو جمہوریت اور مذہبی پیشوائیت کا ملغوبہ ہے‘ امریکہ و مغرب کے لیے ہمیشہ ناقابل قبول رہا اور 1990ء کے عشرے میں امریکہ اپنے جمہوریت نواز اتحادیوں کے ساتھ مل کر پہلوی شہنشاہیت کی بحالی کے لیے درمے‘ درمے‘ سخنے جدوجہد کرتا رہا۔ اربوں ڈالر اس مقصد کے لیے خرچ کیے گئے اور رضا شاہ پہلوی کے صاحبزادے کو عالمی دارالحکومتوں میں پذیرائی بخشی گئی مگر معاشی مسائل اور اقتصادی بدحالی کے شکار ایرانی عوام نے کسی امریکی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
ایران نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ملے جلے سگنل دیے وہ 1970ء سے این پی ٹی کا دستخط کنندہ بلکہ محرک ہے۔ ایک طرف ایرانی رہبر آیت اللہ خامنائی نے ایٹم بم بنانے کو حرام قرار دیا دوسری طرف آئی اے ای کے انسپکٹروں کے ذریعے دنیا کو یہ اطلاعات ملتی رہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ سب سے زیادہ شور اسرائیل نے مچایا‘ جس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایران نے اپنے سیاسی نظام ‘ طرز حکومت ‘ امریکہ مخالف پالیسیوں اور خطے میں مخصوص کردار سے توجہ ہٹا کر امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو ایٹمی پروگرام کے پیچھے لگا دیا۔ اختلاف اب ایران کی پالیسیاں اور سیاسی حکمت عملی نہیں صرف اور صرف ایٹمی پروگرام میں پیش رفت اور یورینیم کی افزودگی پر تھا جسے ایران نے مذاکرات کا مرکزی نقطہ بنا کر کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت سمجھوتہ کر لیا۔
ایران میں شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد خطے کی تھانیداری کے لیے سعودی عرب‘ مصر اور پاکستان کو موقع ملا۔ مگر کسی ایک کی قیادت رضا شاہ کا خلا پر نہ کر سکی۔ پاکستان تو پھر بھی ایٹمی طاقت بن گیا اور اس کی فوجی قوت و صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا مگر سعودی عرب نے کسی شعبے میں بھی قابل رشک کارنامہ انجام نہیں دیا۔ یہی حال مصر کا ہے ایران نے پابندیوں کے دور میں خود انحصاری کا تجربہ کیا اقتصادی و معاشی محاصرے کے دوران زندہ رہنے کے گر سیکھے اور اپنے نظام کو اس قدر مضبوط ضرور کر لیا کہ کسی بیرونی سازش یا اندرونی ریشہ دوانی کا سن کر یہ تھر تھر کانپنے نہیں لگتا۔ ایرانی مستقبل کے فیصلے تہران میں ہوتے ہیں واشنگٹن‘ لندن‘ جنیوا میں نہیں۔ ایران میں کسی باغی‘ علیحدگی پسند‘ دہشت گرد یا اصلاح پسند کے ساتھ محض اس بنا پر رعایت نہیں برتی جاتی کہ وہ امریکہ کا گماشتہ اور مغرب کا نور چشم ہے۔
ایران نے اپنی خود مختاری کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور اب وہ شائد مزید قیمت ادا کرنے کے قابل نہ تھا۔ ایران میں کوئی قدیر خان تھا جو بہ سرعت ایٹمی پروگرام کرتا نہ ضیاء الحق جیسا شاطر حکمران‘ جو ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ملک کو ایٹمی طاقت بنا سکتا۔ مگر ایرانی قیادت کو یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ اس نے صدام حسین کی طرح ایران کی اینٹ سے اینٹ بجنے دی نہ پاکستانی و مصری حکمرانوں کی طرح اپنے ملک اور عوام کے گلے میں امریکی غلامی کا پٹہ ڈالا حتیٰ کہ غیر ملکی نظریات اور کارندوں کو بھی پنپنے کا موقع نہیں دیا۔
اس معاہدہ کے بعد اوبامہ اپنی کامیابی کا ڈنکا بجا سکتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کے دیرینہ دشمن کو رام کر لیا‘ وہ داعش کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے ایران کی مدد چاہیں گے جس سے شیعہ سنی چپقلش مزید تیز ہونے اور خطے کے آتش فشاں بننے کا اندیشہ ہے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایرانی قیادت اب مسلکی خول سے نکل کر لاشرقیہ ‘ لاغربیہ اسلامیہ جمہوریہ کے دیرینہ نعرے کو شدو مد سے بلند کرے اور آیت اللہ خمینی کے الفاظ میں شیعہ و سنی کا تفرقہ پیدا کرنے والوں کو دونوں کا دشمن اور اسلام کا بدخواہ قرار دے کر دیگر مسلم ممالک سے تعلقات کی نئی راہیں کھولے تاکہ اس پر شیطان بزرگ کا آلہ کار ہونے کا لیبل چسپاں نہ کیا جا سکے۔
ایران اپنے ہمسایہ عرب ممالک کے برعکس افرادی قوت‘ ہنر مندی‘ علم و دانش میں کسی کا محتاج نہیں‘ امریکہ و یورپ کے تعلیم یافتہ افراد ہزاروں کی تعداد میں میسر ہیں اور معدنی وسائل کی بھی کمی نہیں۔ جس کی وجہ سے ایران چند برسوں میں تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے جبکہ اپنی فوج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے بھی اب کوئی رکاوٹ باقی نہیںرہی۔اس لحاظ سے ایران علاقے کے نمایاں پلیئر کے طور پر ابھرے گا۔
اگر اس نے ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت کی پالیسی پر نظر ثانی کی۔ عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ہمسایوں سے چپقلش و تصادم کے بجائے مفاہمت و تعاون کا راستہ اختیار کیا اور سعودی عرب‘ پاکستان‘ ترکی‘ افغانستان اور مصر کے ساتھ بہتر ‘ دوستانہ اور مضبوط تعلقات کی دانشمندانہ حکمت عملی تیار کی تو نہ صرف وہ خود مستحکم ہو گا بلکہ خطے میں بھی استحکام کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن اگر ایران کی مذہبی قیادت نے خوابوں کی دنیا میں رہتے ہوئے کوئی نیا ایڈونچر کیا تو یہ اس کی اور عالم اسلام کی بدقسمتی ہو گی۔
امریکی حکمرانوں سیاستدانوں اور دانشوروں کو اب یہ سوچنا چاہیے کہ ایران کے ساتھ تنازع کہاں سے شروع ہوا تھا؟ کہاں ختم ہوا؟ ایران کا سیاسی نظام ‘ مذہبی تشخص اور تہذیب و ثقافت اب کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔کامیاب کون رہا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں