اوباما ‘ قندوز اور پاکستان

امریکی صدر بارک اوباما کے اس اعتراف حقیقت کا افغان طالبان نے بھر پور فائدہ اٹھایا کہ ''طاقت اور دولت کے بل پر کسی ملک میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ قندوز پر طالبان کے قبضے نے اشرف غنی حکومت‘ امریکہ و نیٹو کی تربیت یافتہ تین لاکھ ساٹھ ہزار سکیورٹی فورس اور اتحادیوں کی چودہ سالہ جنگی کامیابیوں اور طاقت و دولت کے زور پر قیام امن کی قلعی کھول دی۔دو ہزار افغان طالبان نے جدید اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج‘ پولیس اور انتظامیہ کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
قندوز پر طالبان کے قبضے کی حیثیت علامتی ہے۔ مُلاّ عمر کی وفات کے بعد امریکی و یورپی تجزیہ کاروں‘ دانشوروں اور دفاعی ماہرین کو پختہ یقین تھا کہ طالبان ٹکڑیوں میں بٹ کر کمزور ہوں گے اور اشرف غنی‘ عبداللہ عبداللہ اتحاد کی رٹ افغانستان میں بآسانی قائم ہو گی۔ ابتدا میں ملا عمر کے خاندان اور چند طالبان کمانڈرز نے نئے امیر ملا اختر منصور سے اختلاف کیا اور متوازی دھڑا وجود میں لانے کی سعی کی مگر یہ سعی لاحاصل تھی کیونکہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود طالبان موروثی قیادت کے قائل ہیں نہ پیر پرستی اور خاندان پرستی کے جذبے سے مغلوب۔ چنانچہ طالبان حلقوں میں انتہائی طاقتور اور قابل احترام تصور کیے جانے والے مُلاّ عبدالقیوم ذاکر کی پرجوش مخالفت کے باوجود ملاّ حسن اخوند اور کوئٹہ شوریٰ کے مبینہ سربراہ مُلّا ہیبت اللہ نے کھل کر ملا اختر منصور کی حمایت کی اور شوریٰ کو بیعت پر آمادہ کیا۔
مُلاّ عمر کے بھائی عبدالمنان‘ صاحبزادے محمد یعقوب وغیرہ نے بھی چند روزہ مخالفت کے بعد بالآخر اختر منصور کی امارت پر صاد کیا اور دیگر اہم طالبان رہنما بھی انہیں مُلاّ عمر کا جائز ‘قانونی اور شرعی جانشین تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یوں زمینی حقائق سے یکسر بے خبر عناصر کی کہانیاں دم توڑ گئیں اور طالبان کی صفوں میں انتشار کی امید پر مری مذاکرات سبوتاژ کرنے والوں کو پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مُلاّ اختر منصور نے اپنے سخت گیر ساتھیوں اور مخالفین کو رام کرنے کے لیے مذاکرات کی مخالفت کر دی اور اشرف غنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ سے سکیورٹی معاہدہ منسوخ کر ے جس کی وجہ سے افغانستان طویل عرصہ کے لیے آزاد ریاست کے بجائے امریکی کالونی بن گیا ہے۔
طالبان ہر سال ''موسم بہار حملوں ‘‘کا آغاز کرتے ہیں جو اپریل سے نومبر کے دوران ہوتے ہیں۔ اگر یہ اطلاع درست تسلیم کر لی جائے کہ مُلاّ محمد عمر کا واقعی دو سال قبل انتقا ل ہوا تو پھر اس سال پچھلی سہ ماہی میں ہونے والے شدید ‘موثر اور کابل حکومت کے لیے پریشان کن حملوں کا کریڈٹ مُلاّ اختر منصور کو جاتا ہے جنہوںنے اتحادی افواج کی واپسی کے بعد اشرف غنی حکومت کو پورے ملک میں قدم جمانے دیے نہ باقی ماندہ اتحادی افواج(تقریباً بارہ ہزار) کو اطمینان کا سانس لینے دیا۔ قندوز پر قبضہ کر کے مُلاّ اختر منصور اور طالبان نے کابل حکومت کے علاوہ اس کے امریکی و یورپی پشتی بانوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ متحد‘ مضبوط‘ مرضی کا محاذ کھولنے اور افغان سکیورٹی فورسز کو بھاگنے پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ طالبان کی مرضی اور تعاون کے بغیر افغانستان میں سیاسی استحکام ممکن ہے نہ موجودہ حکومت کا طویل عرصے تک برقرار رہنا آسان۔
طالبان قندوز پر طویل عرصہ تک قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے‘ وہ امریکہ اور نیٹو فورسز کے فضائی حملوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور اپنا افرادی نقصان کراتے چلے جانے کے حق میں بھی نہ ہوں گے۔ یہ قبضہ بزور طاقت چھڑانا افغان حکومت کے بس میں نہیں۔ بھگوڑے فوجی خوفزدہ بھی ہیں اور طالبان نے سرعت سے واپسی کے راستے بھی مسدود کر دیے ہیں۔ اہم شاہراہوں پر خندقیں کھودنے کے علاوہ انہوں نے بارودی مواد نصب کر دیا ہے جس کی وجہ سے کابل یا اردگرد کے دوسرے شہروں سے آنے والی فوجی کمک جلد قندوز پہنچنے کی پوزیشن میں نہیں۔ قندوز اگرچہ ازبک‘ تاجک آبادی کا صوبہ ہے مگر یہاں بڑی تعداد میں پشتون آباد ہیں جو طالبان کے فطری اتحادی ہیں جبکہ حامد کرزئی کی طرح اشرف غنی حکومت نے بھی قندوز کے عوام کو روٹی روزگار کا تحفظ دیا نہ وار لارڈز سے نجات دلائی جو کسی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
یہ اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں کہ چند سال قبل پاکستانی قید میں رہنے والے مُلاّ عبدالسلام اخوند نے اپنے جنگجوئوں کی قیادت کرتے ہوئے قندوز پر قبضہ شمالی اتحاد کے ایک کمانڈر میر عالم کی مدد سے کیا جبکہ صوبائی عُمّال حکومت اور فوج سے تنگ آئے عوام نے بھی طالبان کو خوش آمدید کہا۔ کابل میں قائم تھنک ٹینک سنٹرفار سٹرٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر عبدالباقی کا خیال ہے کہ افغان فوج کے لیے قندوز واپس لینا آسان نہیں اور اس میں بہت وقت لگے گا۔ محض فضائی بمباری سے طالبان پسپا ہونے والے ہیں نہ اس سے حوصلہ پا کر افغان فوجی قندوز میں داخلے کی جرأت کریں گے‘ انہیں بالآخر طالبان سے مذاکرات کرنے ہوں گے‘ جو ماضی میں بھی کچھ شرائط منوانے کے بعد اپنے زیر قبضہ علاقوں کو واگزار کرتے رہے ہیں۔
قندوز پر قبضے کے ذریعے طالبان نے اپنے اتحاد اور مضبوطی کا تاثر دیا۔ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ افغانستان میں قیام امن کی کنجی اب بھی ان کے پاس ہے اور چودہ سالہ اتحادی تسلط‘ مہنگی ترین جنگ اور پروپیگنڈے سے ان کے حوصلے پست ہوئے نہ قوت و طاقت میں ضعف آیا اور نہ ان کا موقف تبدیل ہوا ہے۔ قندوز کابل کے شمال میں ہے‘ پاکستان کی سرحد سے دور اور ازبکستان ‘ تاجکستان کے قریب ‘اس لیے اشرف غنی و عبداللہ عبداللہ کی پاکستان کے خلاف الزام تراشی بے سروپاشوروغوغا کے سوا کچھ نہیں۔ امکان یہ ہے کہ نومبر تک بڑے حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور ممکن ہے کسی وقت کابل‘ جلال آباد یا کسی دوسرے شہر کو بھی اسی طرح ٹارگٹ کیا جائے۔ قندوز سے طالبان کو جدید ہتھیاروں کی کھیپ ‘ بڑی تعداد میں افغان کرنسی اور فوجی گاڑیوں کے علاوہ جیل میں قید اہم طالبان لیڈر اور جنگجو بھی ملے جو آئندہ کارروائیوں میں ان کے کام آئیں گے۔
اس کارروائی سے مُلاّ اختر نے اپنی جنگی استعداد‘ طالبان پر گرفت اور افغان حکومت و سکیورٹی فورسز کے مقابلے میں بہتر حکمت عملی و منصوبہ بندی کا مظاہرہ کیا اور اگر مری مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوا تو طالبان وفد نفسیاتی برتری کے احساس کے ساتھ شریک ہو گا ۔ممکن ہے اب ان کی شرائط زیادہ سخت ہوں اور وہ ممکنہ وسیع البنیاد حکومت میں زیادہ نمائندگی پر اصرار کریں۔ اگلے چند روز میں طالبان اگر قندوز سے واپس چلے گئے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ ہو گی اور نہ اسے پسپائی تصور کیا جا سکتا ہے۔ یہ طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہو گا۔ قندوز پر طویل عرصہ تک قبضہ برقرار رکھنا نقصان کا سودا ہے جو طالبان کرنے کے عادی نہیں۔
طالبان کی یہ طاقت آزمائی افغان حکومت اور امریکہ و یورپ کے لیے پریشان کن ہے مگر پاکستان کے لیے بھی اطمینان بخش نہیں۔ اشرف غنی نے تو'' ڈگی کھوتی توں تے غصہ کمہار تے‘‘ کے مصداق ہمیں بھائی کی جگہ ہمسایہ قرار دے دیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ بھی خوب برسے ہیں مگر کیا افغان طالبان کے ہمارے بارے میں جذبات دوستانہ اور برادرانہ ہیں۔ یہ اہم سوال ہے۔ جو افغان رہنما پاکستان میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر چکے اور جنہیں چند ماہ قبل میاں نواز شریف کی طرف سے یہ چتاونی ملی کہ انہوں نے افغان حکومت سے تعاون نہ کیا تو ان کے خلاف کارروائی میں ہم اشرف غنی حکومت کے ساتھ ہوں گے ‘وہ طاقت کے مظاہرے کے بعد ہماری بات ماننے کے کس قدر روادار ہیں؟
جو پاکستان دشمن عناصر افغانستان میں پناہ گزین ہیں اور جنہوں نے آرمی پبلک سکول و بڈھ بیر میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی وہ افغان طالبان میں کس قدر اثرورسوخ رکھتے ہیں؟ یہ بھی کسی کو علم نہیں اور ابھی تک یہ ایک الجھا ہوا معمہ ہے کہ مُلاّ فضل اللہ افغان طالبان کے مہمان ہیں یا حکومت افغانستان کے؟ حکومت کا کوئی بھارت نواز دھڑا ان کا میزبان ہے یا طالبان کا کوئی انتہا پسند گروپ؟ قندوز کے بعد اگر کسی دوسرے شہر پر حملہ یا قبضہ ہوا تو افغان حکومت کے علاوہ ہماری مشکلات بھی بڑھ جائیں گی‘ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ‘ یورپ ‘ چین‘ افغان حکومت اور پاکستان مل کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ انہیں ہٹ دھرمی چھوڑنے پر آمادہ کریں اور جائز مطالبات مان کر سسٹم کا حصہ بنائیں تاکہ افغانستان میں امن ہو اور سرکش طالبان کو داعش کی مدد حاصل نہ کرنی پڑے۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘ یہ پرانا محاورہ ہے ۔طاقت اور دولت سے کسی ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘صدر اوباما نے درست کہا اور طالبان نے درست سمجھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں