ریاست یا سیاست

انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کے آفس سے ذرائع ابلاغ کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں قصور سانحہ کے حوالے سے دستیاب معلومات بالخصوص متاثرین اور ملزمان کی تعداد سے محکمہ پولیس کو آگاہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔مراسلہ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اخبار نویس ٹھوس معلومات اور مددگار اعداد و شمار کے ذریعے پولیس کی اعانت کر سکتے ہیں۔
یہ مراسلہ پڑھ کر مجھے دوسری جنگ عظیم کے دوران کا ایک لطیفہ نما واقعہ یاد آ گیا ۔کہتے ہیں کہ جھنگ کے ایک گائوں میں انگریز ڈپٹی کمشنر نے مقامی معززین کی کچہری میں اپیل کی کہ وہ لام بندی کے دوران زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوج میں بھرتی کرائیں تاکہ تاج برطانیہ ہٹلر سے محفوظ رہے۔ ایک سادہ لوح میر زادے نے کھڑے ہو کر ڈپٹی کمشنر سے بصد ادب کہا ... سرکار! تاج برطانیہ کی حفاظت ہماری سپرد کرنے سے بہتر نہیں کہ بادشاہ سلامت ہٹلر سے صلح کر لیں۔
پنجاب پولیس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ یہ اڑتی چڑیاکے پر گن لیتی ہے اور مخبری کا نظام اس قدر موثر اور مضبوط ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں دو افراد کے درمیان ہونے والی کانا پھوسی کی اطلاع بھی کوتوال شہر کومل جاتی ہے‘ مگر یہ ان دنوں باتیں ہیں جب حکمران بیدار مغز تھے اور پولیس کا ڈھانچہ سیاسی دبائو سے آزاد۔ سابق گورنر ملک امیر محمد خان نے کوئٹہ کے ایک ڈی آئی جی کو اس بنا پر اپنے منصب سے ہٹا دیا کہ کسی نے اس کی اقامت گاہ کی دیوار پھلانگی مگر فائرنگ پر فرار ہو گیا۔ گورنر کا موقف تھا کہ پولیس افسر کا علاقے میں اتنا رعب ہونا چاہیے کہ کم از کم اس کے دفتر یا گھر سے دو تین میل کے دائرے میں کوئی مجرم داخل ہونے کی جرأت نہ کر سکے‘ کجا کہ وہ گھرتک پیچھے اور فائرنگ پر فرار ہو جائے‘ مگر جب عوام کی حفاظت پر مامور پولیس افسران اپنے تحفظ کے لیے کمانڈوز کے محتاج ہوں ‘ان کے گھر اور دفتر قلعے کی صورت اختیار کر لیں‘ اردگرد کی گلیاں اور سڑکیں شریف شہریوں کی آمدو رفت کے لیے بند کر دی جائیں‘ قصور میں مستعدو چاک و چوبند پولیس اہلکاروں کے حصار میں موجود انسپکٹر جنرل پولیس اور آر پی او پر جوتا پھینکنے والا آسانی سے فرار ہو جائے اور حکومت ڈی پی او قصور کے علاوہ ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کو ناقص انٹیلی جنس پر عہدوں سے ہٹا دے‘ وہاں آئی جی آفس کی اخبار نویسوں سے معلومات طلب کرنے پر حیرت کیسی؟
پولیس میں سپشل برانچ نام کا ایک محکمہ ہے جس کے ریگولر کارندے اور سفید پوش گلی گلی‘ محلے محلے موجود اور ہر چھوٹے بڑے واقعہ اور گپ شپ کی رپورٹ کرتے ہیں۔ حکومت ریگولر سٹاف کے علاوہ سفید پوشوں کو معقول تنخواہ دیتی ہے جبکہ ہر تھانے دارکے اپنے سفید پوش بھی ہوتے ہیں ‘مگر تھانہ گنڈا سنگھ والا کے نواح میں جب اس قدر وسیع پیمانے پر یہ دھندا چل رہا تھا تو کسی مخبر اور سفید پوش نے مقامی تھانے دار اور حکام بالا کو کوئی اطلاع دی نہ دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خبر ہوئی جو وزیر اعلیٰ کو آگاہ کرتیں ‘یہ بے خبری نہیں پردہ پوشی تھی جس کی قیمت پولیس افسروں اور اہلکاروں کے علاوہ ان کے سرپرست مقامی سیاستدانوں نے بھی وصول کی۔ اگر سابق ایس ایچ او مہر اکمل کے علاوہ ان کے پیشروئوں ‘ بعض مقامی سیاسی کارندوں اور ماسٹرظفر‘ و مبین غزنوی سے ڈھنگ کی تفتیش ہو‘ ان کے بنک اکائونٹس کو تفصیل سے چیک کیا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ کام کرے کون؟
میڈیا نے بھر پور طریقے سے یہ معاملہ8اگست کو اٹھایا۔ حسین خان والا اور اردگرد کے لوگوں نے جلوس ایک ہفتہ قبل نکالا جسے لاہور جانے سے روک دیا گیا مگر 8اگست سے قبل آئی جی کو قصور جانے کی ضرورت محسوس ہوئی نہ وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا اور نہ کوئی کمیٹی تشکیل ہوئی؛ حالانکہ اس وقت تک معاملہ الم نشرح ہو چکا تھا اور ایف آئی آر کا اندراج بھی عمل میں آ گیا تھا۔میڈیا فعال ہے مگر پولیس کو معلومات فراہم کرنا اس کی ذمہ داری کب سے ہو گئی؟
پولیس‘ انتظامیہ اورسول حکومتوں کے اس سہل پسندانہ بلکہ مجرمانہ طرز عمل کی وجہ سے قصور کے سانحہ نے ملک گیر بلکہ عالمی شہرت حاصل کی اور ملک و قوم کی بدنامی ہوئی۔ چھ سال تک سنگین جرم کا ارتکاب ہوتا رہا۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوئے اور معصوم بچیاں اوربچے ذہنی نفسیاتی اور روحانی اذیت کے مسلسل عمل سے گزرتے رہے مگر کسی کو ہوش نہ آئی۔ کسی کی آنکھوں پر رشوت کی پٹی بندھی تھی اور کسی کو سیاسی مصلحتوں اور مفادات نے اندھا کر رکھا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے طرز حکمرانی میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اختیارات کی مرکزیت نے ہر ایک کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے بے نیاز کر دیا ہے اور پسندیدہ افسر و عوامی نمائندہ ہر طرح کے احتساب اور مواخذے سے آزاد ہے۔ جس کا فائدہ سرکاری افسران اور ارکان اسمبلی کے علاوہ ‘وہ مجرم اور بلیک میلر گروہ اٹھاتے ہیں جنہوں نے شہر‘ دیہات میں عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
قصور کے ایک گائوں میں انفرادی واقعہ پولیس کی غفلت‘ ناقص جاسوسی نظام‘ بااثر افراد کی سرپرستی اور صوبائی حکومت کی بے خبری کی وجہ سے گھنائونے اجتماعی جرم کی شکل اختیار کر گیا اور اس وقت پوری قوم اور ریاست عالمی سطح پر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔ یونیسف کا بیان پوری قوم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ کراچی میں بھی پولیس و انتظامیہ کی غفلت وسہل پسندی‘ مختلف سیاسی و فوجی حکومتوں کی بے نیازی اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی بے حسی کی وجہ سے جرم و سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوئے۔ آج حالت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے علاوہ رینجرز کے آپریشن کو متنازع بنانے کی کوششیں عروج پر پہنچ گئی ہیں اور پوری ریاست ‘ پارلیمنٹ اور حکومت کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز ایم کیو ایم نے سندھ و قومی اسمبلی اور سینٹ سے استعفوں کا جو ڈرامہ رچایا وہ اس بلیک میلنگ کا شاہکار ہے۔ کراچی آپریشن میں پیپلز پارٹی‘ اے این پی‘ سنی تحریک‘ لیاری کی امن کمیٹی کے کارکن‘ ہمدرد اور وابستگان گرفتار ہوئے‘ سنی تحریک کے ہیڈ کوارٹر پر رینجرز نے چھاپہ مارا اور تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری سے کئی گھنٹے تک تفتیش ہوتی رہی ‘مدارس پر چھاپے مارے جا رہے ہیں‘ مگر کسی جماعت یا گروہ نے آپریشن کومتنازع بنانے کی کوشش کی نہ کسی رنگ‘ نسل‘ زبان اور مسلک سے وابستہ طبقے سے امتیازی سلوک کا پروپیگنڈا کیا اور نہ اقوام متحدہ ‘نیٹو یا بھارت سے مداخلت کی اپیل کی۔ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری نے جوش جذبات میں غیر محتاط زبان استعمال کی مگر سنبھل گئے اور یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور دیگر لیڈروں نے ان سے اختلاف کیا مگر ایم کیو ایم کا معاملہ عجیب ہے‘ کوئی ٹارگٹ کلر پکڑا جائے‘ بھتہ خور یا اغوا برائے تاوان کا مجرم‘ ایم کیو ایم فوراً اسے اپنا کارکن اور مہاجر قوم کا ہیرو قرار دے کر احتجاج پر اتر آتی ہے۔
جب تک کراچی مقتل ‘ جرائم کی آماجگاہ اور بھتہ خوروں کی چرا گاہ بنا رہا ایم کیو ایم مطمئن رہی ۔جب سے کراچی کی روشنیاں بحال ہوئیں اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ایم کیو ایم کے قائدین انگاروں پر لوٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ کراچی کا امن ایم کیو ایم کو گوارا نہیں۔ دنیا نیوز کی سپیشل ٹرانسمیشن کے دوران مجھے ایک برقی پیغام موصول ہوا ''مورخ لکھے گا کہ کراچی کی منتخب جماعت نے شہر میں امن ہونے پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا‘‘۔ قومی اتفاق رائے سے شروع کیے جانے والے آپریشن اور رینجرز پر مہاجروں کی نسل کشی کا الزام دھرنا حب الوطنی اور مہاجر دوستی کی کون سی قسم ہے؟ ڈاکٹر فاروق ستار ہی بتا سکتے ہیں۔ افسوس ناک رویہ وفاقی حکومت اور سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی کا ہے جو اپنے سامنے پیش کئے گئے استعفوں کو منظور کرنے کے بجائے حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں۔ کیا قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ کراچی آپریشن کی بساط لپیٹنے کے لیے ایم کیو ایم نے استعفوں کا کارڈ استعمال کیا اور میاں نواز شریف و آصف علی زرداری اس کے پشت پناہ ہیں۔
یہ ایم کیو ایم کو آکسیجن فراہم کی ناکام کوشش ہے۔ ایم کیو ایم کے منحرف ارکان پارلیمنٹ کی تعداد چھپانے‘ بغاوت کو روکنے اور ضمنی انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر عوامی مینڈیٹ کا ڈرامہ رچا کر ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کی یہ کوشش صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ وفاق و سندھ میں برسر اقتدار جماعتیں مصلحت پسندی کو گلے لگا لیں اور الطاف بھائی کے مطالبات و مفادات کو کراچی آپریشن پر ترجیح دیں۔
ایم کیو ایم کے ارکان بے چارے تو مجبور ہیں ‘انہوں نے کراچی /کے امن پر قائد کے حکم کو ترجیح دی ورنہ وہ قائد تحریک سے کہہ سکتے تھے کہ اس موقع پر پارلیمنٹ سے باہر آنا خودکشی ہے کیونکہ یہ ارکان اس تحفظ سے محروم ہو جائیں گے جو انہیں سپیکر اور چیئرمین اب تک فراہم کرتے چلے آ رہے ہیں ‘مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مجبوری کیا ہے؟ کیا بلیک میلنگ کی سیاست جمہوری نظام کے لیے خوش آئند ہے اور سول ملٹری تعلقات کو مضبوط بنانے میں معاون؟ آئندہ چند دنوں میں سب کچھ کھل کر سامنے آ جائیگا ۔جب ریاست کمزور‘ ریاستی ادارے مصلحت پسند اور حکمران مفادات کے بندے ہوں تو یہی ہوتا ہے جو قصور اور کراچی میںرہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں