ہمارے اداروں پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟ کوئی کام بھی ڈھنگ سے کر نہیں پاتے۔ دودھ بھی مینگنیاں ڈال کر دیتے ہرگز نہیں شرماتے۔ ہدف تنقید اور نشانہ تضحیک بن کر بھی اپنے کسی فیصلے اور اقدام پر نظرثانی نہیںفرماتے۔ تازہ ترین مثال الیکشن کمشن آف پاکستان کا انتخابی ضابطہ اخلاق ہے جس پر عمران خان برہم ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران حکومتی عہدیداروں کی مداخلت اور سرکاری وسائل کے استعمال پر پابندی دنیا کے تمام مہذب جمہوری معاشروں میں عائد ہے تاکہ انتخابی عمل پر ووٹروں کا اعتماد بحال رہے اور کسی ایک فریق کو غیر معمولی طور پر اثرانداز ہونے کا موقع نہ ملے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں الیکشن کمشن اپنی خود مختاری، غیر جانبداری اور آزاد روی کے لئے مشہور ہے، تاہم ارکان اسمبلی پر انتخابی مہم چلانے اور اپنی جماعت کے امیدواروں کی طرف سے منعقدہ تقریبات میں شرکت کرنے کی ممانعت بھارتی الیکشن کمشن نے نہیں کی۔
چند سال پیشتر اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ایک ایسے حلقے میں سرکاری ہیلی کاپٹر پر کسی ترقیاتی سکیم کا افتتاح کرنے پہنچے جہاں انتخابی مہم جاری تھی۔ الیکشن کمشن نے سختی سے نوٹس لیا، وزیراعظم کو ترقیاتی سکیم کے افتتاح اورسرکاری تقریب میں خطاب سے روک دیا اور ہیلی کاپٹر کا کرایہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ وزیراعظم نے حکم پر عمل کیا اور جان چھڑائی۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت وزیراعظم اور وزراء انتخابی عمل کے دوران عبوری ملازمتیں دینے کا حق رکھتے ہیں نہ حلقے کے عوام کو کوئی دوسری مراعات، جن سے سرکاری پارٹی کے امیدوار کو سیاسی فائدہ مل سکتا ہو۔
سرکاری جماعتوں کے سربراہ، وزیراعظم اور وزراء کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت ہے، البتہ سرکاری وسائل اور پروٹوکول کے استعمال، ترقیاتی فنڈز جاری کرنے، ملازمتیں دینے اورایسے دعوے کرنے پر پابندی ہے جس سے حلقہ کے ووٹروں کے متاثر ہونے اور اپنی رائے بدلنے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً ایک بار بھارتی وزیر سلمان خورشید کو اس بنا پر الیکشن کمشن کی طرف سے سخت وارننگ ملی کہ اس نے مسلم اکثریت کے ایک حلقے میں یہ وعدہ کیا کہ کانگرس برسراقتدار آ کر کوٹہ سسٹم میں بہتری لائے گی اور ملازمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ سلمان خورشید نے بہتیرا شور مچایا کہ اس نے کانگریس کی پالیسی بیان کی، مسلمانوں کو پرکشش ترغیب نہیں دی مگر الیکشن کمشن نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکایت کو درست قراردیا۔
ہمارے ہاں مگر الیکشن کمشن کا باواآدم نرالا ہے۔ اس نے عوام اور سیاسی جماعتوں کے پرزور اصرار پر انتخابی ضابطہ اخلاق بنایا بھی تو اس میں ایک ایسی شق رکھ دی جو موجب نزاع ہے۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق صدر، گورنر، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ ، وزیروں کے علاوہ ارکان اسمبلی بھی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب کراچی میں حلقہ 246 کے ضمنی انتخابات ہوئے تو الیکشن کمشن نے ارکان اسمبلی پر ایسی کوئی پابندی عائد نہ کی چنانچہ عمران خان اور سراج الحق نے رکن اسمبلی ہوتے ہوئے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ مگر جب ہری پور میں ضمنی انتخابات کا مرحلہ آیا تو یہ شق لاگو کر دی گئی۔ اب لاہور کے ضمنی انتخابات میں بھی رکن اسمبلی کے طور پر عمران خان کو انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روکا جا رہا ہے۔
وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور وزراء پر قدغن کا جواز تو پھر بھی نظر آتا ہے کہ وہ اپنا سرکاری اثرورسوخ، اختیارات اور وسائل سرکاری جماعت کے امیدوار کے حق میں استعمال نہ کرسکیں لیکن ارکان اسمبلی پر پابندی لگانے کی اس کے سوا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جن اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان و دیگر بااثر عہدیدار رکن پارلیمنٹ ہیں وہ بھی انتخابی مہم میں حصہ نہ لے سکیں۔ کیا یہ انتخابی عمل کو غیر سیاسی بنانے اور ملک میں مقبول سیاسی شخصیات کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کے مترادف اقدام نہیں؟ کسی سیاسی جماعت کا انتخابی پروگرام اور نظریاتی منشور پارٹی سربراہ اور دیگر اہم امیدوار ہی بہتر انداز میں عوام کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جنہیں اگر انتخابی عمل سے دور کردیا جائے تو پھر گلی محلے کے لیڈر ذات برادری ،مسلک، عقیدے اور زبان و نسل کی بنیاد پر ہی ووٹ مانگیں گے۔
مجھے ذاتی طور پر وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور وزیروں پر پابندی کی بھی کوئی تک نظر نہیں آتی۔ کیا یہ زیادتی نہ ہوگی کہ ایک حلقے میں بطور وزیراعظم میاں نواز شریف، بطور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف، بطور رکن اسمبلی عمران خان، شاہ محمود قریشی، سراج الحق تو اپنے اپنے امیدوار کے حق میں انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہوں مگر بلاول بھٹو، منظور وٹو، قمر الزمان کائرہ کو اسی حلقے میں جلسہ وجلوس، تقریر اور رابطہ عوام کی مکمل آزادی ہو، گویااسمبلی کی رکنیت جرم ٹھہری۔
کیا یہ الیکشن کمشن کی طرف سے اظہاربے بسی نہیں کہ وہ کسی سرکاری عہدیدار اوررکن اسمبلی کو اپنا اثرورسوخ اور اختیار استعمال کرنے سے روکنے کے قابل نہیں۔ لہٰذا اس نے انتخابی مہم پر ہی پابندی لگا دی۔نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ پابندی سرکاری اثرورسوخ، اختیارات کے ناروا استعمال، ملازمتوں کے احکامات، بجلی، گیس کے کنکشنز دینے، کھمبے لگوانے اور سڑکیں، گلیاں بنوانے پر لگنی چاہیے تاکہ ووٹرز کی وفاداری تبدیل نہ کرائی جاسکے مگر یہ کام بدستور جاری ہیں، کوئی روکنے والا نہیں، البتہ عمران خان جلسہ سے خطاب کرسکتا ہے نہ ریلی میں شرکت اور نہ ڈور ٹو ڈور مہم چلانے کا اہل۔
پاکستان میں قوانین اور ضابطوں پر بالعموم عملدرآمد اس بنا پر ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ عدم مساوات پر مبنی اور عقل و دانش کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لئے اخراجات کی مقررہ حد بھی مذاق ہے۔ پولنگ ڈے کے اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں مگر یہ دوعملی ختم کرنے پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ، گورنر اور دوسرے ریاستی عہدیداروں کے بھائی، بیٹے، بیویاں، بہنیں، بیٹیاں اور دیگر عزیزواقارب گھر گھر جا کر ووٹ اور ملازمتیںبانٹیں، وعدے وعید کریں اور مختلف پرکشش ترغیبات سے ووٹروں کاجی لبھائیں، پولیس افسر بلدیاتی امیدواروں کو دستبردار کرائیں، غفار گجر قتل ہو جائے، کسی کو نہیں مگر رکن اسمبلی ہونے کے ناطے کس پارٹی کا سربراہ ووٹ نہیں مانگ سکتا۔ اشرفیاں لٹائیں اور کوئلوں پر مہر۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میںقد آور سیاسی قائدین اور عوام میں مقبول جماعتوں کو انتخابی عمل سے دور رکھا گیا۔ لوگ برادری، دھڑے، زبان، نسل، مسلک اور عقیدے کے تعصبات اچھال کر اسمبلیوں میں پہنچے یا پھر دھن دولت کے ذریعے۔ آج تک سیاست، جمہوریت اور انتخابی عمل ان قباحتوں اور آلائشات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ضابطہ اخلاق کے ذریعے سیاست اور انتخابی عمل کوقومی کے بجائے گلی محلے کی لیڈر شپ کے حوالے کرنے کا نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ دھن دولت کا عنصر بڑھ جائے گا، کیونکہ عمران خان، سراج الحق، میاں نواز شریف، ایک ہی جلسے یا ریلی کے ذریعے اپنی جماعت کا پیغام ایک دن میں ہزاروں ووٹروں تک بآسانی پہنچاسکتے ہیں جبکہ ان کا کوئی پیروکار دس دن میں بھی یہ ہدف حاصل نہیں کرسکتا۔
ضابطہ اخلاق صحیفہ آسمانی ہے نہ اتفاق رائے سے وجود میں آنے والی دستاویز۔ آج عمران خان کواس پر اعتراض ہے، کل کوئی دوسرا معترض ہوگا اور پھر الیکشن کمشن کے چار ارکان کی طرح یہ ضابطہ اخلاق بھی متنازعہ ہو کراپنی افادیت کھو دے گا۔ لہٰذا تنازع بڑھنے سے قبل اس پر نظرثانی کرلی جائے۔ ارکان پارلیمنٹ کو تو لازماً استثنیٰ ملنا چاہیے کہ وہ ریاست کے ملازم ہیں نہ ووٹروں کو متاثر کرنے کے لئے ان کے پاس کسی قسم کے اختیارات اور نہ ہی وہ وزیراعظم یا وزراء کی طرح سرکاری مشینری پراثرانداز ہوسکتے ہیں۔
ویسے آپس کی بات ہے، حکمران جماعت کا کوئی ادنیٰ کارکن، وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا کسی بااثر وزیر کا عزیز، رشتہ دار، نمائندہ اگر انتخابی مہم کے دوران اپنے باس کے بل بوتے پرووٹروں سے وعدہ وعید کرے، ملازمت کا جھانسہ دے، سرکاری مشینری پردھونس جھاڑے اور کام نکلوائے، وزیراعظم، وزیراعلیٰ ہائوس کے براہ راست احکام پر وفاقی یا صوبائی محکمہ سرکاری امیدوار کی مدد کرے، وزیراعظم کا ترجمان لیسکو کے سربراہ کے طور پر کنکشن بانٹے تو ضابطہ اخلاق کی کونسی شق رکاوٹ بنے گی؟ کیا یہ حکومتی اختیارات اور ریاستی وسائل کا ناجائز استعمال نہیں؟ سوچنے کی بات ہے۔
حلقہ 122 اور 154 میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ مگر الیکشن کمشن کو اس سے سروکار نہیں۔ عمران خان کو روکنا ضروری ہے جس نے کمشن ارکان کو زچ کر رکھا ہے اور 4اکتوبر کواسلام آباد میں کمشن آفس کے سامنے بڑا جلسہ عام کرنے پر مصر ہے ؎
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جوکوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچاکے چلے
ہے اہل دل کے لئے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقیدّ ہیں اورسگ آزاد