سپریم کورٹ میں اپیل سردار ایاز صادق کا آئینی و قانونی حق ہے جس پر عمران خان اور مسلم لیگ ن کے کسی مخالف کو ہرگز اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ ہمارے نظام انصاف پر عمران خان کے تحفظات سو فیصد درست ہیں۔ اس پیچیدہ،مہنگے، سست رفتار اور امیردوست نظام نے نوجوان نسل میںمایوسی، بے چینی اور بغاوت کے جذبات ابھارے اور ایک گروہ کو قانون ہاتھ میں لینے اور فیصلے بزور بازو یا بزور اسلحہ کرنے کی طرف مائل کیا۔
یہ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ لا آف دی لینڈ انتخابی ٹربیونل کوچار ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند بناتا ہے مگر کبھی وکلاء کے تاخیری حربوں، کبھی اعلیٰ عدالتوں سے حکم امتناعی اور گاہے ٹربیونل ارکان کی بے نیازی کی وجہ سے دو، دو، تین تین سال تک عذرداری کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ کبھی کسی نے سوچنا گوارا نہیں کیا کہ چار ماہ کے بجائے چار سال میں فیصلے ہوںتو قومی خزانے پر کس قدر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ دھونس، دھاندلی، انتخابی عملے کی ملی بھگت یا نااہلی کی وجہ سے جیتنے والا امیدواراس عرصے میں کس قدر وسائل اور مراعات بٹور لیتا ہے۔ اور اگر وہ وزیر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، پارلیمانی سیکرٹری ہو تو یہ تناسب بڑھ جاتا ہے جبکہ اس عرصہ میں حلقے کے عوام بھی حق نمائندگی سے محروم رہتے ہیں۔یہ سوچنے کی کسی کو فرصت کہاں۔ جن کے پوبارہ ہیں بھلا وہ کیوں سوچیں، مال مفت دل بے رحم کا محاورہ بلاوجہ تو وجود میں نہیں آیا۔
1985ء کے بعد نظام انتخاب اس قدر مہنگا ہوگیا ہے کہ کوئی شریف ، پڑھا لکھا، سمجھ دار اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار سیاسی کارکن محض عوامی خدمت اور اعلیٰ کردار کی بنا پر صوبائی اسمبلی تو کجا کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا۔ ٹکٹوں کی خریدوفروخت کا کلچر بھی اس بنا پر وجودمیںآیا کہ مالداروں میں مقابلہ ہوتا ہے اور وہ بولی لگاتے ہیں۔ مہذب معاشرے میں سیاسی جماعتوں کا کردار اس بنا پر اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ وہ غریب مگر فعال کارکنوں کی سرپرستی کرتی ہیں اور صرف خدمت خلق پر آمادہ باشعور سیاسی کارکنوںکو منتخب ایوانوں میںبھیجتی ہیں ۔ ہمارے ہاں مگر سیاسی کارکنوں کا فرض صرف لیڈر کے حق میں نعرے لگانا، جلسے جلوس اور ریلیوں کا اہتمام کرنا اور پولیس کی لاٹھی، گولی، آنسو گیس کا مقابلہ کرنا رہ گیاہے یا اس کے عزیزواقارب اور فرنٹ مینوں کی مٹھی چاپی کرنا۔ لیڈر ساڈا شیراے ، باقی ہیرپھیر اے۔
اگر ایک حلقہ کا امیدوار انصاف لینے کیلئے بیس لاکھ سے لیکر دو کروڑ روپے خرچ کرنے پر مجبور ہو تو اس ملک میںلوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بھلا انتخاب میں کیسے حصہ لے سکتا ہے جبکہ انتخابی اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ عمران خان، جہانگیرترین، عثمان ڈار اور حامدخان نے حصول انصاف کیلئے جتنے پیسے خرچ کیے وہ موجودہ انتخابی اور عدالتی نظام کے لئے باعث شرم ہے۔ مگر مجال ہے کہ کوئی اسے بدلنے اور اس کی جگہ عوام دوست، سستا اور تیز رفتار نظام لانے میں سنجیدہ ہو۔
سیاستدان تو خواہ حکومت میں ہوں، یا اپوزیشن میں انصاف حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ یہ خریدنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور دبائو ڈالنے کی استطاعت بھی ۔مگر عام آدمی بے چارا تھانے کچہری جا کر پھنس جاتا ہے۔ دادا کا دائر کردہ مقدمہ پوتے کے بڑھاپے میں فیصل ہو جائے تو غنیمت ہے۔ یہ اینگلو سیکسن لاکی برکت ہے۔ ہمارے ہاں برطانوی نظام انصاف کی قصیدہ خوانی کرنے والوںکو معلوم نہیں کب پتہ چلے گا کہ الطاف بھائی کے خلاف عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ کیس برس ہا برس سے زیرسماعت ہے۔ ایک سیاسی جماعت کا قائد اور اس کے پیروکار ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں مگر یہ سست رفتار نظام عدل عمران فاروق کی بیوہ کو انصاف دینے کے قابل ہے‘ نہ الطاف حسین کو اس اذیت سے نجات دلانے پر قادر۔
خیر یہ تو معاملے کا ایک پہلو ہے۔ جسٹس (ر)کاظم ملک کی سربراہی میں قائم ٹربیونل کے فیصلے پر حکومت کا ردعمل بچگانہ ہے۔ اپیل میں جانے کی توقع تو ہر ایک کو تھی۔ اب وہ زمانے نہیں رہے جب سیاست اخلاقیات کے تابع تھی اور سیاستدان عزت نفس کے حوالے سے خاصے حساس ہوا کرتے تھے۔ جس ملک میں الیکشن کمشن کے چار قابل احترام ارکان تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی طرف سے مسلسل تنقید اوراستعفوں کے مطالبہ کے باوجود اپنے مناصب سے چمٹے ،حیل و حجت سے کام لے رہے ہوں‘ وہاں کسی موٹی کھال کے سیاستدان سے توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ اپنی ذاتی و خاندانی عزت کی خاطر قانونی تاویلوں کا سہارا لینے کے بجائے عوام سے رجوع کرنے کو ترجیح دے گا مگر اپیل میں جانے کا قانونی حق استعمال کرنے کے ساتھ ٹربیونل کے سربراہ پر تعصب، جانبداری اور خودنمائی کا الزام لگانے کا جواز ؟یہ ٹربیونل پر دشنام ہے یا اپیلٹ کورٹ کے لئے پیغام؟ تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر۔ کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی۔
سردار ایاز صادق تو متاثرہ فریق ہیں ‘وہ اگر عدم توازن کا شکار ہوں اور فیصلہ قبول کرنے کے اعلان کے بعد تعصب کا الزام لگائیں تو پھر بھی قابل فہم ہے مگر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید؟ وہ حکومت کے ترجمان ہیں اور حلف کے پابند۔ اگر حکومت اور اس کے ترجمان ہی سرکاری اور عدالتی اداروں کو نشانہ تضحیک اور ہدف تنقید بنانا شروع کردیں تو انہیں تحفظ اور احترام کون فراہم کریگا؟۔ حکومتی بھونپو ایک طرف عدالتوں کے احترام اور قانون کی حکمرانی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں‘ عمران خان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے چاہتا ہے مگر جونہی کسی عدالت، کمیشن یا ٹربیونل کا فیصلہ حکمران جماعت کی منشا اور مرضی کے بغیر آئے تو فوراً الزام تراشی شروع کردی جاتی ہے اور یہ کام سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والے وزراء کرتے ہیں۔ باقرنجفی کمیشن اور جسٹس (ر) کاظم ٹربیونل کا فیصلہ اگر برعکس آتا تو یہی لوگ ملک میںبے مثل عدل و انصاف کا ڈھول پیٹ رہے ہوتے۔ یہی ناپختہ طرز عمل معاشرے میں انارکی کو فروغ دیتا اور اداروں کو بازیچہ اطفال بناتا ہے۔عامیوں سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ قانون کا احترام کریں، اداروں کا تقدس برقرار رکھیں اور ان کے فیصلوں کو آنکھیں بند کرکے قبول کریں۔
دوسال قبل ملک میں دھاندلی کا شور مچا تو میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے بار بار عمران خان اور دیگر متاثرہ افراد کو ٹربیونلز سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ حکومت کے بہی خواہ اور قصیدہ گو دانشوروں کی طرف سے بھی یہ بات تواتر سے کہی جاتی رہی۔ مگر جب ایک ٹربیونل نے حکومتی رکن کے خلاف فیصلہ دیا تو جج کو تعصب، جانبداری اور خود نمائی کا مرتکب قرار دیا گیا جبکہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کے کسی جج کو ان الفاظ سے نہیں نوازا۔ دو سال سے تحریک انصاف کے امیدواروں کو انصاف نہ دینے والے ٹربیونلز کے ججوں کو بھی نہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ عدل و انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی کے مترادف ہے۔
میاں صاحب کے نادان مشیروںکو علم نہیںکہ اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے مخالفین کو تنقید کا موقع ملتا ہے، ادارے سبکی محسوس کرتے ہیں اور مسلم لیگ کے ناقدین کو پرانے واقعات یاد آ جاتے ہیں۔ خاص طور پر1997ء میں اپنے خلاف فیصلہ آنے کے خوف سے سپریم کورٹ پر دھاوا بولنے کا شرمناک واقعہ جو عرصہ دراز تک شریف برادران کا پیچھا کرتا رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ زبانی کلامی غصے پر اکتفا کیا گیا مگر حکومت سے وابستہ افراد کو یہ بھی زیبا نہیں ۔ انہیںتوعدالتی فیصلوں اور ریاستی مفاد کے مطابق ہونے والے اقدامات کو بسروچشم قبول کرنے کا عادی ہونا چاہیے۔ تحمل، برداشت، رواداری اور عدالتی و قانونی فیصلوں کی پاسداری ان کا فرض ہے کسی پر احسان نہیں ؎
بھولے سے کہا مان بھی لیتے ہیں کسی کا
ہر بات میں تکرار کی عادت نہیں اچھی