بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں

ڈاکٹر عاصم حسین کو اللہ تعالیٰ حفظ و امان میں رکھے۔ طبی ٹیسٹ اگرچہ ان کے نارمل ہیں مگر ان کی بیگم اور صاحبزادی تشویش میں مبتلا ہیں۔ رشتہ ہی ایسا ہے۔ گرفتاری بذات خود لواحقین کے لیے باعث پریشانی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین سیاستدان نہیں کہ قید و بند کے عادی ہوں۔ سینیٹر اور وزیر وہ سیاسی خدمات کے سبب نہیں‘ آصف علی زرداری سے ذاتی قربت کے طفیل بن گئے۔ انہیں کیا معلوم تھا اقتدار و اختیار کی گاجریں بعض اوقات درد شکم کا باعث بنتی ہیں‘ اہل زبان ہیں انہیں پنجابی محاورے کی شدبد کہاں۔ جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھیڈھ اہناں دے پیڑ۔
سیاستدان نہ ہونے کے باوجود ہسپتال منتقلی کا فیصلہ انہوں نے ایک اچھے سیاستدان کی طرح کیا۔گرفتاری سیاسی نہ سہی۔ بیماری کو حاسدین اور ناقدین دونوں سراسر سیاسی قرار دے رہے ہیں اور رپورٹیں نارمل آنے کے بعد یہ تاثر مزید پختہ ہو گیا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل سیاستدان گرفتار ہو کر جیلوں میں جاتے تو اپنے لیے کوئی رعایت طلب کرنا معیوب سمجھتے ۔ ایک بار علامہ عنایت اللہ مشرقی نے جیل مینوئل کے مطابق رعایت کا مطالبہ کیا جو ان کا قانونی اور انسانی حق تھا تو دیوان سنگھ مفتون سمیت کئی سربرآوردہ اخبار نویسوں نے خوب مذاق اڑایا۔
کانگریس اور احرار کے رہنمائوں نے جیل یاترا کے ریکارڈ قائم کئے۔ یہ سیاست کا وہ دور تھا جب لوگ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت میں شمولیت محض اور محض اعلیٰ قومی مقصد کے حصول اور ارفع نظریہ کی ترویج کے لیے اختیار کرتے۔ صلہ و ستائش سے بے نیاز اورطنزو ملامت سے بے خوف۔ بقول آغا شورش کاشمیری مرحوم ؎
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
1970ء کے عشرے تک سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں ہی رہیں۔ 1980ء کے عشرے میں سیاست کا ایک نیا رنگ ڈھنگ متعارف ہوا۔ پہلے سیاستدان اور ان کے پیرو کار اپنے نظریے سے مخلص ہوتے تھے اور کامیابی و کامرانی کے جذبے سے سرشار‘ ناکامی کے تصور سے بیگانہ ؎
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
پھرنظریہ و مقصد سے بے نیاز بلکہ لاتعلق مفادات کے پجاریوں نے میدان سیاست سنبھالا۔ اُصولی سیاست کی جگہ وصولی سیاست نے لی۔سیاستدان نازک اندام‘ ریشم و اطلس و کمخواب میں بُنوائے ہوئے اور پیرو کار ضرورت مند و موقع پرست۔ اسی دور میں فرینڈلی اپوزیشن کا رواج پڑا اور فرمائشی گرفتاریوں کی روایت شروع ہوئی۔ قیام پاکستان سے قبل اورمابعد سیاسی کارکن اور پولیس ایک دوسرے کے رقیب تصور ہوتے‘ احتجاجی تحریکوں کے دوران یہ ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتے مگر اب یہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار سمجھے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں نے مفادات سمیٹنے شروع کیے تو کارکن کیوں پیچھے رہتے۔
بات دور نکل گئی۔ غیر نظریاتی سیاست شروع ہوئی تو محض حصول اقتدار اور قومی وسائل کی لوٹ مار کے لیے سیاست کرنے والوں کو دار و رسن کا سامنا کرنا مشکل ہوگیا۔ جیل کا نام سن کر سیاستدان اس طرح رفوچکر ہوتے ہیں جیسے کوّا تیر کمان دیکھ کر۔ اگر کبھی گرفتاری کی نوبت آئے تو ہسپتال ان کی پناہ گاہ ہوتے ہیں جہاں انہیں دنیا جہاں کی سہولتیںدستیاب۔ یہ بیماری کو انجوائے کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قید و بند سے گھبرا کر خود ساختہ جلاوطنی کا آغاز ہوا جو اب سیاستدانوں کی پختہ عادت بن چکی ہے۔ ایوب خان کے دور میں مولانا بھاشانی بیمار پڑے تو ہدف استہزابنے مگر 1990ء اور 2000ء کے عشرے میں مختلف سیاستدانوں کوعارضہ قلب‘ عارضہ چشم ‘ عارضہ جگر اور عارضہ دندان جیسی کوئی بیماری لاحق نہ ہوئی تو طبی چیک اپ کے بہانے ہسپتالوں یا دیار غیر کا رخ کیا اور جب تک حکومت سے ڈیل نہ ہو گئی یا اقتدار میں واپسی کی امید پیدا نہ ہوئی دوبارہ وطن کا رخ کیا نہ جیل کا۔
آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ میاں منظور وٹو اور دیگر کئی نامور سیاستدانوں کو جنرل (ر)پرویز مشرف کے عہد ستم میں جو بیماریاں لاحق تھیں بعدازاں ان کا ذکر کبھی کسی نے نہیں سنا۔ البتہ اقتدار میں آنے کے بعد سیاستدانوں اور ان کے قریبی ساتھیوں کو بسیار خوری کا مرض ضرور لاحق ہوا صرف بسیارخوری نہیں‘ تونْسکا بھی۔ تونْسایک بیماری ہے جس میں آدمی پانی پیتا ہے مگر اس کی پیاس نہیں بجھتی ۔ پانی پی پی کر پیٹ پھٹنے لگتا ہے مگر زبان العطش العطش پکارتی ہے۔
نیب کی فائلیں اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ پڑھ کر ہر ذی شعور شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ موجودہ و سابق حکمرانوں اور ان کے چہیتوںنے کیا گل کھلائے‘ بسیار خوری کے ریکارڈ قائم کئے اور تونسـ کے مریضوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آصف علی زرداری اور ان کے ڈاکٹر عاصم حسین جیسے ساتھیوں نے لوٹ مار اور نمودو نمائش کی شرمناک مثالیں قائم کی تھیں۔ موجودہ حکومت نے اپنے وعدے کے مطابق بے خوف احتساب کا کوڑا برسانے کے بجائے چشم پوشی بلکہ تقلید کی۔لوگ کھل کر یہ کہنے لگے ہیں کہ ان میگا سکینڈلز کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی کرپشن تو کچھ بھی نہیں۔ نندی پور‘ قائد اعظم سولر پارک نے ایم بی بی ایس وزیر اعظم کی کرپشن کہانیوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
مال مفت دل بے رحم کا مزید اظہار وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دورہ امریکہ کے سلسلے میں کیاہے۔ ایک گھنٹے کی تقریر کے لیے آٹھ دن کا غیر ملکی دورہ اور وہ بھی ایک ایسے وزیر اعظم کا جس کے ملک میں آگ لگی ہے ۔ قوم حالت جنگ میں ہے‘ سانحہ بڈھ بیر کو جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں گزرے اور ایک ماہ بعد وزیر اعظم کو امریکہ کا باضابطہ سرکاری دورہ کرنے کی دعوت بھی مل چکی ہے۔ ناقدین اگر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اہم قومی معاملات فوجی قیادت کے سپردکر کے اپنے آپ کو سیر سپاٹے اور طویل اجلاسوں کے لیے وقف کر دیا ہے تو غلط کیا ہے؟۔ کسی کی یہ خواہش ہے نہ مطالبہ کہ وزیر اعظم بیرون ملک نہ جائیں یا باہر جا کر کسی جھونپڑی میں قیام کریں‘ اپنا بیگ خود اٹھائیں اور کسی ڈھابے پر دال چاول کھائیں۔ مگر دورے اور سیر سپاٹے میں فرق ہے اور ضرورت کے مطابق اخراجات اور شہ خرچی میں بعدالمشرقین۔ اپنی جیب سے خرچ کرنے والے حکمران کیا ایسے ہوتے ہیں؟
لٹیروں اور حرام خوروں کا احتساب حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ کارگزاری کا بھانڈا نندی پور پاور پراجیکٹ اور قائد اعظم سولر پارک نے پھوڑ دیا ہے۔ نیب نے کرپشن کے ایک سو پچاس مقدمات کی فہرست عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی تھی‘ پڑھ کر آدمی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ایک ایک بااختیار و بااثر نے قومی خزانے اور قومی اثاثوں کو دس دس بارہ بارہ ارب روپے کا ٹیکہ لگایا ہے اور یہ سارے وہ لوگ ہیں جنہیں قومی اثاثوں‘ سرکاری اداروں اور قومی خزانے کا محافظ مقرر کیا گیا تھا۔ خربوزوں کی ‘ رکھوالی پر مامور ان گیدڑوں سے زیادہ انہیں کھیت سپرد کرنے والوں پر تعجب ہوتا ہے۔ مگر تعجب کیوں؟ انہیں لوٹ مار اور خرد برد کا موقع ہی تو فراہم کیا گیا تھا۔ عادی لٹیرے وزارتوں پر براجمان ہیں اور جس ایک آدھ پر نیب یا رینجرز نے ہاتھ ڈالا‘ اسے بے قصور ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگ رہا ہے۔
ملک میں جنرل راحیل شریف زندہ باد کے نعرے لگتے اور ''مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘ کے بینر آویزں ہوتے ہیںتو ہمارے جمہوریت پسندوں کی جبین شکن آلود ہوتی اور فشار خون بڑھنے لگتا ہے مگر یہ سوچنے کی توفیق کسی کو نہیں کہ لوٹ مار‘ نااہلی‘ اقربا پروری اوربدامنی کی گرم بازاری میں لوگ خواب نہ دیکھیں تو کیا کریں۔ شرم لٹیروں کو آنی چاہیے یا لٹنے والوں کو۔
اربوں روپے ڈکارتے ہوئے کسی کو اختلاج قلب کا دورہ پڑا نہ بدہضمی کی شکایت‘ باز پرس کے مرحلے میں ساری بیماریاں عود کر آئی ہیں۔ احتساب تو کسی کا ہو نہ ہو مگر الطاف حسین اور آصف علی زرداری کے کارکن خوش ہیں کہ انہیں اسی بہانے اپنے اپنے ظل سبحانی کے سامنے لب کشائی کا موقع مل گیا ہے اور کوئی روکتا ٹوکتا ہے نہ شٹ اپ کال دیتا ہے ورنہ الطاف حسین چپ رہنے والے کہاں تھے اور آصف علی زرداری ؟ ع
اے عشق مرحبا! وہ یہاں تک تو آ گئے
لُوٹنے کے لیے قومی خزانہ اور ملکی اثاثے ‘ سیر سپاٹے کے لیے امریکہ و یورپ اور رہنے کے لیے لندن و دبئی میسر ہوں تو آہنی زنجیروں والی سیاست اور جیل کا رخ کون کرے۔ مگر خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ؎
راہ رو‘ اپنی مسافت کا صلہ مانگیں گے
رہنما اپنی سیاست پہ پشیماں ہوں گے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں