شکوہ و شکائت کی نفسیات

برطانوی حکومت الطاف بھائی کو تادم مرگ بھوک ہڑتال کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ رابطہ کمیٹی نے الطاف بھائی سے بھوک ہڑتال نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ توقع یہ ہے کہ الطاف بھائی رابطہ کمیٹی کی اپیل کو شرف پذیرائی بخشیں گے، وہ کئی بار رابطہ کمیٹی کی اپیل پر اپنا استعفیٰ واپس لے چکے ہیں۔ برطانوی حکومت البتہ حیران اور پریشان ضرور ہوگی کہ الطاف بھائی کو شکائت پاکستان میں وفاق اور صوبائی حکومت سے ہے، بھوک ہڑتال وہ لندن میں کر رہے ہیں۔ بھلا ہمارا ان شکوہ و شکایات سے کیا لینا دینا؟
پاکستان میں شکوہ و شکائت کا کلچر حکمرانوں اور ریاستی اداروں کی نااہلی، نالائقی، بے نیازی اور غفلت و سہل پسندی کے سبب فروغ پذیر ہوا اور اب قوم کی عادت ثانیہ بن چکا ہے۔ جائز اور ناجائز اور درست و غلط کی تمیز بھی باقی نہیں رہی۔ ہر آدمی ایک دوسرے سے اور ہر طبقہ ریاست ، حکومت اور ریاستی اداروں سے شاکی ہے اور کوئی یہ سوچنے کیلئے تیار نہیں کہ بے جا شکوہ و شکائت منفی سوچ اور رویوں کو جنم دے رہا ہے۔
ہمارے لیڈران کرام نے اسے اپنے اور اپنے پیروکاروں کے حقوق سے جوڑ کر یہ منفی ذہنیت پیدا کر دی ہے کہ ریاست، ریاستی ادارے اور دوسرے طبقات ہمارے حقوق تلف کر رہے ہیں۔ جن کے خلاف شکائت کی لے جتنی تیز ہو گی پذیرائی کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا اور لوگ ہمیں سچا اور مظلوم سمجھ کر نہ صرف ترس کھائیں گے بلکہ ہمارے ساتھ جڑے بھی رہیں گے۔
یہ صرف الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کے دوسرے لیڈروں کا المیہ نہیں۔ ہم بحیثیت قوم شکوہ و شکائت کی نفسیات سے مغلوب ہیں۔ ہم میں سے جس کو جب بھی موقع ملتا ہے‘ اپنی قسمت، حالات، ریاست‘ خاندان اور دوست احباب سے شکایات کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی ہر محرومی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے کر دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ تان بالعموم پاکستان پر ٹوٹتی ہے کہ اس نے ہمیں کیا دیا؟
کراچی1947ء میں کیا تھا؟ اب کیا ہے؟ اور مچھیروں کی اس بستی میں بسنے والوں کو پاکستان کے طفیل کیا کچھ نہیں ملا؟ کوئی بھلا سوچے تو؟ 1970ء کے عشرے میں لسانی فسادات اور 1980ء کے عشرے سے جاری انارکی، نسلی و لسانی تنازعات، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کس طرح پروان چڑھی؟ کس نے چڑھائی؟ اور کون اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟ ان سوالات کا جواب دینے کے بجائے ہم سب ایک دوسرے اور پاکستان پر ملبہ ڈال کر مطمئن ہیں کہ ہمارا ذمہ توش پوش۔
شکائت چنداں سادہ چیز نہیں۔ یہ ناشکرے پن سے جڑی ہے اور ناشکرا پن انسان کو منفی جذبات کی آماجگاہ بناتا اور آمادہ فساد کرتا ہے‘ یہ منفی احساسات کو فزوں تر اور مثبت احساسات و جذبات کو مردہ کر دیتا ہے۔ محرومی اور مایوسی زندگی کے تلخ حقائق ہیں جن کا مقابلہ جوانمردی اور ہمت سے کیا جا سکتا ہے۔ دوسروں پر ظلم اور اپنے آپ پر ترس کھانے سے نہیں۔ 
صرف کراچی ہی نہیں لاہور، کوئٹہ، پشاور، اسلام آباد میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو 1947ء کے برعکس اینٹ گارے کے ناپختہ مکان، پھٹے پرانے، تباہ حال کاروباری مراکز، مفلسی کی تصویر ننگ دھڑنگ بچے اور خاک میں لتھڑے ہوئے‘ اندوہ میں نہلائے ہوئے چہرے نظر آتے بھی ہیں تو ان کا تناسب ماضی سے کم ہے بہت کم۔ البتہ نوتعمیر پختہ مکانوں، دکانوں اور کھوکھوں کی بہار ہے اور ہر طرح کے سامان سے بھرے سربفلک پلازوں میں بے تحاشا رش۔ کسی علاقے کی محرومی، پسماندگی، مفلوک الحالی اور پسماندگی تو درودیوار سے ٹپکتی اور جملہ مردوزن کے چہروں پر جلی الفاظ میں لکھی نظر آتی ہے جبکہ کم از کم شہروں، بالخصوص کراچی کی حد تک یہاں دیدہ اور شنیدہ میں کوئی تال میل نظر نہیں آتا۔
اس کے باوجود ہر علاقے، قصبے، شہر اور دیہات میں لوگ قدم قدم پر، ہر محفل اور گفتگو میں مایوسی پھیلاتے اور ناشکرا پن بانٹتے نظر آتے ہیں۔ جس شخص کے پاس چند سال قبل بائیسکل نہ تھی اب نئے ماڈل کی کار میں سوار کسی مہنگے ریستوران کا رخ کرتا ہے ۔چائے، پیسٹری کا رواج نہیں رہا ہائی ٹی میں پیزا، کباب، چکن بوٹی، فش فنگر، سینڈ وچ اور پیٹز سے شکم سیر ہوتا‘ مہنگے برانڈ کا پانی اور نفیس کافی نوش جاں کرتا اور پھر کم آمدنی، مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قلت کا رونا شروع کر دیتا ہے۔ پسماندگی، اقتصادی بدحالی اور معاشی عدم مساوات کی وہ تصویر کشی کرتا ہے کہ آدمی کچھ دے دلا کر اس کی محرومی و مایوسی کا ازالہ کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔
2010ء میں سیلاب کے بعد جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں جانے کا موقع ملا تو وہ لوگ بھی شکوہ کناں نظر آئے جن کے گھروں میں اگلے ایک سال کا راشن، بناسپتی گھی، چاول، دالیں، مصالحہ جات، چائے کے پیکٹوں اور منرل واٹر کی بوتلوں کی صورت میں جمع ہو چکا ہے۔ اتنا زیادہ سامان آیا ہے کہ لوگوں نے محنت مزدوری چھوڑ کر اس جمع شدہ سامان سے دکانیں کھول لی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان شہر اور مضافات میں مزدور اور کارکن چھ سات سو روپے دیہاڑی پر دستیاب نہیں ۔ نئے سائیکلوں اور موٹرسائیکلوں کی خریدوفروخت بڑھ گئی ہے اور زائد سامان بازاروں میں بک رہا ہے مگر جس کسی سے پوچھو وہ یہی رونا روئے گا کہ ترکی، سعودی عرب اور دیگر ممالک کے فرستادہ لوگوں نے تو ان کی کچھ نہ کچھ امداد کی حکومت نے کچھ نہیں کیا اور ہم تنگدستی کے عذاب میںمبتلا ہیں حالانکہ یہ تنگدستی نہیں ناشکرے پن کا عذاب ہے جس میں پوری قوم مبتلا ہے۔
راجن پور کے قریب میرا پیدائشی قصبہ شکار پور 2010ء میں سیلاب سے محفوظ رہا۔ قصبے کے قریب واقع بستیاں البتہ ڈوب گئیں مگر جن کا دائو لگا انہوں نے اپنے آپ کو متاثرین سیلاب کی صف میں شامل کرکے امداد بھی لی اور وطن کارڈ بھی بنوائے کیونکہ اردگرد کے سبھی لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے یہ کیوں پیچھے رہتے۔ یہ وہ قصبہ ہے جہاں بچپن میںمقامی ایم پی اے سردار کرم الٰہی خان دریشک کی کھٹارہ جیپ دیکھنے کیلئے بچوں، جوانوں اور بڑوںکا مجمع اکٹھا ہو جاتا کرتا تھا‘ اب موٹر سائیکلیں، جیپیں، کاریں فراٹے بھرتی پھرتی ہیں اور کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ لیکن صرف شکار پور ہی کیوں؟ لاہور، کراچی، اسلام آباد میں جس سے پوچھو وہ حالات کی ستم ظریفی اور اپنی کم نصیبی پر خون کے آنسو روتا ہے۔
2010ء کے سیلاب کو سندھی سیاستدانوں نے جس طرح کیش کرایا وہ لوگوں کو اب تک یاد ہے۔ بڑے بڑے جاگیردار، صنعتکار، تاجر، سرمایہ دار، جج، جرنیل، دانشور سب کثرت کی خواہش میں ہلکان اور ناشکرے پن کے موذی مرض میںمبتلا، زبان پر کفران نعمت کا ورد اور دل و دماغ میں نعمتوں کے کھو جانے کا اندیشہ؛ البتہ جنہیں رزق حلال مرغوب اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا احساس ہے وہ روکھی سوکھی پر بھی کلمہ شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی اقبالؒ کی مومنانہ فراست، قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور پاکستان کے بہتر حال اور بہترین مستقبل کے گن گاتے ہیں۔ روکھی سوکھی پر مطمئن اور راضی برضا انہی لوگوں کے طفیل ہم زندہ قوم ہیں۔
الطاف بھائی اور ان کے پیروکاروں کی جائز شکایات کا ازالہ حکومت اور ریاست دونوں کو کرناچاہیے مگر شکوہ و شکائت کی جس نفسیات میں یہ سیاسی گروہ گرفتار ہے اس پر نظرثانی بھی ضروری ہے اور اس حقیقت کا ادراک بھی کہ جرم اور سیاست کو الگ کرنے کی خواہش غلط ہے‘ نہ اس پر سینہ کوبی جائز۔ اپنے گریبان میں جھانکنا اور غلطیوں کی اصلاح کرنا شیوہء مردانگی ہے۔ اعلیٰ انسانی وصف۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں