ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر

سندھ میں غربت و افلاس اور وڈیروں‘ جاگیرداروں کی مار دھاڑ کے حوالے سے عمران خان کی باتیں سو فیصد درست۔ صرف سندھ ہی نہیں بلوچستان اور سرائیکی وسیب میں بھی غریب آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں‘ مگر مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ سندھ میں ہاریوں اور جانوروں کا حال ایک جیسا ہے‘ غلط بالکل غلط۔
سندھ میں جانور امیر کا ہو یا غریب کا اسے تھر کے سوا ہر جا چارہ دستیاب ہے‘ جوہڑ کا پانی اور سایہ دار استھان بھی‘ جہاں وہ آسانی سے سستا سکتا ہے۔ مگر ''باشعور‘‘ عوام؟۔ کھانے کو روٹی‘ پہننے کو ڈھنگ کا کپڑا‘ نہ پینے کو صاف پانی اور نہ رہنے کو محفوظ چھت۔ جنہیں دیہات میں جانوروں کے ساتھ ٹوبھے‘ تالاب یا جوہڑ سے پینے کو پانی مل جائے وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ موت پیاس کے راستے نہیں آئی۔ 
جن جاگیرداروں کے گھوڑے مربہ کھاتے‘ ایئرکنڈیشنڈ اصطبل میں رہتے اور درآمدی پانی پیتے ہیں‘ انہی کے مزارعین پیٹ بھر کھانے‘ صاف پانی پینے کو ترستے ہیں اور ان کی بہو بیٹیاں تن ڈھانپنے سے زیادہ اپنی عزت بچانے کی تگ و دو کرتی ہیں کیونکہ صرف عیاش وڈیرے اور ان کے بدقماش لڑکے بالے ہی نہیں‘ لاڈلے ملازمین بھی انہیں مال غنیمت سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے وابستہ وڈیروں کو تو چھوڑیے‘ جن میزبانوں نے عمران خان کی خاطر تواضع تیتر اور ہرن کے گوشت سے کی‘ ان کے مزارعین کا حال بھی آصف علی زرداری‘ سراج درانی اور خورشید شاہ کے مزارعین سے مختلف نہیں۔
سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے وڈیرہ شاہی نظام میں انسان محض بوجھ اٹھانے والا جانور ہے یا الیکشن کے دنوں میں وڈیرے سائیں کے لیے ووٹوں کی گنتی پوری کرنے والی مشین۔ اس کے سوا کوئی مصرف نہیں اور اسلام آباد کے علاوہ کراچی‘ لاہور اور کوئٹہ کے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ان کے مقدر کا فیصلہ کرنے والوں نے بھی اسے حقیقت کے طور پر قبول کر لیا ہے‘ ورنہ کوئی تو اس کا نوٹس لیتا۔ بھٹو صاحب نے تھوڑی بہت کوشش کی‘ زرعی اصلاحات پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد ہوتا تو تبدیلی آتی‘ مگر ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد۔ جلد ہی مرحوم اپنے جاگیردارانہ پس منظر کے بوجھ تلے دب گئے۔
1990ء کے عشرے میں میاں نواز شریف نے اندرون سندھ رابطوں کا آغاز کیا۔ لوگوں نے قوم پرستوں کے پنجاب دشمن پروپیگنڈے اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باوجود دل کھول کر خوش آمدید کہا‘ مگر 2007ء میں وطن واپسی کے بعد میثاق جمہوریت ان کے پائوں کی زنجیر ہے۔ وزیر اعظم ہیں مگر سندھ میں کسی خاتون سے زیادتی کا نوٹس لے کر سر پر ہاتھ رکھنے پہنچتے ہیں‘ نہ کسی قدرتی آفت کے موقع پر کہیں قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ شاید خاموش مفاہمت یہی ہے کہ زرداری صاحب اور بلاول پنجاب میں دخل اندازی نہیں کریں گے اور شریف برادران‘ سندھ میں۔ ما بہ خیر‘ شما بسلامت۔ 
وسطی پنجاب کے عوام تو گدھے اور دوسرے جانوروں کے گوشت کی فروخت سے پریشان ہیں‘ ہونا بھی چاہیے ایک ہی صوبہ تھا‘ جس میں گورننس کی صورتحال قدرے بہتر تھی اور میاں شہباز شریف کی مضبوط گرفت‘ مستعدی اور فعالیت کے گن اپنے پرائے گاتے تھے‘ مگر جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں لوگ روکھی سوکھی کو ترستے ہیں۔ فورٹ منرو‘ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا صحت افزا مقام ہے۔ سردار فاروق احمد خان لغاری صدر بنے تو انہوں نے یہاں واٹر سپلائی سکیم منظور کرائی‘ مگر گرمیوں میں اس سرکاری سکیم کا پانی بکتا ہے۔ اور اردگرد کی بستیوں کے جو غریب خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ اس واحد جھیل سے مستفید ہوتے ہیں جس سے جانور پیاس بجھاتے ہیں۔ مسلم ہینڈز نے بعض علاقوں میں بارشی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے تالاب بنائے۔ یہی حال تونسہ اور راجن پور کے مغربی علاقوں کا ہے‘ جہاں پانی کی کمی ہے۔
جاگیردار یہاں بھی سندھی اور بلوچی جاگیرداروں کی طرح دولت مند اور عیش و عشرت کے دلدادہ ہیں‘ سرکاری فنڈز انہیں دستیاب ہیں اور وہ چٹی دلالی سے بھی اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں‘ قاتلوں اور مخصوص دہشت گردوں کے یہاں ٹھکانے ہیں اور خلق خدا کا جینا حرام ہو چکا ہے مگر جس طرح کہ عمران خان نے کہا ''غریب آدمی کا کوئی پُرسان حال نہیں‘‘ ہر سیاسی جماعت میں ان وڈیروں‘ جاگیرداروں‘ مخدوموں اور تمنداروں کا اثرورسوخ ہے اور بلدیاتی و عام انتخابات میں یہ اپنی مرضی کے لوگوں کو آگے لا کر عوامی نمائندگی کے دعویدار بن جاتے ہیں۔ تھانہ‘ کچہری میں معاملات ان کی مرضی سے چلتے ہیں اور اسی اثرورسوخ کی بنا پر ان کے سنگین جرائم پر پردہ پڑا رہتا ہے۔
باقی لیڈر تو خیر 'سٹیٹس کو‘ کے حامی ہیں‘ مگر عمران خان کی ساری تگ و تاز بھی محض وسطی پنجاب اور خیبر پختونخوا تک ہے‘ جنوبی پنجاب میں‘ ملتان و بہاولپور‘ سندھ میں کراچی جا کر خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تبدیلی کے لیے اپنا فرض ادا کر دیا۔ مزارع‘ ہاری اور عام آدمی تک براہ راست رسائی کی ضرورت انہوں نے بھی محسوس نہیں کی۔ میاں صاحب کی تو مجبوری ہے‘ عمران خان عام آدمی سے براہ راست مخاطب کیوں نہیں ہوتے؟ اور بستیوں‘ گوٹھوں‘ اوطاقوں کا رخ کیوں نہیں کرتے؟ زمین ہموار ہے‘ ماحول سازگار اور دل و جاں سے خوش آمدید کہنے والوں کی تعداد بے شمار۔
خان صاحب جاگیرداروں‘ وڈیروں اور سرمایہ داروں کی کرپشن اور بیرون ملک اثاثوں‘ بینک اکائونٹس کا ذکر بھی سرسری انداز میں کرتے ہیں۔ محض بر وزن بیت۔ ورنہ تحقیقی رپورٹیں دستیاب ہیں‘ کرپشن سے تنگ آئے عوام ان کی بات سننا چاہتے ہیں اور کرپٹ عناصر کے عبرتناک احتساب و مواخذے کے لیے بے تاب۔ لوگ جان گئے ہیں کہ میثاق جمہوریت اور مفاہمتی سیاست کے پردے میں یہاں گزشتہ سات سال سے کیا مکروہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین پکڑے گئے تو پیپلز پارٹی کی قیادت یوں چیخی چلائی جیسے آسمان پھٹ پڑا ہو۔ تفتیش جاری ہے‘ اگر ایمانداری سے تفتیش ہوئی تو صرف سندھ اور کراچی میں نہیں پنجاب میں بھی کئی عاصم حسین پکڑے جائیں گے کیونکہ یہاں بھی ہر قسم کی گیس مفت بٹی۔
چند سال پہلے لاہور کے کئی گیس سٹیشنوں پر لوٹ سیل کے بینر لگے نظر آتے تھے‘ پچاس فیصد تک رعایت دی جاتی تھی۔ کیا گیس کے نرخوں میں پچاس فیصد رعایت ممکن ہے؟ مفت مل رہی ہو تو کیوں نہیں؟ مال مفت دلِ بے رحم۔ نقصان قوم و ملک کا اور فائدہ سی این جی سٹیشن مالکان کے علاوہ انہیں مفت سپلائی فراہم کرنے والے محکمے اور اس کے نگران وزیر‘ مشیر اور دیگر سرپرستوں کا۔ ڈھوڈک میں گیس کے ذخائر کی لوٹ مار پرویز مشرف اور زرداری کے دور میں ہوئی اور بھٹو دور میں دریافت ہونے والے تیل و گیس کے ذخائر اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بٹے۔ آج وہاں ویرانی سی ویرانی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں کہ سبب کیا ہے؟ کوئی مجرم پکڑا گیا تو سیاسی انتقام کا شور مچا کر بچ جائے گا‘ جس طرح کراچی میں پکڑے گئے ٹارگٹ کلرز‘ را کے ایجنٹوں اور دہشت گردوں کے مالی سہولت کاروں کی گرفتاری پر مچ رہا ہے اور سارے لٹیرے مل جل کر ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پنجاب کے لوگ فخر کیا کرتے تھے کہ یہاں پولیس‘ انتظامیہ اور حکومت اتنی بُری نہیں جتنی دوسرے صوبوں میں ہے مگر گزشتہ چند ماہ سے یہاں جس قسم کے واقعات ظہور پذیر ہوئے انہوں نے عوام کو شرمندگی اور پریشانی سے دوچار کیا ہے۔ میٹرو بسوں‘ فلائی اوورز اور انڈر پاسز کے جنون میں مبتلا گڈ گورننس کی قلعی یوں کھلی کہ کہیں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے‘ کہیں دیگر حرام جانوروں کا۔ دو اڑھائی ہزار روپے فی کس کھانا فراہم کرنے والے ریستورانوں میں حفظان صحت اور صفائی کی حالت شرمناک۔ شہر و دیہات میں جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافہ مگر کسی کو صحیح صورتحال معلوم نہ روک تھام کی فکر۔ راولپنڈی سے مشکوک گوشت لاہور لانے والے پکڑے گئے مگر اس مشکوک گوشت کو پی سی ایس آئی آر لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کے بجائے ایک ایسے ادارے کے سپرد کیا گیا جس کے پاس جدید آلات نہ قرار واقعی سہولت۔ مرضی کی رپورٹ ملنا مشکل نہیں۔
رینجرز نے کراچی میں بعض مگرمچھوں پر ہاتھ ڈال کر عوام کی امیدوں اور توقعات میں اضافہ کیا ہے۔ اگر ریاستی ادارے اپنا فرض خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہوتے تو رینجرز کو یہ معاملات ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہ تھی۔ دوسرے صوبوں میں بھی صورتحال چنداں قابل رشک نہیں ہر جگہ لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور میگا کرپشن نے ریاست کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اگر صرف عاصم حسین والے کیس کا دائرہ پنجاب تک وسیع ہوا تو بہت سے پردہ نشینوں کا پتہ چلے گا جو قدرتی گیس کے ذخائر پر ہاتھ صاف کرتے رہے۔ قبضہ گروپوں‘ منشیات فروشوں‘ اسلحہ کے سمگلروں اور قومی خزانے کے لٹیروں کا معاملہ اس کے سوا ہے ع 
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیرگیر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں