امریکہ کے مطالعاتی دورے کا آغاز ہم نے واشنگٹن سے کیا۔ 9/11 سے پہلے امریکی ایئرپورٹس پر جامہ تلاشی کا رواج تھا‘ نہ محمد‘ احمد اور علی نام کے افراد کو گھنٹوں تک تفتیش کے نام پر زچ کیا جاتا۔ چھبیس ممالک کے تیس صحافیوں کو پہلی بریفنگ میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ کھانا آپ اپنے رہائشی فور یا فائیو سٹار ہوٹل کے ریستوران سے کھائیں یا گلی میں موجود کھوکھے‘ ٹھیلے سے خرید کر‘ ہو گا حفظان صحت کے اصولوں اور حکومت کے طے کردہ معیار کے مطابق۔ ہم انسانی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور خوراک و ادویات کے ناقص‘ غیر معیاری‘ مضر صحت اور جعلی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جن لوگوں کو امریکہ‘ یورپ‘ سکینڈے نیوین ممالک تو رہے ایک طرف عرب ریاستوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہاں الیکٹرانک آلات کپڑے‘ جوتے وغیرہ تو دو نمبر بھی مل سکتے ہیں اور ناقص و غیر معیاری بھی مگر کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات سو فیصد اصلی اور معیاری ملتی ہیں کیونکہ ان معاشروں میں یہ قتل کے برابر سنگین جرم ہے‘ ہمارے ہاں مگر سب سے زیادہ غیر یقینی صورتحال انہی شعبوں میں ہے۔ جان بچانے والی ادویات تک جعلی اور ناقص بکتی ہیں۔
چند روز قبل برادرم غلام مصطفیٰ میرانی کے گھر عشائیے پر معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر مسعود احمد بتا رہے تھے کہ ایک شہرت یافتہ ادویہ ساز کمپنی نے اختلاج قلب کی نئی دوا بنائی جو بازار میں موجود دیگر ادویات سے بہتر‘ منفی اثرات سے محفوظ اور نسبتاً سستی تھی۔ تحقیق اور تیاری پر اس بین الاقوامی ادارے نے چھ سو ملین ڈالر خرچ کئے۔ پاکستانی روپوں میں ساٹھ ارب روپے۔ جانوروں پر اس دوائی کا تجربہ سو فیصد کامیاب رہا۔ انسانوں پر دوا آزمائی گئی تو مثبت نتائج سامنے آئے۔ مگر چونکہ انسانی جانوں کا معاملہ تھا لہٰذا دوبارہ آزمائش کا فیصلہ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ مابعد اثرات کے حوالے سے نتائج اطمینان بخش نہیں اور لاکھ میں سے ایک انسان کے لیے یہ دوا مضر ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس تحقیقی اور تجرباتی پروجیکٹ کی بساط لپیٹ دی گئی اور ساٹھ ارب روپے تجربے کی نذر ہو گئے۔
پاکستان میں مگر ادویہ ساز کمپنیوں نے اودھم مچا رکھا ہے چند سال قبل گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین مرحوم علاج کرانے امریکہ گئے۔ انہوں نے پاکستان میں زیر استعمال ادویات امریکی لیبارٹری سے چیک کرائیں‘ تو ساری ناقص اور جعلی نکلیں۔ امریکی حیران رہ گئے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے اعلیٰ عہدیدار کو بھی اصلی اور بین الاقوامی معیار کی ادویات میسر نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ادویات کوئی کھوکھے والا تو سپلائی نہیں کرتا ہو گا‘ کسی بڑے اور قابل اعتماد سٹور سے خریدی جاتی ہوں گی۔ گورنر واپس آئے۔ یہ خبر ذرائع ابلاغ کی زینت بنی مگر سپلائر سے کسی نے تعرض کیا‘ نہ عوام کو نام‘ پتہ معلوم پڑا۔
معروف خطاط رشید احمد وارثی مرحوم کو مزنگ چونگی کے قریب دل کی تکلیف محسوس ہوئی‘ نسخہ ان کی جیب میں تھا‘ رکشے سے اترے اور قریب واقع فارمیسی پر موجود سیلزمین کو دکھا کر دوائی طلب کی۔ سیلزمین نے دوائی کی مقدار پڑھ کر کہا بزرگو! اتنی زیادہ مقدار میں دوائی استعمال کرنے کو کس نے کہا ہے؟ وارثی صاحب نے معروف ماہر امراض قلب کا نام لیا۔ سیلزمین پھر بھی مطمئن نہ ہوا اور بولا دوائی میں دے دیتا ہوں رسید نہیں دوں گا کیونکہ آپ کو خدانخواستہ کچھ ہو گیا تو میں پکڑا جائوں گا۔ شام کو ماہر امراض قلب کے پاس جا کر وارثی صاحب نے واقعہ سنایا تو بولے‘ اس نے درست کہا۔ وارثی صاحب کو تعجب ہوا۔ بولے‘ پھر آپ مجھے اتنی زیادہ مقدار میں یہ دوا استعمال کیوں کرا رہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا‘ ہمارے ہاں گولی میں دوا کی مقدار دس گنا کم ہوتی ہے‘ باقی سفید سفوف پھانکا جا رہا ہے اس بنا پر ہم مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ ''اگر کسی دن خالص دوا اتنی ہی مقدار میں کھا لی تو!؟‘‘ وارثی صاحب نے پوچھا۔ ''پھر قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
یہی حال اشیائے خورو نوش کا ہے۔ گاڑیوں کے استعمال شدہ موبل آئل میں پکوڑے‘ سموسے‘ چپس تلے جا رہے ہیں اور دھڑادھڑ بک رہے ہیں۔ گائے‘ بھینس اور بکرے کا جو گوشت دستیاب ہے اس کے بارے میں یقین سے کہنا مشکل ہے کہ یہ واقعی کسی حلال جانور کا ہے یا گدھے‘ گھوڑے‘ کتے‘ کچھوے اور دوسرے جانور اور مردہ مرغ کا۔ عائشہ ممتاز نے بیکریوں‘ ریستورانوں اور گوشت کی دکانوں پر چھاپے شروع کیے تو عوام کو پتہ چلا کہ انہیں کیا کچھ کھلایا جا رہا ہے ورنہ یہ کاروبار تو عشروں سے جاری ہے اور حکومت‘ اس کے ادارے اور عوام میں سے کسی کے کانوں پر کبھی جوں نہیں رینگی۔
لاہور کے وسط میں جو نہر بہتی ہے اس میں سیوریج کا پانی نجی ہائوسنگ سکیموں کے علاوہ سرکاری ادارہ واسا انڈیلتا چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ روز عدالتی حکم پر کئی مقامات پر گندے‘ بدبودار اور مضر صحت پانی کی ترسیل بند کی گئی۔ ہر محلے میں سے ایک گندا نالہ گزرتا ہے اور یہی پانی اکٹھا ہو کر شہر کے ارد گرد واقع کھیتوں کو سیراب کرتا ہے۔ اس نہر اور گندے نالوں میں لوگ نہاتے بھی ہیں اور یہ ماحولیاتی آلودگی بھی پھیلاتے ہیں۔ انہی گندے نالوں کے اردگرد انسان بستے ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔ تنور اور ڈھابے آباد ہیں اور شہری مزے سے یہاں بیٹھ کر کھانا کھاتے‘ چائے پیتے اور گپ شپ کرتے ہیں۔ مجال ہے کسی نے انہیں بتانے کی کوشش کی ہو کہ وہ مہلک بیماریوں کو منہ اور ناک کے ذریعے اپنے اندر انڈیل رہے ہیں۔
ریستورانوں میں جو پکتا اور بیکریوں میں جو بکتا ہے وہ اگر حلال اور معیاری ہو تب بھی اگر باورچی خانہ‘ تیاری کی جگہ چوہوں‘ کاکروچوں‘ کیڑوں‘ مکوڑوں اور جراثیم کی آماجگاہ ہے۔ برتن گندے پانی میں دُھلے اور الیکٹرانک اشیا صفائی ستھرائی سے محروم۔ کارکن دمے‘ ٹی بی اور سوزش جگر (ہیپاٹائٹس) کے مریض ہوں تو باقی حفاظتی انتظامات کا کیا فائدہ؟ کبھی ان کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا نہ علاج معالجہ اور ہم ان بیکریوں‘ ریستورانوں کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر مہنگے داموں بیماریاں خریدنے میں مصروف۔ جن وینوں میں یہ اشیاء سپلائی ہوتی ہیں ان کی حالت دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا کہ کبھی ان کی صفائی ہوئی یا انہیں اشیائے خورونوش کی سپلائی کے لیے فٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔
کہنے کو ایک نہیں دس دس محکمے موجود ہیں جن کا فرض گندی‘ بدبودار اور مہلک جراثیم سے آلودہ ادویات و خوراک کی فیکٹریوں‘ ریستورانوں‘ بیکریوں‘ ذبیحہ خانوں اور مراکز فروخت کی دیکھ بھال‘ چھان بین ہے۔ ایک ایک محکمے میں ہزاروں کارکن اور افسر مگر الاماشاء اللہ انہی کے دم قدم اور پشت پناہی سے یہ کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ان محکموں کے کارکن اور افسر ہر روز نہ سہی‘ ہر ہفتے اور مہینے معائنہ کے لیے ضرور نکلتے ہیں اور اس مٹر گشت کو ریکارڈ پر بھی لاتے ہیں مگر صرف طے شدہ بھتہ وصول کرنے اور مالکان و ملازمین کو شاباش دینے کے لیے۔
حکمرانوں کو نمائشی منصوبوں‘ کمشن اور کک بیکس کی وصولی اور اپنی ذاتی و خاندانی تشہیر سے فرصت ملے تو وہ ان معاملات پر توجہ دیں۔ کچھ عرصہ قبل لاہور میں امراض قلب کے ایک مشہور ہسپتال میں جعلی دوائیوں کے سبب اموات ہوئیں‘ سرگودھا اور وہاڑی میں زیر علاج بچے جاں بحق ہو گئے مگر مجال ہے کہ کسی کو سزا ملی اور آئندہ کے لیے روک تھام کی کوئی تدبیر کی گئی ہو۔ اصل میں پاکستانی معاشرے سے حلال حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ مردہ گوشت کا نام سن کر ہمیں ابکائی آتی ہے مگر رشوت‘ جعلی اشیائے خورونوش اور ناقص ادویات و منشیات کی فروخت‘ سمگلنگ اور لوٹ مار کی کمائی پر عیش کرتے ہیں جو مال حرام ہے مردار گوشت کھانے سے بدتر۔ مگر کسی کو پروا نہیں ہڈیوں اور خون میں حرام رچ بس جو گیا ہے ورنہ ٹڈاپ‘ رینٹل پاور‘ آئی این سی ایل‘ نندی پور اور سولر پاور کے ذریعے قوم کا خون نچوڑنا کیونکر روا ہے؟ کیا یہ گدھے اور مردہ جانور کا گوشت فروخت کرنے اور ریستورانوں میں صاف ستھرائی کا خیال نہ رکھنے سے زیادہ سنگین جرم نہیں؟ درختوں کی کٹائی کا ماتم کرنے والی این جی اوز نے کبھی اس پر احتجاج کیا؟
ظاہر ہے کہ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہو‘ انسانی جان کی کوئی قدروقیمت ہو نہ قومی مفاد کا کسی کو خیال‘ لوگ چھوٹے چھوٹے ریستورانوں اور دودھ دہی کی دکانوں پر چھاپوں سے خوش ہو جاتے ہوں اور اپنے لیڈروں کی لوٹ مار بے نظیر انکم سکیم‘ ای او بی آئی سکیم‘ بیت المال‘ زکوٰۃ میں خرد برد کا دفاع کرتے ہوں وہاں کسی کو ہسپتال‘ تعلیمی ادارے بنانے‘ حفظان صحت کا شعور اجاگر اور طبی معیار کے مطابق ادویات و خوراک کی فراہمی کا اہتمام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہماری جمہوریت حکومت‘ سیاست‘ ہوٹلوں‘ ریستورانوں اور بیکریوں کا حال ایک جیسا ہے اوپر سے چمک دمک‘ نمودونمائش اور طلسم ہوشربا۔ آنکھیں چندھیانے کا اہتمام مگر اندرع
چہرہ روشن‘ اندرون چنگیز سے تاریک تر