چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ اگر تین ہفتوں کی مدت ملازمت میں قومی زبان اردو کے نفاذ کے حوالے سے اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب رہے تو قوم ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔ اپنے منصب کا حلف انہوں نے قومی زبان میں اٹھایا اور چیف جسٹس کے لیے مختص گھر میں منتقل ہونے اور بلٹ پروف گاڑی و پروٹوکول لینے سے انکار کیا۔ یہ قابل ستائش اقدام ہے۔
انگریزی بین الاقوامی رابطہ کی زبان ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ دیگر جدید علوم و فنون کا قابل قدر ذخیرہ اس زبان میں محفوظ ۔ مگر یہ نہ تو کسی بھی ملک کی قومی زبان کا نعم البدل ہے اور نہ اسے علاقائی زبانوں کی جگہ ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی کی منزلیں طے کی جا سکتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے سوا کوئی ملک یہ دعویٰ نہیںکر سکتا کہ اس کی ترقی میں انگریزی زبان نے اہم کردار ادا کیا؟ چین‘ فرانس‘ جاپان‘ جرمنی‘ اٹلی‘ روس اور کئی دیگر ممالک نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی کی‘ نہ اپنی قومی زبان کو فراموش کیا۔ ترکی اپنی قومی زبان کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ماضی میں حیدر آباد دکن‘ بھوپال اور بہاولپور میں اردو نہ صرف سرکاری بلکہ تعلیمی زبان تھی۔ پاکستان اٹامک انرجی کمشن کے بانی ڈاکٹر عثمانی اور عدلیہ میں قابل فخر کردار کے مالک جسٹس ایم اے کے صمدانی نے ایف ایس سی اور بی ایس سی کے امتحانات اردو زبان میں دیے‘ ڈاکٹر عثمانی نے فزکس‘ کیمسٹری اورمیتھ اردو میں پڑھی اور کبھی اسے غیر سائنسی زبان نہیں سمجھا۔
1948ء میں پاکستان کا پہلا فاضل بجٹ پیش کرنے والی اقتصادی و مالیاتی ٹیم علی گڑھ کی تعلیم یافتہ تھی جہاں اردو کا راج تھا۔ جب تک پاکستان کا انتظامی کنٹرول ان ہاتھوں میں رہا جو ٹاٹ سکولوں سے اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کر کے آئے تھے‘یہ ملک تعمیر و ترقی اور خوش حالی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ یہ لوگ اندرون و بیرون ملک شہرت یافتہ تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ دھرتی کے بیٹے تھے‘ قومی ضرورتوں سے آگاہ‘ عوام کے مزاج سے واقف اور اسلامی و پاکستانی کلچر کے دلدادہ‘ ذہانت و لیاقت ان کا سرمایہ اور محنت ان کا اثاثہ۔
قائد اعظم انگریزی زبان کی اہمیت سے آگاہ تھے اور انگریزی کلچر کی تباہ کاریوں سے کلی طور پر آشنا‘ اس بنا پر انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: '' سرکاری زبان واضح طور پر اردو ہونی چاہیے جس کی آبیاری برصغیر کے دس کروڑ عوام نے کی‘ وہ زبان جو پاکستان کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ زبان جس میں کسی اور صوبائی زبان کے مقابلے میں اسلامی ثقافت اور مسلم روایات کے بہترین مظاہر موجود ہیں‘‘۔
اردو صرف پنجاب نہیں سندھ‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا‘ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہر کشمیری‘ بلوچی‘ براہوی ‘ سندھی‘ سرائیکی‘ پشتون‘ پوٹھواری اور ہزارہ اس پر قادر ہے‘ وہ خواب اپنی مادری زبان میں دیکھتا ہے مگر تعبیر اردو میں پوچھتا ہے۔ ترقی یافتہ زبان کے طور پر یہ بیشتر سائنسی اصطلاحات اور تکنیکی مترادفات کو اپنے دامن میں سمو چکی ہے اور مزید سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماضی میں عربوں نے یونانی علوم و فنون کی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کیا جبکہ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اپنے دور عروج میں مسلمان سائنس دانوں کی علمی فتوحات کو انگریزی میں منتقل کر کے تحریک احیائے علوم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
یہ کام ہم بھی بآسانی کر سکتے ہیں۔ چین‘ جاپان‘ ایران اور ترکی کے تجربات سے فائدہ نہ اٹھانا حماقت ہے مگر اردو سمجھنے‘ پڑھنے اور بولنے والی اکثریت پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی خواہش مند ایک حقیر اقلیت یہ آسان راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں۔1990ء اور 2010ء کے عشرے میں جس کاٹھ کباڑ نے پاکستان میں فوج‘ بیورو کریسی‘ طب‘ تعلیم‘ انجینئرنگ وغیرہ کا بیڑا غرق کیا اس کی اکثریت انگلش میڈیم سکولوں کی تعلیم یافتہ تھی۔ ہر سال پرائمری‘ مڈل‘ میٹرک اور ایف اے‘ ایف ایس سی میں فیل بچوں کی زیادہ تر تعداد انگریزی مضمون کی کشتہ ستم ہوتی ہے۔ یہ بے چارے مایوس ہو کر تعلیم ہی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ مقابلے کے امتحانات انگریزی میں ہوتے ہیں جہاں ذہانت‘ دیانت‘ عزم و ارادے اور مستقبل شناسی کے جوہر کو پرکھنے سے زیادہ محض انگریزی زبان پر دسترس کو ہی کامیابی کا پیمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شعبہ روبہ زوال ہے اور پچھلے دو سالوں کے نتائج ابتری کی داستان سناتے ہیں مگر اس کے باوجود آئین کے تقاضوں کے مطابق اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے بجائے ایک بدیسی زبان انگریزی کو ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنانے پر اصرار جاری ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی مہربانی سے محبان اردو کی داد رسی ہوئی اور حکومت نے بعض احکامات جاری کئے تو اس پر بھی بعض حلقے ناک بھوں چڑھا رہے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوسناک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس اخبار نے اپنی اشاعت کا آغاز اقبالؒ و قائدؒ کے افکار‘ برصغیر کے مسلمانوں کے قومی نظریے اور اردو زبان کی ترویج کے نعرے پر کیا‘ وہ عدالتی فیصلے پر برہم اور اس پر عملدرآمد کے حکومتی احکامات کو جلد بازی کا نتیجہ قرار دینے پر مصر ہے۔ اس اخبار کے بانیوں نے زندگی بھر اردو زبان کی ترقی اور ترویج کا بیڑا اٹھائے رکھا‘ اور کسی مخالفت‘ طعن و تشنیع اور طنز و تعریض کی پروا نہ کی مگر وہی اخبار اب بیرون ملک اعلیٰ سرکاری و حکومتی عہدیداروں کی قومی زبان میں گفتگو کو پاکستان کی سالمیت ‘ یکجہتی ‘ بین الاقوامی تعلقات کے لیے ضرر رساںقرار دے رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہر سال ہوتا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک کے سربراہان اپنی زبانوں میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ چین ‘ روس‘ فرانس سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ہیں مگر ان کے سربراہان اپنی زبانوں میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ پچھلے سال بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندی میں خطاب کیا‘ انہیں کسی نے روکا نہ ٹوکا۔اس کے برعکس جب ہمارے وزیر اعظم امریکی صدر اوباما کے سامنے انگریزی میں لکھی ہوئی چٹیں پڑھ کر اپنی انگریزی دانی کی دھاک بٹھا رہے تھے تو پوری دنیا میں سبکی کے سوا ہمارے حصہ میں کیا آیا؟
عظیم چینی رہنما مائوزے تنگ کا جملہ ضرب المثل ہے کہ چین کے عوام اور لیڈر گونگے نہیں کہ کسی دوسرے کی زبان کو ذریعہ اظہار بنائیں۔ چین کئی شعبوں میں اس وقت امریکہ کا ہم پلہ ہے تو اس کا سبب انگریزی دانی نہیں‘ اپنی ذہانت اور محنت ہے۔1999ء میں ایک اعلیٰ چینی عہدیدار نے بیجنگ میں ہم سے گلہ کیا کہ آپ کے وفود یہاں آ کر انگریزی مترجم کا تقاضا کرتے ہیں جس سے بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ اردوکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے‘ کیا آپ لوگ اپنی زبان و کلچر‘ ترقی اورکارناموں پر فخر نہیں کرتے؟ایٹمی قوت بن کر احساس کمتری کا شکار کیوں؟ ہم شرمندہ ہوئے مگر اردو مترجم پھربھی نہ مانگا۔
مجید نظامی صاحب زندہ ہوتے تو اپنے اخبار میں اردو دشمنی کو گوارا نہ کرتے مگر ؎
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
حمید نظامی اور مجید نظامی کی مسند صحافت کے لے پالک وارث اقبال ؒ کی تعلیمات ‘ قائد اعظم کے تصورات ‘ اسلامیان برصغیر کی قربانیوں‘ جدوجہد اور نظریات اور اردو زبان کی اہمیت سے واقف نہ عوامی جذبات و احساسات اورقومی ضرورتوں سے آشنا اور نہ یہ علم کہ بھٹو نے یو این میں پولینڈ کے ایشو پر تقریر نہیں کی تھی‘ مشرقی پاکستان کے حوالے سے پیش کردہ پولینڈ کی قرار داد پھاڑی تھی۔ قرارداد پھاڑنے کے لیے انگریزی زبان میں مہارت درکار ہے نہ عالمی سطح پر بڑے قد کاٹھ کی ضرورت؎
بُت شکن اُٹھ گئے باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیمؑ پدر اور پسر آزر ہیں
قومی زبان تحریک کے عہدیدار بالخصوص فاطمہ قمر‘ ڈاکٹر شریف نظامی اور پروفیسر سلیم ہاشمی صدمے سے دوچار ہیں کہ ستر پچھتر سال تک قومی زبان اردو کی بالادستی کے علمبردار اخبار کو کیا ہوا‘ شائد انہیں یاد نہیں‘ مجید نظامی صاحب چل بسے۔ اب باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے جس کو نظریہ پاکستان سے سرو کار نہ فکر اقبال ؒو قائدؒ سے دلچسپی اور نہ اردو زبان کے ماضی‘ حال اور مستقبل سے کچھ لینا دینا۔ نظامی صاحب مشن‘ نظریہ‘ اصول‘ بے باک صحافت‘ حُب رسولؐ اور عشق اقبالؒ و قائد ؒاپنے ساتھ قبر میں لے گئے اور فکر اقبالؒ و قائدؒ کا علمبردار صحافتی قلعہ مجاوروں کو سونپ گئے‘ اپنے کسی نظریاتی وارث یا مخلص پیرو کارکو نہیں۔ صحافتی ترجیحات مختلف‘طبعی رجحانات الگ اور فکر و فلسفہ قطعی برعکس ۔ محض نظامی کا لاحقہ؟ یہ تو ہاتھی کے دانت ہیں کھانے کے اور دکھانے کے اور۔