وطن کی بیٹیاں مائیں سلام کہتی ہیں!

میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا‘ جب 6 ستمبر کی صبح بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملہ کیا۔ لاہور سے سینکڑوں کوس دور واقع قصبے میں جنگ کی اطلاع ریڈیو پاکستان پر اس وقت کے فوجی صدر ایوب خان کے نشری خطاب سے ملی اور بڑوں بوڑھوں کے علاوہ بچوں کو جذبہ جہاد سے سرشار کر گئی۔
ایوب خان نے کہا: ''پاکستان کے دس کروڑ عوام‘ جن کے دل میں لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ کی صدا گونج رہی ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکمران شاید نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ دو منٹ سے بھی کم دورانیے کی اس تقریر نے قوم کے جسم و جاں‘ دل و دماغ میں بجلیاں بھر دیں اور خیبر سے راس کماری تک ہر مرد و زن بھارتی توپوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے اٹھ کھڑا ہوا۔ محاذ جنگ پر بہادر فوج نے شجاعت اور دلیری کے حیرت انگیز ریکارڈ قائم کئے تو اندرون ملک نہتے‘ پُرجوش اور جذبۂ ایمانی سے سرشار عوام نے ایثار و قربانی اور حب الوطنی کی لازوال مثالیں رقم کیں۔
ہمارے قصبے میں دو گھر ایسے تھے‘ جہاں بیٹری سے چلنے والے جمبو سائز کے ریڈیو تھے‘ جنہیں کمرے سے اٹھا کر باہر رکھنے میں احتیاط برتی جاتی کہ کہیں یہ نازک مزاج مشین خاموشی کا روزہ نہ رکھ لے۔ پورے قصبے میں کوئی مکینک دستیاب نہ تھا کہ کسی خرابی کی صورت میں ریڈیو ٹھیک کر سکے؛ البتہ سیلوں والا ایک ریڈیو سکول میں موجود تھا‘ جو ماسٹر ریاض اظہر صاحب‘ ماسٹر عبدالحکیم خادم صاحب‘ ماسٹر تاج محمد صاحب‘ ماسٹر علی محمد ملغانی صاحب اور ماسٹر قاضی عبدالکریم صاحب اکٹھے بیٹھ کر سنتے اور ریڈیو سننے کے شوقین اپنے شاگردوں کو بھی بیٹھنے کی اجازت دیتے۔
ماسٹر ریاض احمد صاحب کی مہربانی سے سکول میں دو اخبارات آنا شروع ہوئے‘ جو ظاہر ہے کہ بذریعہ ڈاک دوسرے تیسرے دن پہنچتے۔ تختہ سیاہ پر اہم خبروں کی سرخیاں لکھنے کی ذمہ داری میری تھی‘ یا پھر ایک دوسرے طالب علم کی جو میری طرح اخبار بینی کا شوقین تھا۔ جنگ ستمبر کے بارے میں پورے قصبے کی معلومات کا واحد ذریعہ ریڈیو پاکستان کی نشریات تھیں یا اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں‘ جو سکول ٹیچر اپنے ملنے والوں کو ذوق و شوق سے بتاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایوب خان نے دفاعی فنڈ کا اعلان کیا‘ تو اس مفلوک الحال قصبے کے باسیوں نے اچھی خاصی فیاضی کا مظاہرہ کیا جبکہ ایک اخبار نے ایک پیسہ ایک ٹینک کی مہم چلائی تو ہم طالب علموں نے اپنے اساتذہ کے ذریعے عطیہ ارسال کیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید اپنا ذاتی گھر دفاعی فنڈ کے لیے عطیہ کرنے کے بعد شکارپور آئے تو شہریوں کے علاوہ سکول اساتذہ نے بھی دل کھول کر چندہ دیا اور طالب علموں نے بھی اپنا جیب خرچ ان کے سامنے ڈھیر کر دیا۔ 
پچاس سال بعد 6 ستمبر یوم شہداء کے طور پر مناتے ہوئے ہم ایک بار پھر حالت جنگ میں ہیں۔ 1965ء میں ہماری مشرقی سرحد دشمن کی زد میں تھی اور دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی تھیں‘ مگر موجودہ جنگ ملک کے اندر لڑی جا رہی ہے اور مشرقی و مغربی سرحدوں پر بھی جھڑپیں جاری ہیں۔ 1965ء میں فوج یکسو تھی اور قوم متحد‘ مگر اس بار فوج بیک وقت کئی محاذوں پر برسر پیکار ہے۔ 
سیاستدان و حکمران جنگ زرگری میں مشغول اور ان کے پیروکار تماشائی۔
1965ء میں دانشور‘ ادیب‘ صحافی‘ شاعر‘ گلوکار‘ مزدور‘ کسان‘ تاجر‘ صنعتکار‘ جاگیردار اور سیاستدان امتیاز من و تو مٹا کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے اور کوئی بنگالی نظر آتا تھا نہ پشتون‘ پنجابی اور بلوچ و سندھی۔ مگر اب ہر روز کہیں مہاجر اور سندھی کی بحث ہوتی ہے اور کہیں پنجابی و بلوچ میں لڑائی۔ حتیٰ کہ سنگین جرائم‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو بھی جرم کی نوعیت کے مطابق سزا کے بجائے سیاسی وابستگی اور نسلی و لسانی شناخت کی بنا پر رعایت دینے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ 1965ء کی جنگ کا طبل بجا تو سمگلروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں نے بھی ماضی کو بھلا کر اپنے آپ کو ایک ذمہ دار‘ ایثار پیشہ اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار شہری کے طور پر قومی دھارے میں شامل کیا‘ روزمرہ استعمال کی اشیاء مہنگی ہونے دیں نہ نایاب‘ سترہ دنوں میں ایک نئی قوم نے جنم لیا۔
اس وقت مگر ہر سو آپا دھاپی ہے‘ مسلمان حلال گوشت کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور جنہیں قوم کو متحد کرنا چاہیے‘ وہی انتشار و افتراق کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر کمینے دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کم‘ بااختیار افراد اور گروہوں کی لوٹ مار کا شہرہ زیادہ ہے۔ فوج اور رینجرز کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے سازشی کہانیوں کی بھرمار ہے اور قوم کا جوش و جذبہ ابھارنے کے بجائے اسے مایوس و مضطرب کرنے کی کوشش عروج پر۔
ضرب عضب آپریشن شروع ہوا تو قوم کو امید تھی کہ 1965ء کی طرح اسے ثقل سماعت کا باعث بننے والے بے سروپا بھارتی گانوں کے بجائے ملی نغمے اور قومی ترانے سننے کو ملیں گے‘ جو روح کو گرما دیں‘ قلب کو تڑپا دیں: ؎
خطۂ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
شہریوں کو، غازیوں کو، شہ سواروں کو سلام
میرا ماہی چھیل چھبیلا‘ ہائے نی کرنیل نی‘ جرنیل نی
اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘ توں لبھدی پھریں بزار کڑے
ایک سال گزر گیا سیاستدانوں کی لن ترانیاں کانوں میں زہر گھولتی ہیں یا بھارتی حکمرانوں کی بڑھکوں کے جواب میں ہمارے دانشوروں اور فیصلہ سازوں کے معذرت خواہانہ‘ پھسپھسے اور اندرونی اکتاہٹ کے مظہر بیانات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو میاں صاحب کی طرح سرینگر کے آتش بجانوں سے زیادہ ایم کیو ایم سے دلچسپی ہے اور پنجاب و سندھ کے حکمرانوں کو احتساب کی زد میں آنے والے اپنے طفیلیوں کے مستقبل کی فکر۔ حالانکہ اس وقت ہر سو یہ نغمہ گونجنا چاہیے ؎
ساتھیو! مجاہدو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن
جو بھی رستے میں آئے گا کٹ جائے گا
رن کا میدان لاشوں سے پٹ جائے گا 
آج دشمن کا تختہ الٹ جائے گا
ہر جری صف شکن‘ ہر جواں تیغ زن‘ ساتھیو! مجاہدو!
اگست کے آخر میں وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے میڈیا مالکان اور مدیران اخبارات و جرائد کو یہ مژدہ سنایا تھا کہ حکومت نے ستمبر کا پورا مہینہ جنگ ستمبر کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج 6 ستمبر ہے۔ قومی سطح پر صرف الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ہی یہ گولڈن جوبلی منا رہا ہے‘ نظریہ پاکستان ٹرسٹ جیسے غیر سرکاری ادارے یا پھر فوج کا محکمہ اطلاعات۔ کسی اور کی طرف سے سرگرمی نظر آتی ہے نہ تقریبات کا اہتمام۔ کہیں یہ اندرونی خوف تو نہیں کہ ماہ دفاع کی تقریبات فوج کی مقبولیت میں اضافہ کریں گی؟ 
1965ء میں پوری قوم یک و جان دو قالب تھی اور اپنے غازیوں کی بلائیں لیتے ہوئی نغمہ سرا:
اپنی جاں نذر کروں‘ اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد‘ تجھے کیا پیش کروں
تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کر
ابھرا ہر گام پہ تو فتح کا نعرہ بن کر
اس شجاعت کا تجھے کیا میں صلہ پیش کروں
عمر بھر تجھ پہ خدا اپنی عنایت رکھے
تیری جرأت‘ تیری عظمت کو سلامت رکھے
جذبۂ شوقِ شہادت کی دعا پیش کروں
1965ء اور 1971ء کے علاوہ شمالی وزیرستان سے کراچی اور بلوچستان تک دہشت گردوں، ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار عناصر کے خلاف جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہیدوں کی یاد مناتے ہوئے پاکستانی قوم کے جذبات وہی ہیں‘ جو جنگ ستمبر میں تھے؛ البتہ حکمران اشرافیہ ان جذبات کو ابھارنے کے بجائے ان کی لو مدھم کرنے میں مصروف ہے‘ کیونکہ اسے اپنے مفادات عزیز ہیں اور اپنے ازلی دشمن سے بھائی چارے کی خواہش غالب ؎
اے راہ حق کے شہیدو‘ وفا کی تصویرو!
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم
رسول پاکؐ نے باہوں میں لے لیا ہو گا
علیؓ تمہاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے
حسینؓ نے ارشاد یہ کیا ہو گا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
جناب فاطمہؓ جگرِ رسول کے آگے
شہید ہو کے کیا ماں کو سرخرو تم نے
جناب حضرت زینبؓ گواہی دیتی ہیں
شہیدو رکھی ہے بہنوں کی آبرو تم نے
وطن کی بیٹیاں مائیں‘ سلام کہتی ہیں
ستمبر میں بھی اگر حکمران اشرافیہ قوم کا جذبہ جہاد و سرفروشی اجاگر نہ کر سکی تو پھر کب؟ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں