فارسی میں کہتے ہیں ''خانہ خالی را دیومی گیرد‘‘ خالی گھر میں جنوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ پاکستان میں قیادت کا خلا سیاستدان خود پیدا کرتے ہیں‘ اپنی بے عملی‘ کم کوشی‘ سہل پسندی‘ نا اہلی اور بے نیازی سے۔ مگر جب کوئی اس خلا کو پُر کرے تو چیختے چلاتے ‘ سینہ کوبی کرتے اور اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت ہے نہ اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں پر غور کرنے کی فرصت۔ 1958ء سے اب تک ہم یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
آصف علی زرداری تو خیر اپنے دور صدارت میں بھی جب جی کرتا‘ تھکاوٹ دور کرنے دبئی پہنچ جاتے ‘ اب یہ قیام قدرے طویل ہوتا ہے۔ وہ فارغ ہیں اور عدم تحفظ کے احساس سے سرشار۔ مگر میاں نواز شریف؟ عیدالفطر سے ایک ہفتہ قبل انہوں نے حجاز مقدس کا رخ کیا اور جم کر بیٹھ گئے۔ عمرہ کی ادائیگی اور اعتکاف پر کس کافر کو اعتراض ہو سکتا ہے مگر بیس کروڑ آبادی کے مسائل زدہ ملک کا حکمران اگر اپنے اصل فرائض کی ادائیگی پر نفلی عبادت کو ترجیح دینے لگے تو؟ کیا فرماتے ہیں حامیان مسلم لیگ ، مُفت برانِ پاک سرزمین بیچ اس مسئلہ کے۔
اکیلے میاں نواز شریف ہی کیوں؟ میاں نواز شریف اور سراج الحق کعبے کو سدھارے تو عمران خان اور میاں شہباز شریف انگلستان پہنچ گئے ؎
سدھارے شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ‘ ہم خدا کی شان دیکھیں گے
ایک زمانہ تھا جب مسلم لیگ ‘ پیپلز پارٹی اور دوسری بڑی جماعتوں میں غریب مگر مخلص کارکنوں کا عمل دخل تھا۔ ان جماعتوں کے اجلاس باری باری ان شہروں میں منعقد ہوتے جہاں مجلس عاملہ یا جنرل کونسل کے ارکان بآسانی پہنچ کر شریک ہو سکیں ، اس کے باوجود کئی ارکان جماعتی فنڈ سے آمد و رفت اور رہائش کا اہتمام کرتے مگر اب غریبوں کی ہمدرد عوامی جماعت کے اجلاس بھی لندن یا دبئی میں ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ حضور ! لاہور اور کراچی میں بم پروف‘ بلٹ پروف محلات میں رہائش کسر شان سہی مگر یہاں اجلاس تو ہو سکتے ہیں۔ یا پاکستان کی طرح یہ بھی صرف اقتدار کے دنوں میں ہی قیام کے قابل ہیں؟
ہماری سیاسی اشرافیہ کے برعکس فوجی قیادت کو خدا نے یہ توفیق بخشی یا شاید ان کی فکری سطح بلند اور انداز کار عملیت پسندانہ ہے ، چنانچہ آرمی چیف نے عید کا دن مغربی سرحد پر پاکستان کے بدترین دشمنوں سے نبرد آزما فوجی جوانوں اور افسروں کے ساتھ گزارا جبکہ ان کی کابینہ کے ارکان یعنی کور کمانڈرز نے بھی گھروں میں بیٹھ کر سویاں کھانے اور عید مبارک وصول کرنے کے بجائے اپنے اپنے محاذ کا رخ کیا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ پورا سال قوم کے غم میں دبلے ہونے والے سیاسی رہنما اپنے اپنے عافیت کدوں میں بیٹھے بچوں کے ساتھ جشن عید منا رہے ہیں جبکہ پورا سال محنت‘ مشقت ‘ ریاضت اور مستعدی سے اپنے منصبی فرائض ادا کرنے والے تعطیلات کے دنوں میں بھی مصروف کار ہیں اور خلق خدا کی دعائیں لینے میں مشغول۔
قدرت کے ڈھنگ نرالے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کی نالائقی اور بے نیازی کا مزید کچا چٹھا بارشوں اور سیلاب نے کھول کر رکھ دیا۔ دو تین روز کے دوران جس طرح چترال سے لے کر راجن پور اور گھوٹکی تک دیہات اجڑے‘ خاندانوں کے خاندان تباہ ہوئے؛ پل‘ سڑکیں ‘ مکانات کہیں غرق سیلاب اور کہیں نذر بارش ہوئے‘ وہ حکمران اشرافیہ کے بلند آہنگ دعوئوں اور نمائشی تدابیر کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
حکمرانوں کی بیرون ملک موجودگی‘ فوجی قیادت کی فرض شناسی اور ملک میں تباہی و بربادی کے واقعات بیک وقت نہ ہوتے تو کسی کو نواب مرزا شوق کیوں یاد آتے ؎
اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
مون سون کی پہلی بارش اور سیلاب نے حکمرانوں کو رسوا کر دیا۔ ملک میں مون سون کی بارشوں کا آغاز اچانک ہوا ہے نہ سیلاب پہلی بار آیا۔ ہر سال پاکستانی عوام کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی دوسرے ممالک میں پاکستان کے مقابلے میںچار چھ گنا زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور بڑے بڑے دریا بپھر جاتے ہیں، مگر مسلسل سعی و تدبیر اور بہتر منصوبہ بندی کی وجہ سے اب نہ بارشیں ان ممالک کے عوام کا کچھ بگاڑتی ہیں نہ سیلاب تباہی و بربادی کا پیغام لاتے ہیں۔ سکینڈے نیویا کے کئی ممالک میں سال کے چھ مہینے برف پڑتی ہے۔ کینیڈا میں بھی یہی حال ہے مگر کاروبار زندگی معطل ہوتا ہے نہ قیمتی انسانی جانیں ضائع اور شہری املاک تباہ ہونے کا اندیشہ۔ الٹا خراب موسم کو لوگ انجوائے کرتے ہیں۔
لاہور میں بارش کے سبب جس طرح حکومتی اداروں کی اہلیت اور کارگزاری کا پردہ فاش ہوا ‘ پورے ملک میں سیلاب اور بارشوں نے وفاقی اور پنجاب ‘ خیبر پختونخوا اور سندھ حکومت کو بے نقاب کیا ، کہیں بھی کوئی حکومتی ادارہ اب یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ اس کے پیشگی انتظامات کارگر ثابت ہوئے اور لوگ قدرتی آفت کی تباہ کاریوں سے بچ گئے۔ میاں شہباز شریف ‘ پرویز خٹک اور قائم علی شاہ کے علاوہ میاں نواز شریف میں سے کوئی قوم کے سامنے سرخرو نہیں۔
یہ محض ناقص منصوبہ بندی‘ نا اہلی اور ناکافی انتظامات کا شاخسانہ نہیں‘ کرپشن اور اقربا پروری اس تباہی و بربادی کے اہم عنصر ہیں۔ لاہور کی میٹرو بس کے سٹیشن میں پانی کا جمع ہونا اور چھتوں کا ٹپکنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تعمیرات میں نقص ہے اور ٹھیکیداروں کے علاوہ منصوبہ سازوں نے خوب مال بنایا ہے ورنہ اس سٹیشن کو چالوہوئے عرصہ ہی کتنا گزرا ہے۔ انگریز کی تعمیر کردہ عمارتیں تو ساٹھ ساٹھ ستر ستر سال بعد بھی یوں ٹپکتی نظر نہیں آئیں۔
ہر سال سیلابی بندوں اور پشتوں کو تعمیر کرنے اور مضبوط بنانے کے لیے اربوںروپے مختص کیے جاتے ہیں۔ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں پہاڑی چشمے تباہی مچاتے ہیں۔ رود کوہیوں کے پانی کے آگے بند باندھ کر نہ صرف دیہی علاقوں‘ قصبوں‘ کھیتوں اور مویشیوںکا تحفظ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس پانی کو کاشتکاری کے لیے استعمال میں لانا ممکن ہے مگر برا ہو ہوس زر اور خرد برد کی عادت کا ‘ سارے فنڈ مقامی ارکان اسمبلی‘ ان کے لاڈلے ‘ ٹھیکیدار اور بیورو کریٹس ہڑپ کر جاتے ہیں اور بند تعمیر ہوتے ہیں نہ کسی نہر اور دریا کے پشتے مضبوط اور نہ رود کوہی کے پانی کو روکنے کا کوئی انتظام۔ البتہ ہر سال تباہی و بربادی ووٹروں کا مقدر بنتی ہے۔
اگر خدانخواستہ فوج سول انتظامیہ کی مدد کو نہ آئے‘ اپنے ریلیف کیمپ قائم کر کے لوگوں کی ضرورتیں پوری اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم نہ کرے تو نقصان کی شرح کئی گنا بڑھ جائے۔ دور زوال کا مغلئی طرز حکمرانی ‘ پاکستان میں رائج ہے اور حکمران اشرافیہ کو لوٹ مار ‘ عیش و عشرت کے سوا کوئی کام کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ یہ فرسودہ اور بے ہودہ نظام قدرتی آفات سے نمٹنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے نہ آفت زدہ علاقوں کے عوام کی مدد کرنے کے قابل ہے۔ اعلانات اور دعوے کرنے میں البتہ ہمارے سویلین حکمرانوں کا کوئی ثانی نہیں۔
برسوں سے پاکستان میں جس قبائلی انداز کے پارلیمانی نظام کا تجربہ کیا جا رہا ہے اس نے بے عملی‘ نااہلی ‘ کرپشن ‘ اقربا پروری‘ شقی القلبی اور لوٹ مار کے کلچر کو فروغ دیا ہے اور قومی وسائل کا ضیاع خرد برد اور بیرون ملک منتقلی اس کی جبلت کا حصہ بن چکا ہے ، لہٰذا موجودہ آدم خور سیاسی‘ سماجی اور معاشی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے اصلاح احوال کی کوئی کوشش بے سود ہے۔ یہ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان‘ قومی خزانہ اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور اداروں کی تباہی کے سوا کوئی کارنامہ انجام دینے سے قاصر ہے اور عوام کو قومی وسائل سے فیض یاب کرنے کے موڈ میں نہیں ، لہٰذا کسی ناگہانی حادثے سے قبل آئینی حدود و قیود میں رہتے ہوئے پرامن تبدیلی کی کوئی سنجیدہ کوشش کر لی جائے تاکہ خالی گھر دیکھ کر جن بسیرا کرنے کی نہ ٹھانیں۔ اب سیاستدانوں کی بھاگ دوڑ جنگ کے بعد یاد آنے والے مُکّے کی طرح ہے جسے سیانے اپنی ناک پر مارنے کا مشورہ دیتے ہیں:
مُشتے کہ بعداز جنگ یاد آید برکلہ خود باید زن